چین اور یورپ کی بڑھتی قربتوں سے امریکہ خائف

یورپی یونین کے چین سے معاشی اور تجارتی تعلقات کی توسیع اہم سنگ میل

منگل 2 فروری 2021

China Or Europe Ki Bharti Qurbatoon Se America Khaef
رابعہ عظمت
2020ء چین اور یورپی یونین کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کا 45 واں برس شمار کیا جاتا ہے پچھلے سال کے اختتام سے محض دو روز قبل دونوں عالمی طاقتوں کا تاریخ ساز سرمایہ کاری معاہدے پر اتفاق رائے اقتصادیات کے میدان میں اہم سنگ میل ہے تاہم اس حوالے سے مذاکرات گزشتہ 7 برس سے جاری تھے۔اس دوران 35 ادوار منعقد ہوئے۔

جب کووڈ۔19 کی وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر معیشت شدید کساد بازاری کا شکار ہو چکی تھی دونوں کی جانب سے مذاکرات کی تکمیل سے یقینا مثبت اشارے ملے ہیں،جس سے دنیا کے معاشی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ماہرین کو توقع ہے کہ اس معاہدے سے سرمایہ کاری کے مزید مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کیلئے ایک بہتر ماحول میسر آئے گا۔

(جاری ہے)

دو طرفہ سرمایہ کاری میں اضافہ اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں معیشتوں میں موجود تجارتی حجم کے مقابلے میں بہت زیادہ کم ہے۔

مثال کے طور پر ،2019ء میں چین میں 141.21 بلین ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں سے،یورپی یونین کا حصہ صرف 7.311 بلین ڈالر یا 5.2 فیصد تھا اور چین کی 136.91 بلین ڈالر کی مجموعی بیرونی ایف ڈی آئی میں سے،صرف 10.52 بلین ڈالر یورپی یونین میں کی گئی۔
یورپی کمیشن کا کہنا ہے چین کا یورپی یونین سے سرمایہ کاری ایگریمنٹ اہم معاشی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے چین اور یورپی تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو توازن بخشنے میں مدد ملے گی۔

یورپی کمیشن کے صدر اروسولا وان ڈیر لین کے مطابق یورپی سرمایہ کاروں کو چینی منڈی تک غیر معمولی رسائی کے مواقع فراہم ہوں گے بلکہ کاروبار کو ترقی اور روزگار پیدا ہو گا۔اس معاہدے سے چین میں کام کرنے والے بڑے کاروباری اداروں جیسے،ڈیملر،اے جی،بی ایم ڈبلیو اور سیمنز کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے یہ معاہدہ تجارتی جنگ یا ٹیکنالوجی کی جنگ کی بجائے معاشی ترقی پر توجہ دیتا ہے۔

چین اور یورپی یونین بالترتیب دنیا کی دوسری اور تیسری بڑی معیشتیں ہیں۔اگرچہ چین اور یورپی یونین کے رکن ممالک مختلف سیاسی نظام،ثقافت اور روایات کے حامل ہیں اس کے باوجود بھی چین اور یورپ میں گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے عملی تعاون برقرار ہے۔چینی حکومت کو ترجمان اخبار ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے لکھا کہ بیجنگ حکومت انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی ادارہ محنت کی شرائط پر کاربند رہے گی۔


یورپی یونین کے ایک اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر چین اپنے ہاں اس سرمایہ کاری معاہدے کے ضابطوں کو نافذ کرنے میں ناکام رہا،تو جواباً اس کی یورپی منڈی میں رسائی کم کر دی جائے گی۔یہ معاہدہ بلاشبہ اس مشکل دور میں عالمی معیشت کے لئے بھی ایک مثبت اشارہ ہے۔جرمن چانسلر انجیلا میرکل اور یورپی کمیشن کی صدر سمیت یورپی یونین کی متعدد اعلیٰ شخصیات اور چینی صدر شی جن پنگ نے ایک مشترکہ ویڈیو کانفرنس میں اس معاہدے کی منظوری کا اعلان کیا۔

جرمنی کی سابق وزیر دفاع اور یورپی یونین کے کمیشن کی موجودہ صدر فان ڈئر لائن نے بعد میں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا،”یورپی یونین دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ ہے۔تجارت کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں لیکن ہم باہمی تعاون ،یکساں مواقع اور اقدار سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔“
پہلے یورپ اور امریکہ قریب ترین اتحادی تھے اور اب یورپی یونین امریکہ کو اعتماد میں لیے بغیر چین سے معاشی اور تجارتی تعلقات کو توسیع دی جا رہی ہے بلاشبہ تاریخ ساز معاہدہ کے ذریعے چین نے یورپی ممالک کے لئے اپنے ملک میں براہ راست سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیے ہیں حالانکہ یورپ میں ایک بڑے طبقے کو چین کے بارے میں کئی تحفظات تھے وہ بھی اس سمجھوتہ میں دور کر دیے گئے ہیں۔

