”اسلاموفوبیا“مسلمانوں کیلئے ایک بڑا چیلنج

مغرب میں اسلام کیخلاف نفرت و عداوت کی لہر میں شدت مسلمہ اُمہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے

جمعہ 2 جولائی 2021

islamophobia - musalmanoon ke liye aik bara challange
محمد عبداللہ حمید گل
کینیڈا میں مسلم خاندان کے بہیمانہ قتل نے نام نہاد مغربی تہذیب کا پول کھول دیا ہے اور حالیہ واقعے کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ”اسلاموفوبیا“مسلمانوں کے لئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔مغرب میں اسلام کیخلاف نفرت و عداوت کی لہر میں شدت آگئی ہے جو مسلمہ اُمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آخر دنیا بھر میں مسلمانوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی دلخراش سانحہ کو مغربی ممالک میں پھیلنے والے”اسلاموفوبیا“ کی ایک کڑی قرار دیا۔قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس میں کھل کر اسلاموفوبیا کا اظہار کرتے ہوئے یورپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا کہ دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں ان کے خلاف نفرت و عصبیت کی مہم شروع ہے۔

(جاری ہے)

چنانچہ احتجاجی مراسلے،یادداشتیں پیش کرنے کے بجائے مسلم ممالک کو یکجا ہو کر عالمی سطح پر بھرپور آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

ازخود نسل پرستی کا اعتراف کرتے ہوئے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ”اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ نسل پرستی اور نفرت اس ملک (کینیڈا) میں نہیں ہے تو میں ان کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ہسپتال میں ایک بچے کو ایسے پرتشدد واقعے کی وضاحت کیسے پیش کریں گے؟آپ کیسے ان خاندانوں سے نظریں ملا کر کہہ سکتے ہیں کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت نہیں ہے؟“۔


سوال تو یہ ہے کہ مغربی سرزمین پر اگر کوئی مقامی عیسائی،یہودی 100 مسلمانوں کو بھی کچل ڈالے تو جائے وقوعہ پر پھول چڑھا کر،موم بتیاں جلا کر کیوں معاملہ پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔اگر حملہ آور کا پاکستانی،یا کسی اور مسلم ملک سے تعلق ہوتا؟تو کیا ہوتا؟اب تک ہم پر قیامت ٹوٹ چکی ہوتی۔ حکمرانوں پر لرزہ طاری ہو جاتا۔تحقیقات سے قبل ہم کو سزا سنا دی جاتی،ہمارے ایٹمی اثاثوں پر دشمنان اسلام کی نظر بد پہلے سے ہی ہے۔

افسوس تو یہ ہے کہ یہ مغرب ہی ہے جہاں آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مسلمانوں کے جنونی قاتل اسرائیلی وزیراعظم کو نوبل پرائز سے نوازا جاتا ہے۔در حقیقت یورپ سے لیکر ہندوستان تک اسلاموفوبیا کی لہر عروج پر ہے۔مودی کی سرپرستی میں حیوانیت کا ننگا ناچ کھیلا جا رہا ہے، مسلمانوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں،دن دیہاڑے پولیس کی سرپرستی میں آر ایس ایس کے غنڈے مسلم خواتین کی عصمتیں لوٹتے ہیں، یہاں تک کہ کورونا کا ملبہ بھی مسلم طبقے پر ڈال دیا گیا۔

الغرض آر ایس ایس کا پرچارک نریندر مودی ہندوستان سے مسلم نام و نشاں مٹانے کے گھناؤنے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔جودھ پور میں پاکستانی ہندوؤں کے ایک پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور عالمی میڈیا سمیت انسانی حقوق کے ادارے بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے،لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کے اشتعال انگیز کارروائیاں جاری ہیں۔
 اب تک ڈھائی سو سے زائد مسلمانوں کو گائے ذبیحہ کی آڑ میں قتل کیا جا چکا ہے۔

