عورت مارچ بمقابلہ حیاء مارچ

ہماری عورت کا دشنام فحش پوسٹروں والے نعروں سے تو کوئی لینا دینا ہی نہیں ۔ہمارے مسائل علیحدہ ہیں اور پوسٹروں والے نعرے علیحدہ ہیں۔تو پھر ہماری خواتین ان کا ساتھ کیسے دے سکتی ہیں یہ الفاظ اور نعرے ہمارے معاشرے کی عورتوں کے مستقبل کے برعکس ہیں

Mian Mohammad Husnain Kamyana میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ ہفتہ 7 مارچ 2020

aurat March ba muqabla Haya March
8 مارچ کا دن ہرسال پوری دنیا میں یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن دنیا بھر کی تنظیمیں،سیمینار ،اجلاس اور تقریبات منعقد کرتی ہیں ۔جس کا مقصد عورت کے حقوق ، ظلم وزیادتی پر آواز اٹھانا، اوران کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کی خواتین کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ طبقہ نسواں ہر جگہ ظلم و ستم کا شکار ہیں بالخصوص وہ ممالک جو آزادی نسواں پر زیادہ شور مچاتے ہیں اوران کی خواتین کا استحصال اتنا ہی زیادہ ہے مغرب میں عورت کی حالت زار بہت زیادہ خراب ہے ۔


ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی ہر چوتھی عورت کو اپنے شوہر ،بوائے فرینڈ سے زرد کوب ہونا پڑتا ہے اور بعض اوقات تو پٹائی کی شدت کایہ عالم ہوتا ہے کہ بے چاری عورتیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں چنانچہ امریکہ میں ایسی عورتوں کی تعداد 5کروڑ سے بھی زیادہ ہے اور امریکی مصنفہ این جانز کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں ہر سال 3ہزار سے زائد خواتین اپنے ہی شوہروں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ قتل کی سزا زیادہ سے زیادہ 6سال قید ہوتی ہے لیکن اگر مسلسل ظلم و استبداد سے تنگ آ کر عورت مرد کو قتل کر دے تو عورتیں ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں جیلوں میں ہی مرجاتی ہیں سویڈن،برطانیہ اور جرمنی میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں۔

(جاری ہے)

افریقہ میں عورتوں کو مختلف تکالیف دے رواج کا سامنا ہے یہ اوردیگر مغربی ممالک کی عورتیں واپس اپنی فطرت میں پلٹنے کی کوشش میں اس دن زور لگاتی ہیں لیکن اس حوالہ سے کام کرنے والی این جی اوز درحقیقت میں عورت کی آزادی کے نام پر ان کا استحصال کر رہی ہیں اور انہیں معاشرے میں چلتا پھرتا اشتہار بنا کر مغربی ایجنڈے پورے کرنا چاہتی ہیں ۔

جس کی جھلک گزشتہ سال سے پاکستان میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔جس کی وجہ سے عورت مارچ ہوتا ہے،جلوس نکلتے ہیں اور خواتین پلے کارڈاٹھاکر سٹرکوں پر آتی ہیں جن پر واضع طور پر غلیظ ، غیر اخلاقی جملے لکھے ہوتے ہیں اورمیرا جسم میری مرضی کے سلوگن کی تشہیر کررہی ہوتی ہیں ۔اپنی ساخت نمایاکرتی ہیں اوربے حیائی ،بے پردگی ،عریانیت،بے ادبی ،بے حمیتی ،بے شرمی،بے لحاظی،بے مروتی کی زیب وزینت بنتی ہیں۔

