امریکی انتخابات میں 3.45ملین مسلمان ووٹرز کہاں کھڑے ہیں

اسلام امریکہ کا تیسرا بڑا مذہب ،مسلمان امریکہ کی چوتھی بڑی آبادی ہیں

جمعہ 23 اکتوبر 2020

Americi Intekhabat Main 3.45 Million Musalman Voters Kahan Khare Hain
رابعہ عظمت
امریکا بھر میں تیس لاکھ سے زائد مسلمان بستے ہیں،جن میں سے پندرہ لاکھ ووٹنگ کے لئے رجسٹرڈ ہیں ،جوکسی بھی امیدوار کی کامیابی میں اہم کردار ادا کریں گے۔امریکہ میں 3.45ملین مسلمان ملک کی کل آبادی کا ایک فیصد بنتے ہیں۔مسلمان تنظیموں کے مطابق اصل تعداد 70لاکھ سے بھی زائد ہے،صرف نیویارک سٹی میں ہی 8سے 10لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق نیویارک سٹی میں کل رجسٹرڈ مسلمان ووٹروں کی تعداد 8لاکھ 24ہزار ہے جو امریکی انتخابات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق کل مسلم رجسٹرڈ ووٹرز کی 2تہائی یعنی تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ ووٹرز ڈیمو کریٹ پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جبکہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ ووٹرز ری پبلکن کے حامی ہیں۔انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں سے متعلق متنازع بیانات کے بعد اس تعداد میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جس رفتار سے امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اس تناسب سے 2050ء تک امریکہ میں 81ملین مسلمان ہوں گے اور اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب شمار ہو گا۔

ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں آباد مسلمانوں میں 20 فیصد افراد ایسے ہیں جنہوں نے امریکہ ہی میں اسلام قبول کیا۔ایک اور تحقیق کے مطابق امریکہ میں مقیم 34فیصد مسلمان جنوبی ایشیائی ممالک سے آئے، 26فیصد عرب ممالک سے اور 25فیصد افریقی ممالک سے ہجرت کرکے آئے۔امریکی آئین اور قوانین کے مطابق مذہب کی بنیاد پر کسی بھی شہری یا سیاحت کے لئے آنے والے افراد کی تخصیص نہیں کی جاتی۔

تاہم مختلف مذہبی تنظیمیں اور کمیونٹی گروپ اپنے طور پر فلاحی کاموں کے لئے اعداد و شمار جمع کرتے ہیں جنہیں مختلف تحقیقی ادارے شائع کرتے رہتے ہیں۔متعدد رپورٹس کے مطابق امریکہ میں 2016ء مساجد ہیں۔سب سے زیادہ مساجد نیو یارک میں ہیں جن کی تعداد 257ہے۔کیلیفورنیا میں 246،ٹیکساس میں 166،فلوریڈا میں 118اور نیوجرسی میں 109مساجد ہیں۔دیگر اسلامی ممالک کی طرح امریکہ میں بھی مسلک اور فقہی بنیادوں پر مساجد اور درس و تدریس کا کام کیا جاتا ہے ۔

امریکہ میں مقیم مسلم تارکین وطن نے بتدریج ایک منظم مقام بنا لیا ہے مگر ابھی تک برطانیہ کی طرح ابھی امریکہ کی مسلم آبادی کو وہاں کی پارلیمنٹ اور حکومت میں نمایاں مقام حاصل نہیں ہو سکا۔
تاہم امریکی ریاستوں مشی گن،فلوریڈا،وسکونسن اور پنسلوانیا میں،ان کے ووٹ کو خاص طور پر کار آمد بناسکتی ہے۔مشی گن میں بائیڈن زیادہ تر انتخابات میں ٹرمپ کی قیادت کر رہے ہیں۔

پولنگ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلم ووٹرز کی بھاری اکثریت ڈیمو کریٹک پارٹی کی حمایت کرتی ہے۔مسلم شہری حقوق اور وکالت کرنے والی تنظیم،کونسل برائے امریکن۔اسلامک ریلیشنس کے حالیہ سروے کے مطابق 71 فیصد مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ بائیڈن کو ووٹ دیں گے۔مشی گن مسلم کمیونٹی کونسل کے چیئرمین محمود الہدیدی کا کہنا ہے مسلمان امریکی ایک متنوع گروہ ہیں جو مشرق وسطی،افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیاء سے آنے والے تارکین وطن کی لہروں پر مشتمل ہے،جن میں سے کچھ کا تعلق 1930ء کی دہائی کے اوائل سے ہے اور تقریباً پانچواں مسلمان امریکی نژاد سیاہ فام امریکی ہیں۔