یورپی یونین اور چین میں دو سال سے سرمایہ کاری میں اشتراک اور تعاون پر بات چیت چل رہی تھی۔جرمنی اور فرانس چین میں یورپی ممالک کی کاروباری کمپنیوں کی سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے چین سے ایک جامع معاہدہ چاہتے تھے جس سے فریقین کو فائدہ ہو۔ان کی کوششوں سے دیگر یورپی ممالک بھی متفق ہو گئے اور ایک معاہدہ طے پا گیا جس کے نتیجہ میں یورپی کمپنیوں کو چین میں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے میں آسانیاں ہونگی اور مزید مواقع ملیں گے۔

چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور بعض ماہرین کی رائے میں امریکہ سے آگے بڑھ چکی ہے۔
یورپ کی نظریں چین کی ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل وسیع منڈی پر ہے جہاں اس کی کمپنیاں اپنا مال امریکہ کی نسبت زیادہ فروخت کر سکتی ہیں۔جرمنی جیسا زیادہ ترقی یافتہ صنعتی ملک اس وقت چین کو امریکہ سے زیادہ مال برآمد کر رہا ہے۔یورپی ممالک سمجھتے ہیں کہ چین سے تجارت‘کاروبار‘ماحولیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے اور کورونا ایسی وباوں سے نپٹنے کی خاطر مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تعاون کرنا ہر ایک کے مفاد میں ہے۔

اس سے دنیا میں پائیدار اور دیرپا ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔یہی سوچ چین کی ہے۔یورپ نے امریکہ کی مرضی پوچھے بغیر چین سے معاہدہ کرکے واضح کر دیا ہے کہ تجارتی اور کاروباری تعلقات قائم کرنے میں امریکہ کو یورپ پر ویٹو کا حق حاصل نہیں ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں امریکہ نے چین سے تجارتی جنگ شروع کی اور دنیا کے کئی عالمی معاہدوں سے دستبرداری اختیار کی۔

یورپی یونین چین کو اپنا معاشی پارٹنر سمجھتی ہے۔یورپ سے سرمایہ کاری کا معاہدہ چین کی موجودہ قیادت کی اس طویل مدتی پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ ایشیا اور یورپ کا ایک یوریشین اتحاد تشکیل دینا چاہتی ہے۔چین کا مطمع نظر ایشیا اور یورپ کو گہرے تجارتی اور معاشی رشتوں میں پرونا ہے۔
قبل ازیں پورے ایشیا کو ایک معاشی رشتے میں منسلک کرنے کی خاطر گزشتہ سال نومبر میں چین نے ایک معاشی شراکت کا معاہدہ ایشیا اور بحر الکاہل کے 15 ممالک سے بھی کیا جن میں امریکہ کے قریبی تزویراتی اتحادی ممالک جیسے آسٹریلیا‘جنوبی کوریا اور جاپان بھی شامل ہیں ۔

چین اپنے معاشی اور تجارتی تعلقات کو تیزی سے وسعت دیتا چلا جا رہا ہے۔دنیا میں عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے۔یہ معاہدے چینی اقتصادیات کے،جوکہ کرونا وائرس وبا سے نمٹنے میں دنیا کے الجھے رہنے کی وجہ سے بڑے ممالک میں تیزی سے مائل بہ عروج ہے،استحکام کے باعث شی کی طاقت کا مظہر ہے۔برلن میں روڈیم گروپ سے وابستہ چینی امور پر دسترس رکھنے والے ایک دانشور نے سرمایہ کاری کو خاص طور پر چین کے لئے جغرافیائی سیاسی انقلاب بتایا۔

چینی کمپنیوں کو یورپی منڈیوں میں پہلے ہی زبردست رسائی حاصل ہے،جو یورپ میں زباں زد عام ہے۔اس لئے انہوں نے قابل تجدید توانائی کے لئے مینو فیکچرنگ اور بڑھتی منڈی میں محض معمولی آغاز کرنے میں ہی کامیابی حاصل کی۔ٹرمپ ایشیا میں امریکہ کے روایتی اتحادیوں کو حقارت سے دیکھتے تھے لیکن بائیڈن نے چین سے درپیش سفارتی،اقتصادی اور فوجی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے ایک اتحاد تشکیل دینے کا عہد کر رکھا ہے۔