 
خواتین کی سماجی وفلاحی تحریکوں اور تنظیموں کی لیڈر پروگراموں میں تصویریں بنواتی ہیں سوشل میڈیا پراپ لوڈ کرتی ہیں ،الیکٹرانک میڈیا کی بریکنگ نیوز،پرنٹ میڈیا کی شہ سرخیوں اور ہیڈلائنوں کی شان کے شایان بنتی ہیں اور گھرو ں کو لوٹ جاتی ہیں لیکن ایسی این جی اوز اور ان کی پروردہ خوتین کی طرف سے کبھی برما،شام، فلسطین اور دیگر خطوں میں حوا کی بیٹی پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کے خلاف کبھی کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی۔

اس سے اگلے روز سے روٹین کی زندگی پھر شروع ہو جاتی ہے ۔لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنا بجٹ لے کر سال بھر کے اخراجات پورے کرتی ہیں، اور بے چاری خواتین کسمپرسی،بے کسی کی زندگی گزارنے پر دوبارہ مجبور ہو جاتی ہیں۔ سال بعد ان ،این جی، اوز،کو دوبارہ بخار اٹھتا ہے پھر وہی خوش نمانعروں کے ساتھ، بے حیائی ،بے شرمی،کو فروغ دیتے ہوئے 8مارچ کو دوبارہ وہی کچھ بلکہ اس سے بھی زیادہ بد تہذیبی کرتی ہیں۔

جو گزشتہ سال سے ہورہی ہے آٹھ مارچ کا دن گزرنے کے بعد وہی ہوتا ہے جو سال بھر ہوتا رہتا ہے ۔یہ سب کچھ 1910ء سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔اگر ان کا یہ ایجنڈا ٹھیک ہوتا تو عورتوں کے حقوق غصب نہ ہوتے ،سارا سال ظلم و بربریت میں مزید شدت نہ آتی اور تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی تعداد میں کمی آتی لیکن یہ روز بروز بڑھتاہی جارہا ہے۔ وجہ عورت مارچ میں عریانی، فحاشی پلے کارڈپر لکھی ایسی عبارتیں اورنعرے، میرا جسم میری مرضی،ہم جس کے چاہیے بچے پیدا کریں،ہماری مرضی ہم اپنے خاوند سے تعلق بنائیں یا نہیں جیسے غلیظ الفاظ جن کو شریف اور با حیاء عورت سننا بھی پسند نا کریں۔

جو لوگ آج ایسے نعروں کو ڈیفنڈکر رہے ہیں انھیں بھی اگرماروی سرمد جیسی بہن،بیٹی،بیوی،ماں مل جائے اور ان کے گھروالے اس کے نقشے قدم پر چلنے لگ جائے تو کیا ہو گا کیا یہ سب کچھ ایسا برداشت کرے گئے مذرت کے ساتھ ۔
 ماروی سرمد کی ذات و خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں پھر بھی ہم اور ہمارا کچھ دجالی میڈیا اس کے چرچے،بیانات،خیالات ،حکایات ،گفتگو کو ہمارے معاشرے میں پرموٹ کر رہا ہے۔

اس بات کے باوجود کہ لاہور کی ایک عدالت نے عورت مارچ کی اجازت تو دی ہے۔ مگر میرا جسم میری مرضی جیسے جملوں کے استعمال سے منع کیا ہے ۔لیکن عدالت کے منع کرنے کے باوجود ماروی سرمد نے نیشنل میڈیا پر ناصرف اس جملے کا استعمال کیا،ریاستی رٹ کو چیلنج کیا اور فحاشی،بے حیائی کے لئے عورتوں کو اکسایا لیکن اس کے باجو د بھی قانون نافذکرنے والے ادارے اس کے خلاف حرکت میں نہ آئے ۔

اس کے یہ بے ہودہ نعرے مشرقی عورت کی ترجمانی نہیں کرتے ہیں۔ کیوں کے ہماری عورتوں کے مسائل تعلیم ، روزگار ،وارثتی حقوق،جنسی تشدد،ان کی مرضی کے خلاف ان کے فیچر کے فیصلے کرنا،کم عمری میں شادی کرنا،آفس میں اپنی عزت کو محفوظ ور اس کا تحفظ کرناکے ہیں۔ ہماری عورت کا دشنام فحش پوسٹروں والے نعروں سے تو کوئی لینا دینا ہی نہیں ۔ہمارے مسائل علیحدہ ہیں اور پوسٹروں والے نعرے علیحدہ ہیں۔