اس بار امریکی صدارتی انتخابات میں لاکھوں مسلم ووٹرز کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔امریکا کی کچھ اہم ریاستوں میں مسلمان ووٹرز کی تعداد آئندہ انتخاب میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، 2016ء انتخاب میں امریکی صدر 11ہزار سے کم ووٹ کے ساتھ مشی گن میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ اس ریاست میں 15لاکھ مسلمان ووٹرز ہیں۔
نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے نزدیک آتے ہی جوش و خروش بڑھ گیا ہے اور دیگر عوام کے ساتھ مسلم کمیونٹی بھی اس حوالے سے سر گرم ہو چکی ہے۔

پیو ریسرچ مرکز کے مطابق اگرچہ مسلمان امریکہ میں ایک فیصد ہے تاہم اہم ریاستوں میں ان کی اکثریت انتہائی اہمیت کا حامل ہے بالخصوص مشی گن،اوہایو و ویر جینا میں مسلم ووٹ بہت اہم شمار ہوتاہے۔مسلمانوں کا خیال ہے کہ اگر وہ کسی ایک پارٹی کی حمایت کریں گے تو وہ کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔34سالہ مسلمان امریکی خاتون فاطمہ سلمان کا کہنا ہے کہ وہ جوبائیڈن کو ووٹ دے گیں۔

سلمان کا کہنا ہے کہ ان کے تین بیٹے ہے اور وہ ٹرمپ کے آنے سے خوفزدہ ہے۔مسلمانوں کا خیال ہے کہ انتخابات کے بعد ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں پر سفری پابندیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔مسلم الیکشن مشیر فاروق میتا کا کہنا ہے کہ ہم سر گرمی سے مہم چلا رہے ہیں اور ہمارا کردار بہت اہم ہو گا۔ٹرمپ کے الیکشن مہم چلانے والے کورٹنی پارلا کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے مذہبی اور اقتصادی سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے پر عزم ہے۔

مسلمانوں سے امتیازی سلوک اور کورونا بحران میں ناکامی ٹرمپ کے حوالے سے منفی پوائینٹس شمار کیے جاتے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق لوگ مجبوراً بائیڈن کو ووٹ دیں گے صرف ٹرمپ کی مخالفت میں،ورنہ وہ بائیڈن کے بھی زیادہ حامی نہیں۔امریکی مسلمانوں کو یہ حقیقت ماننا ہو گی کہ وہ امریکہ میں ایک چھوٹی اقلیت ہیں اور امریکی معاشرے میں دیگر بڑی اقلیتوں کے ساتھ مشترکہ مقاصد کی بنیاد پر بلا لحاظ مذہب معاشرتی اور سیاسی تعاون کرنا ہو گا۔

امریکہ کے مسلمانوں کو خود اپنے اوپر انحصار کرنا ہو گا۔مسلم دنیا کے کتنے حکمرانوں نے ڈ ونلڈ ٹرمپ کے مسلم مخالف بیانات پر ڈپلو میسی،پبلک بیانات کے ذریعے احتجاج کیا یا اس کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا سرمایہ کاری واپس لی اور اپنے ملک میں اس کے کاروبار پر رسمی پابندی ہی کا اعلان کیا؟وہ بیچارے تو خود اپنی بقاء کی کشمکش میں غوطے کھا رہے ہیں۔

لہٰذا امریکی مسلمان آگے بڑھ کر اپنے ووٹ رجسٹر کرائیں دیگر اقلیتوں سے رابطے بڑھائیں مشترکہ پلیٹ فارم قائم کریں۔ دراصل صدر ٹرمپ کے مسلم مخالف رویے و بیانات نے بھی امریکہ کی مسلم اقلیت کو بھی خوف زدہ کر رکھا ہے۔
دوسری جانب دنیا کے مختلف حصوں سے آکر امریکہ میں آباد ہونے والے تارکین وطن 2020کے صدارتی انتخاب میں اہم قرار دئیے گئے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے انتخابات میں امریکی شہریت اختیار کرنے والے دو کروڑ 30لاکھ افراد ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سنٹر کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق جو امریکہ کی مردم شماری کی روشنی میں ترتیب دیئے گئے ہیں،بتاتے ہیں کہ اس سال تارکین وطن ووٹروں کی تعداد امریکہ کے کل ووٹوں کا 10فیصد ہو گی۔حالیہ رجحانات کو اگر دیکھا جائے ،تو نئے امریکی شہری جمہوری عمل میں جوش و خروش سے حصہ لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ایل سیلواڈار سے تعلق رکھنے والی برینڈا سائین فیو گوس جو حال ہی میں امریکی شہری بنیں ،ایسے ووٹروں میں شامل ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لئے بے تاب ہیں،کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ووٹ ان جیسے لاطینی امریکیوں کو ایک آواز دیتاہے۔برینڈا جو دو بچوں کی ماں ہیں،قانونی طور پر 2010ء میں امریکہ آکر آباد ہوئیں اور اس سال امریکی شہری بننے کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو ایک ووٹر کی حیثیت سے رجسٹر کرایا۔

