74 برس سے اقوام متحدہ سے انصاف کی تلاش کی متلاشی ریاست جونا گڑھ

1947ء میں خوشحال ریاست پر بھارت نے شب خون مارتے ہوئے ہڑپ کر لیا

بدھ 29 ستمبر 2021

74 Years Se United Nation Se Insaaf Ki Talash Ki Mutlashi Riyasat Junagarh
رابعہ عظمت
بھارت نے نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ جونا گڑھ،منادر اور ریاست حیدرآباد پر بھی بزور شمشیر پر قبضہ کر رکھا ہے افسوس ریاست جونا گڑھ کے حوالے سے پاکستان کی نئی نسل بالکل ناآشنا ہے وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ جونا گڑھ وہ بدقسمت ریاست ہے جس کا الحاق تو پاکستان سے ہو چکا تھا لیکن عین موقع پر بھارتی مکروفریب کا شکار ہو گئی۔

اس کا شمار امیر کبیر ریاستوں میں ہوتا تھا اور اس کے نواب کی پاکستان میں شمولیت کی خواہش تھی لیکن بھارت نے شب خون مارتے ہوئے یہاں اپنی فوج اتار دیں اور اس پر ناجائز قبضہ کر لیا۔قیام پاکستان کے وقت ریاست کے نواب مہابت خانجی نے 15 اگست 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا اور اس ضمن میں معاہدے پر دستخط بھی کئے گئے تھے،اس دستاویز پر قائداعظم کے بھی دستخط ہیں تاہم بھارتی فوج نے اس پر قبضہ کر لیا۔

(جاری ہے)

بھارتی قبضے کیخلاف سلامتی کونسل میں ایک قرار داد آج بھی اس کے ایجنڈے میں موجود ہے۔وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان کشمیر کی طرح یہ معاملہ بھی عالمی سطح پر اُٹھائے بلکہ اقوام متحدہ بھارتی تسلط ختم کروائے۔1972ء کے صدارتی آرڈیننس میں قیام پاکستان کے وقت موجود تمام ریاستوں کے حکمرانوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا تھا۔لیکن جونا گڑھ کا مقدمہ مختلف ہے کیونکہ دیگر ریاستوں کی طرح اس کا الحاق پاکستان سے نہ ہو سکا حالانکہ آئینی طور پر اس کا حصہ ہے۔


جونا گڑھ کی پاکستان کے ساتھ الحاق قرار داد منظور کرکے ملکہ الزبتھ اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پاس بھی بھیجی جا چکی تھی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ملکہ کے جوابی خطوط کی نقول بھی موجود ہے مگر ہوا اس کے برعکس بھارت نے کئی مسلم اکثریتی علاقوں کو غاصبانہ طور پر اپنے ساتھ شامل کر لیا جس کی دو بڑی مثالیں مقبوضہ کشمیر اور ریاست جونا گڑھ ہیں۔

تقسیم ہند کے وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ابتدائی طور پر اعلان کیا تھا کہ ریاستیں الحاق کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں چاہے جغرافیائی سرحدیں کسی بھی ملک کے ساتھ ملتی ہوں لیکن بعد ازاں اس نے اپنے فیصلے سے خود ہی مکر گئی۔جغرافیائی حدود اربعہ یعنی ایک ریاست کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں یا پاکستان سے کو جواز بناتے ہوئے ریاست جونا گڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی گئی۔

ہندو رہنماؤں نے اپنے نام نہاد اکھنڈ بھارت کے مذہبی اعتقاد کو سیاسی روپ دے کر ماؤنٹ بیٹن سے گٹھ جوڑ کر لیا۔اس بات کی پوری کوشش کی گئی کہ پاکستان کو جغرافیائی اور معاشی طور پر جتنا محدود کیا جا سکتا ہے،کیا جائے۔جونا گڑھ کا مسئلہ پاکستان کیلئے ناگزیر مسئلہ ہے اور ریاست جونا گڑھ پاکستان کا قانونی حصہ ہے کیونکہ قائداعظم اور نواب آف جونا گڑھ کی دستخط شدہ قانونی الحاق دستاویز کی موجودگی میں ریاست پر بھارتی تسلط غیر آئینی ہے اور پاکستان کا دعویٰ بین الاقوامی سطح پر قانونی طور پر مسلم ہے اس لئے اس مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان کو تمام بین الاقوامی فورمز کو استعمال کرنا چاہیے۔

بھارت نے جب انصاف کی دھجیاں بکھیریں تو قائداعظم نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تاکہ اس مسئلہ کا قانونی حل نکالا جائے۔پاکستان میں ابتداء میں تو جونا گڑھ کا مسئلہ سیاسی اور تعلیمی حلقوں میں زیر بحث رہا۔بعد ازاں اس اہم مسئلہ کو نظر انداز کر دیا اور آئینہ تاریخ میں اس کی اہمیت کو دھندلا دیا۔جونا گڑھ کا مسئلہ کتابوں میں تو پیش کیا گیا لیکن بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی خاطر خواہ کاوشیں نظر نہیں آتیں۔