تو پھر ہماری خواتین ان کا ساتھ کیسے دے سکتی ہیں یہ الفاظ اور نعرے ہمارے معاشرے کی عورتوں کے مستقبل کے برعکس ہیں ۔ماروی سرمد صاحبہ اور اس جیسی عورتوں کوکس قسم کی آزادی چاہے اور وہ مرد جو عور ت کی آزادی کی بات کر رہے ہیں انھیں تو صرف عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہے بس۔ یہ کون سا کلچر کون سی طرزکی تہذیب،تمدن،ثقافت، اور کون سی شائستگی اس معاشرے میں لانا چاہتے ہیں ۔

میرے محترم اور محترمہ صاحبہ آپ پاکستانی ،ماوٴں،بہنوں،بیٹیوں کے کس طرح کی قردار سازی کرنا چاہتی ہیں۔آپ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے نام پر بے حیائی ،فحاشی پھلارہی ہیں اور خاص طور پر ہمارے چند بااثر شخصیات، نام نہادسکالر ،مفادت پرست کاذب میڈیااور اینکر پرسن جنھیں سب پتہ ہے کہ محترمہ اور ان کے درباری ،حواری،مالشیے،پالشیے ،حاشہ بردار،کیاکرناچاہتے ہے ۔

پاکستان میں ان کے مقاصد ،مفادات کیا ہے پھر بھی ان کو پرموٹ کرنے کے لئے ٹاک شو میں بلاتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارے میڈیا ہاوٴس،اخبارات ،تشہیروالی کمپنیاں ہمارے معاشرے کی خواتین کو کس طرف لے جا رہی ہیں ہر اشتہار چائے صابن ،شیمپو ،کریم،ٹوتھ پیسٹ ،موبائل کے مختلف انٹرنیٹ پیکجز ،حتی کہ موٹر سائیکل کاہو کوئی بھی پروڈکٹ ہو کسی بھی کمپنی کی ہو ۔

ہر اشتہار میں عورتیں ہونا ضروری ،عورت کی ساخت کو نمایا دیکھاکر اس پروڈکٹ کی تشہیر کی جاتی ہے عورت کے حسن اور زیبائش کو جو اپنی جگہ قابل احترام ہے اشیا کی فروخت کا ذریعہ بنانے کے لئے عورت کی تصویر اور اس کے حسن و زیبائش کو پیش کرنے کا کوئی بھی نظریہ ہو مگر رقم الحروف کے خیال میں یہ عورت کی تذلیل و توہین اور اس کا استحصال ہے ۔مرد میں عزت اور عورت حیاء ہونا بہت ضروری ہے اسی سے معاشرے اور انسانیت کی بقاء ہے ۔

کیا اسلامی معاشرے میں عورت مارچ،عورتوں کی ناچ گانے کی محفلیں سجانا،بھنگڑے ڈالنا،سٹرکوں پر غلیظ نعرے لگانا،بہودہ نقل و حرکات کرنا بہت ضروری ہے نہیں۔ یہ ہماری تہذیب وثقافت نہیں بلکہ ویسٹرن سولائزیشن کی مکاری ہے کہ وہ عورت جس مطلب ہی پردہ ،حیاء ہے اسے زینت خانہ کے دائرہ سے نکال کر رونق محفل اور اس کے حسن و جمال کوکھلی نمائش بنا دیا گیا ہے۔

