دو قومی نظریہ اور آج کا ہندوستان

جب آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت ذار دیکھی تو قا ئد اعظم کی دور اندیشی اور ذہا نت پر قربان ہونے کو دل چاہاکہ ان کی پیشنگوئی سچ ثا بت ہو ئی کہ ہندوستان میں مسلمان اپنی حب الوطنی ثابت کرتے کرتے تھک جائیں گے مگر ان کی بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا

Sheikh Jawad Hussain شیخ جواد حسین جمعرات 26 دسمبر 2019

do qaumi nazria aur aaj ka hindustan
تقریباایک صدی قبل ہندوستان کے گلی کوچوں سے دو قومی نظریہ کی صدا بلند ہوئی۔ ان الفاظ کے حقیقی خا لق سر سید احمد خان تھے کہ جنہوں نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ دو قوموں کا تصور پیش کیا۔ مگرحقیقی معنوں میں ان الفاط کو سنہری حروف میں علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھ کر تعبیر کیااور قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خواب کی عملی تصویر میں شبانہ روز کی جہدوجہد سے نہ صرف خو بصورت رنگ بھرے بلکہ ان کے بے جان جسم میں روح پھونک دی۔

کئی خاک اور خون کی ندیا ں عبور کر کے مسلمانوں نے اس وطن عزیز کی طرف ہجرت کی اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کی داغ بیل ڈالی۔ جن بے شمار خاندانوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی ان خوش قسمت مسلمان خاندانوں میں میراگھرانہ بھی شامل تھا۔ میں با نگ دوہل فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وطن عزیز پر میرے آباؤ اجداد نے بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنا تن من دھن سب کچھ مادرے وطن پرنچھاور کر دیا۔

(جاری ہے)


 ہا ں مجھے فخر ہے کہ میں شہداء کا وارث ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ میں پا کستا نی ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ ان بے شمار محب وطن مسلمانوں کی طرح میرے آباؤ اجداد نے بھی اپنی زمینیں، کاروبار،اور گھر بار وطن عزیز کی خاطر چھوڑ دیا اور پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ اس لیے خدا کے خا ص فضل و کرم سے میں ناصرف اس عظیم اور مقدس مٹی کی اہمیت کو سمجھتا ہوں بلکہ اس قرب کو بھی محسوس کر سکتا ہوں کہ جو تکالیف اور قرب ہمارے بزرگوں نے برداشت کیا در حقیقت میں سمجھ سکتا ہوں کہ مسلمانوں نے کیسے کیسے دکھ اور درد سہہ کر اس مملکت خداداد کی آبیاری اپنے پاک لہو سے کی اور قر با نیوں کی لازوال داستا نیں رقم کر کے اس مقدس زمین کو حاصل کیا۔

 
ہندوستان سے ہجرت کے وقت مسلمانوں نے سب کچھ اس رب کی رضا کی خاطر قربان کر دیا یہاں تک کہ تن کے کپڑے، بستر، برتن، مال مویشی تک ہندوستان میں چھوڑ آئے۔ جس عظیم مقصدکے لیے آگ اور خون کے دریا عبور کیے اور لاکھوں جا نو ں کی قربانیاں دی وہ تو صرف اور صرف ملکت خدا داد کا حصول تھا کہ علا مہ اقبال کے اس حسین خواب کی تعبیر کے لیے مسلمانان ہند نے قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہا اس ایمان اور یقین کے ساتھ کہ قائد اعظم جو فرما رہے ہیں وہ حقیقت ہے اور پھر آج تاریخ نے ثابت کر دیا کہ قائد اعظم کا وجدان اور ان کی فکر اور سمت ٹھیک تھی ان کی دو قومی نظریہ کی عملی تصویر کو تاریخ نے درست ثابت کر دیا ہے۔

 ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قائد ا عظم نے کا نگرس میں شمولیت اختیار کر لی صرف اس سوچ اور فکر کے ساتھ کہ ہندؤں اور مسلمانوں کو انگریزوں کے چنگل سے آزادی د لوا سکیں اور اپنی ان تھک محنت اور جدوجہد سے برصغیر پاک و ہند میں آزادی کا سورج طلوع کر سکیں۔ مگر قائد کو اپنی دانش مندی اور فہم و فراست سے جلد معلوم ہو گیا کہ کا نگرس کسی طور بھی مسلما نوں کی آزادی کے لیے کام نہیں کر رہی۔

بلکہ اس کے بر عکس ہندؤں کی بہتری اور آزادی کے لیے کام کر رہی تھی۔ ان کے متماع نظر انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کا مقصد صرف ہندوں کے لیے ایک نئی ریاست کا قیام تھا۔ مسلمان تو کسی گنتی میں نہیں تھے۔ کا نگرس کی اس مکاری کا اندازہ ہونے کہ فورابعد قائد اعظم کانگرس کو چھوڑ کر انگلستان واپس تشریف لے گئے۔ اسی اثناء میں علامہ اقبال نے حالات کا جا ئزہ لے کر قائد کو ہندوستان واپس آنے کی درخواست کی اور آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت سنبھالنے کی پیشکش کی اور مسلما نوں کی حالت زار میں بہتری لانے اور ان کے حقوق کے لیے جہد و جہد پر زور دیا۔

 چنانچہ قا ئد اعظم ۶۰۹۱ میں لندن میں وکالت کی پریکٹس اور عیش و آرام سب کچھ چھوڑ چھاڑکر واپس ہندوستان تشریف لے آئے تاکہ کانگرس کے مکرو ارادوں کے مقابلے میں مسلم لیگ کی صدارت اور راہنمائی کے ذریعے مسلمانان ہند کی مدد اور متانت کر سکیں اور پھر مرتے دم تک آپ نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے با طل قو تو ں سے مردانہ وارمقا بلہ کیا اور پوری قوم کو انگریزوں کی غلامی اور ہندوں کی مکاری سے نجات دلا کر دم لیا۔