بدقسمتی سے اس مقدمہ کو اس طرح لڑا ہی نہیں گیا جیسا اس کا حق تھا اب وقت آچکا ہے کہ اس مسئلے کا قانونی دعوے دار پیش رفت کرے اور کنٹرول سنبھالے۔
جونا گڑھ پر قبضے کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ ظفراللہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں 18 فروری 1948ء میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سلامتی کونسل کے اراکین دستاویز نمبر (2) سیکشن (B) کی طرف توجہ فرمائیں تو مسئلہ جونا گڑھ کا مختصر احوال ملے گا۔

اس دستاویز کے چوتھے حصے کے حتمی پیراگراف (C۔2اور D) میں سلامتی کونسل سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ کمیشن (یا کمیشنوں) کے ذریعے C اور جونا گڑھ،منادر اور دیگر کاٹھیا دار ریاستیں جو کہ پاکستان سے الحاق کر چکی ہیں وہاں سے ہندوستانی افواج اور انڈین سول بیورو کریٹس کو ہٹا کہ یہ ریاستیں قانونی حکمرانوں کے حوالے کی جائیں۔”D“ یہ ریاستیں جن کا تذکرہ C میں کیا گیا ہے ان کے باشندوں کی جو ان ریاستوں سے جبراً نکال دیئے گئے ہیں یا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں،دوبارہ ان کے مکانات،زمین اور جائیداد واپس دلوائی جائیں،امداد پہنچائی جائے۔

نیز ہندوستان کے فوجیوں،سول حکام اور مداخلت کاروں کی غیر قانونی کارروائیوں کی وجہ سے جو نقصان ہوئے ہیں ان کا معاوضہ دلایا جائے۔جس طرح تشکیل پاکستان ایک تاریخی واقعہ ہے عین اسی طرح الحاق جونا گڑھ بھی اپنے اندر کئی تاریخی پہلو لئے ہوئے ہے لیکن بدقسمتی سے اس اہم واقعے کو بھی نہایت بے حسی کے ساتھ بھلا دیا گیا ہے۔الحاق جونا گڑھ کا فیصلہ بھارتی حکمرانوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔


جونا گڑھ 4600 مربع میل پر مشتمل ہے۔1748ء میں ریاست جونا گڑھ قائم ہوئی۔1807ء میں یہ برطانوی زیر حمایت ریاست بن گئی۔1818ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن سوراشٹر علاقہ برطانوی راج کے براہ راست کبھی نہیں آیا۔اس کے ہمسائے برطانیہ نے اسے ایک سو سے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کر دیا تھا جو کہ 1947ء تک قائم رہیں۔موجودہ پرانا شہر جو کہ انیسویں اور بیسوی صدی کے دوران ترقی پایا سابقہ نوابی ریاستوں میں سے ایک ہے۔

اس کے ریاست کے نواب کو 13 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ریاست کا کراچی سے سمندری فاصلہ 480 کلو میٹر ہے۔یعنی ساحل کراچی سے صرف 44 میل کے فاصلے پر ہے۔جونا گڑھ کی کئی سو سالہ تاریخ ہے اور اس طویل تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ریاست کی خوشحالی اور امن و امان کا منظر نمایاں ہو جاتا ہے۔ریاست کے پہلے نواب بہادر خان ہیں جنہیں اس وقت کے ہندوستان کے بادشاہ شاہ محمد نے شیر خان کے خطاب سے نوازا تھا۔

1748ء سے نوابین کی کئی نسلیں جونا گڑھ ریاست کی حکمران رہیں۔9 نومبر 1947ء میں بھارتی قبضے کے بعد کا دور بھی نوابین کی تین نسلوں پر محیط ہے۔مگر یہ ریاست ابھی تک آزاد نہیں ہو سکی۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت صرف کراچی میں ریاست جونا گڑھ کے 20 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔وہ اس امید پر ہیں کہ کبھی ریاست سے بھارت کا غاصبانہ قبضہ ختم ہو کر رہے گا اور جونا گڑھ پاکستان کا حصہ بن جائے گا جو ان کا دیرینہ مطالبہ ہے اور ان کا حق بھی۔