یہ مقام ہمارے لئے ہنسنے نہیں رونے کا ہے ۔اپنی اجتماعی ،رسوائی پر دب مرنے کی گھڑی ہے۔بے عزتی ،بے حیائی،دین کے درد سے محرومی پر آنسوبہانے کا موقع ہے ۔
آج سب کچھ اس ملک میں ہورہا ہے جس کی دین میں ممانت ہے حالانکہ یہ ملک ہی اسلام کے نام پر حاصل کیا گیاتھا۔جس کی بنیاد ہی لاالہ الا اللہ کے نام پر رکھی گئی تھیں۔جس کے آئین میں قرآن کی حاکمیت اعلی کی باتیں کی گئی تھیں جس کی اسمبلی میں 95 فیصد ارکان مسلمان کہلاتے ہیں۔

جس کی پارلیمان میں 60فیصد سے زائد علماء کرام اور دینی تعارف رکھنے والے گھرانوں سے ہے ۔ لیکن پھر بھی ایسے حالات ،ایسے خیالات،اس بار عورت مارچ میں تو شائد بہت کچھ نیا اورجارحانہ ،ولولہانہ ہوگا،اس بار تو لال لال اپنا ترانہ بھی بجائیں گئی۔ نعرے بھی لگائیں گئی ۔جس کی باقاعدہ دوماہ سے ٹریننگ سیشنزبھی جاری ہے۔ اور پوسٹروں کی ڈیزائنگ کے مقابلے بھی ہورہے ہیں۔

اس بار چند نہیں بہت ساری ہونگی۔ جن کے لئے تیاریاں کی جارہی ہیں ۔یہ ایک یا دو دن کی نہیں بلکہ مہینوں کی پلاننگ ہے ۔ اس کے پیچھے بہت بڑی لابی بہت بڑا فنڈزمختص کئے اوراس مارچ کی کامیابی پر امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ بات حقیقت لیکن تلخ ہے کہ اب قانون نافذ کرنے والے ادارے ،دینی طبقہ اور چند سیاست دانوں کے کانون سے جوں تک نہیں رینگ رہی۔

جیسے ہی یہ مارچ شروع ہو گا ویسے ہی پھر پور تماشہ بھی شروع ہو گا ۔ویڈیوزکلپس ریکارڈ ہو کے جب الیکڑانک میڈیا،سوشل میڈیاکی زینت بنے گئی۔ عوامی جذبات ابھرے گئے ۔اس وقت ہر کوئی بیدار ہوگا ۔ 
لمبے لمبے مضمون لکھے جائے گئے ،مذمتی بیانات آئیں گئے عورت کے اسلام میں حقوق کے حوالہ سے نئی بحث شروع ہو جائے گی اور قانون حرکت میں آئے گا ۔

اس وقت بہت دیر ہوچکی ہو گئی ۔کیونکہ، میرا جسم میری مرضی، والیاں اپنے اپنے گھروں میں آرام فرمارہی ہونگی اور ہماری بے بسی ،لاچاری پر ہنس رہی ہو نگی، ہمارا دین ہمارا معاشرہ اس بے حیائی ،آوارگی،فحاشی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ایسی ہی عورتیں بنی اسرائیل کی تباہ و بربادی کا سامان بنی تھی۔ اسلام نے جو مقام عورت کو دیا وہ مقام دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دیا ۔

اس قسم کے نعرے فحاشی کو فروغ دینے کے سوا اور کچھ نہیں ۔ہمارے کلچر میں اس بات کی کوئی کنجائش نہیں اور نہ ہی ایک باعزت عورت اس کی گنجائش بننے دے گی۔کل ایک طرف عورت مارچ تو دوسری جانب مذہبی جماعتوں کی طرف سے حیاء مارچ کا اعلان کر دیا۔ عورت بحیثیت بہن ،بیٹی باپ کی عزت ،وفادار بیوی شوہر کا غرور اور فخر ،اور ماں اپنے بچوں کی جنت ہوتی ہے،لیکن عورت یہ مقام اپنے اچھے عمل سے ہی قائم رکھتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

aurat March ba muqabla Haya March is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.