 قا ئد ا عظم بخوبی جان چکے تھے کہ ہندو ایک متعصب قوم ہے اور مسلمان ہمیشہ ہندوستان میں اپنی حب الوطنی اور اپنے ہندوستانی ہو نے کا یقین دلاتے رہیں گے مگر ان پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ اس بات پر ہندوستان کے بہت سے مسلمانوں نے یقین کرنے سے انکار کر دیااور قائد اعظم کی مخالفت بھی کی۔ ان میں بہت سے مسلمان لیڈر بھی شامل تھے کہ جنہوں نے کانگرس کو مسلم لیگ پر ترجیح دی اور پاکستان بننے کے خواب کی نا صرف مخالفت کی بلکہ مسلمانوں کو بھی بہت حد تک گمراہ کیا۔

جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ بہت سے مسلمان ہندوستان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان مسلمانوں نے دو قومی نظریے کی مخالفت کی اور ہندوستان میں ہی رہنے کو اپنے مفاد میں جانا۔ ان حالات کے پیش نظر چند علما بھی مخالفت میں سرگرم ہو گئے۔ان کا نظریہ بھی یہی تھا کہ دو قومی نظریہ درست نہیں ہے اس کی دلیل جو انہوں نے پیش کی وہ یہ تھی کہ اگر ہم مسلمانوں کو لے کر الگ وطن میں رہیں گے تو اسلام کی دعوت کا کام متاثر ہو گا اور پھر امید ظاہر کی کہ ایک وقت ا یسا بھی آئے گا کہ مسلمان ہندوستان میں ہندوں سے زیادہ ہوں گے اور اسلام کا بول بالا ہو گا۔

 اسی نقطہ کو لے کر کبھی کبھی میں بھی اس سوچ میں گم ہو جایا کرتا تھا کہ ہے تو بہت طاقتور دلیل مگر میں نے جب آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت ذار دیکھی تو قا ئد اعظم کی دور اندیشی اور ذہا نت پر قربان ہونے کو دل چاہاکہ ان کی پیشنگوئی سچ ثا بت ہو ئی کہ ہندوستان میں مسلمان اپنی حب الوطنی ثابت کرتے کرتے تھک جائیں گے مگر ان کی بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔

 میں ان جا ہل بی جے پی کے گنڈوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہندوستان میں مسلمان آسمان سے نازل ہوئے ہیں؟ کیا مسلمانوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش نہیں کیے؟ کیا ہندوستان کے بیشتر مسلمان ہندوستان ہی کے رہنے والے شہری نہیں تھے مگر بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا؟ کیا ہندوستان کو ایٹمی طاقت بنانے والا ڈاکٹر عبدالکلام ایک مسلمان نہیں ہے؟ کیا مسلمانوں کے اپنے ہی لوگ نہیں کہ جنہوں نے صرف اپنا مذ ہب تبدیل کیا ہے کوئی جرم تو نہیں کیا۔

مگر ہندوں کا ایک خاص دہشت گرد گروہ کسی بھی دلیل کو ما ننے سے قاصر ہے۔ 
ہندوستان کی موجودہ حکومت اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام، مسلمانوں کو سمجھوتا ایکسپرس میں جلانا،کشمیر کا 150 دن کا کرفیو، آسام میں مسلمانوں کی نسل کشی اور مسلمان خواتین کی عصمت دری اور ان گنت مسلمانوں کی شہادت، بابری مسجد کی شہادت اور پھر اس کی تعمیر نہ کرنے کا انڈین سپریم کورٹ کا متنازعہ فیصلہ اور اب مسلمانوں کو شہریت کے نئے قانون میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنانا سب کچھ ہندو کے نظریے کا شاخسانہ ہے۔

 
ہندوستان بھر میں مسلمان اس متنازعہ بل کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور گلی گلی نگر نگر اس بل کی مخالفت کی چرچا ہو رہی ہے۔ آج ہر زبان پر دو قومی نظریے کی حمایت میں بات ہو رہی ہے۔ ہندوستان کے مسلمان قا ئد اعظم کی سوچ اور نظریے کی پزیرائی کر رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ اس بات کا ادرک اگر ان کو پہلے ہو جاتا تو آج مسلمان اپنے ہی وطن میں اس طرح بے یارو مددگار نہ ہوتے۔

 آج کا ہندوستان مسلمانوں کے لیے ہر گز محفوظ نہیں۔ اقلیتوں کا تحفظ تو دور کی بات اقلیتوں کے حقوق پر شب خون مارا جا رہا ہے۔ مسلمان تو ہندو توا کے ایجنڈے میں سر فہرست ہیں ان کے لیے ہندوستان کی زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ اب بھی اگر ہندوستان کے مسلمان خاموش رہے اور شہر یت کے بل کے خلاف تحر یک کو جلہ نہ بخشی تو گجرات کے قتل عام کی تاریخ دہرانے کا اندیہ توآر ایس ایس کے غنڈوں نے دے ہی دیا ہے۔ خدا نخواستہ گجرات اور میانمارمیں مسلمانوں کی نسل کشی کی سفاکانہ تاریخ دوبارہ رقم نہ ہو جائے۔ اب ہندوستان کے مسلمانوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ ان کا مستقبل کیا ہے۔ اپنے حقوق کا تحفظ، اپنی نسل کشی کے خلاف بغاوت یا پھر ایک اور پاکستان۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

do qaumi nazria aur aaj ka hindustan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 December 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.