امریکہ میں تمام سیاسی نظریات رکھنے والے گروپ،تارکین وطن ووٹروں کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔لنکن پراجیکٹ نامی منصوبے کے بانی مائیک میڈرڈ کہتے ہیں کہ اس بات کی توقع ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے ووٹروں کے مقابلے میں تارکین وطن زیادہ شرح سے ووٹ ڈالیں گے۔ری پبلکن قومی کمیٹی کے ہسپانوی ذرائع ابلاغ کے ڈائریکٹریالی نیو نیز نے بتایا کہ ریپبلکن پارٹی امریکی شہریت اختیار کرنے والے تارکین وطن سمیت تمام شہریوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اہمیت کو سمجھتی ہے کیونکہ تمام امریکہ شہری ووٹر ہیں۔

اس سال ووٹ کا حق استعمال کرنے کے اہل تارکین وطن شہریوں میں نئے لاطینی اور ایشیائی ووٹروں کا تناسب تقریباً دو تہائی ہے۔2016ء کے انتخابات میں 53فیصد لاطینی اور 52فیصد ایشیائی ووٹروں نے ووٹ ڈالے۔جبکہ ان رجحانات کے مقابلے میں امریکہ میں پیدا ہونے والے لاطینی ووٹروں کی شرح 46فیصد اور امریکہ میں پیدا ہونے والے ایشیائی ووٹرز کی شرح 25فیصد رہی۔

ووٹ کا حق استعمال کرنے والے تارکین میں سب سے زیادہ تعداد بالترتیب میکسیکو،فلپائین،بھارت اور چین سے آئے تارکین وطن کی رہی۔نیویارک،کیلی فورنیا اور ٹیکساس جیسی ریاستوں میں لاطینی ووٹروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔فلپائن سے تعلق رکھنے والی اولیویا کوونٹو اس سال کے انتخابات کو امریکہ کے لئے بہت اہم سمجھتی ہیں وہ اس سال کوویڈ 19کے دوران امریکی شہری بنیں لیکن اس وبا کے باعث کوئی بھی عزیز یا دوست ان کی حلق برداری کی تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔

کوونٹو اس سال اپنی والدہ کے ہمراہ تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالیں گی۔انتخابات کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے ذہن میں یہ سوچ بہت اہم ہے کہ اس سال کے انتخابات کا تعلق ان معاملات سے ہے،جو ان کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔
امریکہ سیاست بنیادی طور پر دو جماعتی نظام پر قائم ہے اور صدر ان ہی دو جماعتوں میں سے کسی ایک سے منتخب ہوتا ہے۔

رپبلکن پارٹی جو اقدامات پسند جماعت ہے اس کی طرف سے 2020ء کے صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نامزد کیا گیا ہے اور وہ چار سال کی صدارتی مدت مکمل کرنے کے بعد دوبارہ منتخب ہونے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ڈیمو کریٹک پارٹی ایک لبرل جماعت ہے اور ان کے امیدوار جو بائیڈن ہے جو ماضی میں سابق صدر اوباما کے ساتھ آٹھ سال تک نائب صدر کے اہم عہدے پر فائز رہے ہیں اور سیاست کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

امریکی سیاسی نظام میں اگر آپ امریکی شہری ہیں اور آپ کی عمر اٹھارہ برس یا اس سے زیادہ ہے تو ہر چار سال بعد منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب میں آپ کو ووٹ کے ذریعے اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔بہت سی ریاستوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ایسے قوانین منظور کی ہیں جن کے تحت ووٹ ڈالنے سے قبل شہریوں کو اپنی شناختی دستاویزات پیش کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

ایوان نمائند گان کی تمام کی تمام 435نشستوں پر انتخاب ہو رہا ہے جب کہ سینیٹ کی 33نشستوں پر بھی نئے نمائندے چنے جائیں گے۔ووٹوں کی گنتی میں کئی دن لگ سکتے ہیں لیکن انتخاب کے بعد دوسری صبح ہی بڑی حد تک یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انتخابی کامیابی کا سہرا کس کے سر سجے گا۔صدر ٹرمپ نے 2016ء میں نیویارک میں انتخابات کے دوسرے دن علی الصبح تین بجے اپنے حامیوں کے سامنے جیت کا اعلان کر دیا تھا۔نئے صدر اپنے عہدے کا حلف روایتی طور پر 20جنوری کو اٹھاتے ہیں اور اس تقریب کو افتتاحی تقریب کا نام دیا جاتا ہے جو امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کیپٹل بلڈنگ کی سیڑھیوں پر منعقد ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Americi Intekhabat Main 3.45 Million Musalman Voters Kahan Khare Hain is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 October 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.