بھارت قبضے کے بعد ریاست کی اراضی اور نواب کے محلات کو سیل کر دیا گیا تھا،ان محلات کی تباہی اور بربادی کی منہ بولتی داستان دنیا کے سامنے ہے۔اس ضمن میں نواب ریاست آف جونا گڑھ نے اپنا مقدمہ اقوام متحدہ میں دائر کیا تھا مگر اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔1947ء میں آزادی کے وقت ریاست جونا گڑھ کی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی جس کی بنیاد پر ریاست پاکستان سے الحاق کی متمنی تھی جو کہ فطرت کے بھی عین مطابق تھا کیونکہ پاکستان دو قومی نظریے کی بناء پر ہی وجود میں آیا تھا اور اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ جو مسلم اکثریت والے علاقے ہونگے وہ تمام کے تمام پاکستان میں شامل کئے جائیں گے اور ہندو اکثریتی علاقے ہونگے انہیں بھارت میں ختم کیا جائے گا۔

اب جو ہندو اکثریتی علاقے تھے انہیں تو بھارت نے اپنے ساتھ الحاق کر دیا لیکن مسلم اکثریتی ریاستیں مقبوضہ کشمیر،جونا گڑھ،حیدرآباد اور منادر کی آزادی کو سلب کرکے انہیں خود میں جبراً شامل کر لیا۔
برطانوی قانون دان سر ریڈ کلف نے انتہائی جانب داری سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بددیانتی کا مظاہرہ کیا تو دوسری طرف بھارت نے بھی ریاستوں کے الحاق میں نت نئے مسائل کو جنم دیا۔

جنوبی ہند کی دو بڑی ریاستوں ٹراؤنکور اور حیدرآباد دکن نے خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بھارت نے قانون آزادی پسند کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ان پر فوج کے ذریعے قابض ہو گئی۔ہندوستان کے حکمرانوں نے نواب صہابت خانجی کو لالچ،دھمکیوں اور حیلوں سے ورغلانے اور دھماکے کی کوشش کی لیکن نواب کے قدم نہ ڈگمگا سکے۔ افسوس جونا گڑھ کا کیس اقوام متحدہ میں فائل ہونے کے بعد آج تک اسے مسئلے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے جا سکیں۔

مسئلہ جونا گڑھ پر اقوام متحدہ کی خاموشی مضحکہ خیز ہے۔حالانکہ جونا گڑھ پاکستان کا آئینی و قانونی حصہ ہے۔ریاست جونا گڑھ کے الحاق کے خلاف بھارت کا یہ استدال تھا کہ جونا گڑھ اور منادر کے پاکستان میں شامل ہونے سے بھارت کی سلامتی کا خطرہ لاحق ہو گا۔
جونا گڑھ نواب کو رائے شماری کروانا چاہیے تاکہ عوام کی رائے معلوم ہو سکے اور یہ رائے شماری ہندوستان اور جونا گڑھ اور ریاست نے کشمیر میں رائے شماری ٹھکرا کر وہاں کے ہندو راجہ کے الحاق کی خواہش کی رٹ لگا رہا تھا لیکن جونا گڑھ کے معاملے میں حکمران کی خواہش کے برعکس کی صوابدید کا پرچار کرنے لگا۔

یہ نظریاتی قضاد درحقیقت ہندوستان کی جارحانہ حکمت عملی کا ایک حصہ تھا۔بہرحال ریاست میں رائے شمار محض ایک دکھاوا تھا۔دراصل وہ جونا گڑھ تو ہڑپ کے منصوبے پر عمل کرنا چاہتا تھا۔ہندوستان نے اپنی فوجیں ریاست میں داخل کر دیں ۔ ریاست کے رسل و رسائل کے ذرائع تو منقطع کر دیا۔ریلوے اور سڑکوں کو کاٹ دیا گیا۔اس کے نتیجے میں ریاست کا نظم و نسق ہی تباہ کر دیا۔

پھر اس نے بین الاقوامی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کیلئے گفت و شنید کا اعلان کر دیا۔پاکستان حکومت نے رائے شماری کو تجویز پیش کی لیکن بھارت ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ادھر ریاست میں اندرونی حالات ابترین کا شکار ہو رہے تھے۔بھارت نے جونا گڑھ کو بزور شمشیر ناجائز تسلط جما لیا۔9 نومبر کو ریاست جونا گڑھ پر ہندوستان کا مکمل قبضہ ہو گیا اور ریاست کا نیا گورنر مقرر کر دیا گیا۔

یہ فیصلہ انگریزی حکومت کے فیصلے کے خلاف تھا جس میں درمیان ریاست کو پاکستان یا ہندوستان میں کسی سے الحاق کا حق دیا تھا اور جونا گڑھ پاکستان سے الحاق کے حق میں فیصلہ دے چکا تھا۔20 جنوری 1949ء کو جونا گڑھ کو نئی ریاست سوراشٹرا میں ضم کر دیا گیا۔1960ء میں جونا گڑھ میں مہا گجرات موومنٹ کے نتیجے میں ریاست گجرات کا حصہ بنا دیا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

74 Years Se United Nation Se Insaaf Ki Talash Ki Mutlashi Riyasat Junagarh is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 September 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.