چین کو بھی خطرہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔انتخابات کے محض دو ہفتہ بعد ہی چین نے 14 دیگر ایشیائی ممالک سے تجارتی معاہدہ کر لیا۔دسمبر کے اوائل میں مرکل اور میکرون سے محض ٹیلی فونک گفتگو سے ہی بیجنگ یورپی ممالک کو سرمایہ کاری معاہدہ کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس سے امریکہ میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔بائیڈن کے مقرر کیے جانے والے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان نے ٹوئٹر کے توسط سے اس امر کی جانب بتایا کہ یورپ کو پہلے نئی انتظامیہ سے مشاورت کرنے کے لئے انتظار کرنا چاہیے تھا لیکن وہ لاحاصل رہا۔


چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کے مطابق صدر شی جن پنگ نے کہا کہ یورپی یونین اور چین دونوں ہی سرمایہ کاروں کے لئے ایک بڑی مارکیٹ اور بہتر تجارتی ماحول فراہم کرے گی۔جبکہ یورپی یونین کے عہدیداروں کو خدشہ تھا کہ عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیجنگ کے حوالے سے سخت موقف ممکنہ طور پر اس معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو سکتا تھا۔

مینو فیکچرنگ،انجینئرنگ،بینکنگ،اکاؤنٹنگ،ریئل اسٹیٹ،ٹیلی کوم اور کاروباری مشاورت جیسے شعبوں میں مغربی کمپنیاں چین تک رسائی حاصل کر سکیں گی۔البتہ برطانیہ کا یورپی یونین سے حتمی طور پر الگ ہو نے سے اسے یورپی یونین کے چین کے ساتھ کیے گئے اس یا کسی بھی دوسرے معاہدے سے اب کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔دوسری جانب امریکہ میں جوبائیڈن کی قیادت میں نئی انتظامیہ چین کے ساتھ یورپی یونین کے مذاکرات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے،یورپ و چین کی بڑھتی قربتوں سے امریکہ خائف نظر آتا ہے نومنتخب امریکی صدر یورپی مارکیٹ میں چینی کمپنیوں کے قدم جمانے کے معاملے پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ معاہدہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے؟خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران شدید تناؤ کے بعد ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کو بحال کرنے کی متوازی کوشش میں یورپی یونین نے اس پیش رفت سے خطرہ مول لیا ہے۔ایک عوامی اجتماع میں امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ آمرانہ طاقتوں کے خلاف جمہوری دنیا کے مفادات کی توثیق کے لئے اور چین کے اسٹریٹجک چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد میں شامل ہو۔


اس حوالے سے یورپی یونین کا یہ بھی استدلال ہے کہ اس معاہدے سے چین کے ساتھ وعدوں کی شرائط میں نیا حوالہ نقطہ قائم ہونے سے دیگر ممالک کو چین کے ساتھ اپنے معاملات میں مزید ثابت قدم رہنے میں مدد مل سکتی ہے۔ولادس ڈومبروسک نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔میں فیز 1 معاہدہ یا سرمایہ کاری سے متعلق معاہدے کو کسی بھی طرح سے اس تعاون میں رکاوٹ بننے کی حیثیت سے نہیں دیکھ رہا ہوں۔

اب جبکہ جوبائیڈن نے امریکی صدارت کا حلف اٹھا لیا ہے اور اب آئندہ پانچ سالوں تک وہ امریکی اقتدار کے مالک رہیں گے ،دیکھنا یہ ہو گا کہ ان کی خارجہ پالیسی اور سیاست کا کونسا نیا رخ دنیا کے سامنے آتا ہے۔بائیڈن کے مطابق وہ ٹرمپ کے غلط اور احمقانہ فیصلوں کی تائید اور تجدید نہیں کریں گے،لہٰذا یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ ٹرمپ کی سیاسی حکمت عملی سے انحراف کا اثر عالمی سیاست پر کس قدر اثر انداز ہو گا۔

نیا صدارتی منصب بائیڈن کے لئے ہر لحاظ سے ایک نیا چیلنج ثابت ہو گا۔سیاسی بحران سے نجات ممکن ہے لیکن اقتصادی بحران سے نجات کی را ہ نظر نہیں آرہی ہے۔بائیڈن کے پاس ایسا اقتصادی لائحہ عمل موجود ہے جو دنیا کو اس معاشی بحران سے نجات دلا سکے؟ایسے تمام تر سوالات کے جوابات دینا ابھی جلد بازی ہو گی مگر بائیڈن کی آمد کو امریکی سیاست میں خوش آئند تبدیلی سے تعبیر کیا جا رہا
ہے۔بائیڈن امریکی عوام اور دنیا کی توقعات پر کتنے پورا اترتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

China Or Europe Ki Bharti Qurbatoon Se America Khaef is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 February 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.