اس وقت افغانستان میں امریکہ اور اس کے یورپی دجالی صہیونی حواریوں کا کیا حال ہو چکا ہے وہ سب جانتے ہیں،دوسری جانب بحیرہ روم اور بحیرہ اسود پر ترکی کی سرگرمیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں، روس اور چین اور ترکی کے درمیان ایک عسکری،معاشی اور سیاسی اتحاد وجود میں آچکا ہے افریقہ میں چین کی معاشی پیش قدمی اور ترکی کی جانب سے افریقہ میں پیر جمانے کے عمل نے پورے یورپ کو فکر مند کر دیا ہے کہ اب یہاں ان کی غیر انسانی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے وقت محدود ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ اب مذہب کے نام پر یورپ کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کرنے کی تیاری ہے جس کے لئے آزادی رائے کے نام پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کا پہلو نکال کر پوری مسلم دنیا کو اشتعال دلایا گیا تاکہ اس کے ردعمل کے غبار میں یورپ میں اسلام دشمن قوتوں کی نئی صف بندی کی جا سکے۔

چونکہ جغرافیائی طور پر فرانس شمالی افریقہ کے قریب واقع ہے اور الجزائر جیسے بڑے ملک میں اسے استعماریت کا خونی تجربہ بھی ہے اس لئے ابتداء یہاں سے ہوئی۔تاہم یہ معاملہ صرف فرانس تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کی پشت پر پورا یورپ اور امریکہ کھڑا ہے۔شمالی افریقہ سے لیکر وسطی ایشیا تک کی جدید تاریخ دیکھ لی جائے وہاں فرانس نے افریقہ میں مسلمانوں کی دولت لوٹنے کے لئے بے پناہ ظلم و ستم ڈھائے ہیں الجزائر کی جنگ آزادی کسے یاد نہیں جہاں 70 لاکھ نہتے مسلمانوں فرانسیسی استعمار کے خلاف جنگ آزادی لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

الجزائر میں ہی فرانس نے سب سے پہلے اپنے ایٹمی دھماکے کرکے یہاں کی آبادی کی زندگیوں کو داؤ پر لگایا تھا۔مالی اور چاڈ کاٹنوں سونا فرانس میں منتقل کیا گیا اور اس علاقے کے مسلمانوں کو فاقوں مرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یورپین تاریخ دان اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ فرانس کی تمام ثروت کا انحصار افریقہ سے لوٹی ہوئی دولت پر ہے۔
الجزائر،چاڈ،مالی اور دیگر افریقی ملکوں میں فرانس نے انتہائی منصوبہ بندی سے مسلمان علما دین اور ان کے ہزاروں طالب علموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ اسلام کے حوالے سے اس خطے میں زیادہ سے زیادہ جہالت یا لاعلمی پھیل سکے ایسا تقریباً تمام یورپی ملکوں نے اپنے اپنے مسلم مقبوضات میں کیا۔

فرانسیسی اور دیگر مغربی مورخین کے مطابق بیسویں صدی میں فرانس کی کوئی وقعت نہیں تھی سوائے تین چیزوں کے ایک وہ جوہری قوت بن گیا دوسرے جوہری قوت کی وجہ سے اسے سلامتی کونسل میں نمایاں مقام حاصل ہو گیا اور تیسرا سب سے بڑا عامل افریقہ ہے جہاں کی دولت لوٹ کر فرانس نے اپنے آپ کو مضبوط کیا۔
دوسری جانب یورپ میں مسلم تارکین وطن کے خلاف نسل پرستی کی بنیاد پر ہی عدم رواداری فروغ پا رہی ہے،ووٹوں کے حصول کے لئے سیاسی قائدین مسلم مخالف جذبات کو ہوا دینے والے گروپوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔

”اسلاموفوبیا“ ان کا سیاسی ایجنڈہ بن چکا ہے۔سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ سیاسی قیادتیں یا حکومتیں اس طرز عمل،رجحان کو روکنے یا اس کے خلاف صف آراء ہونے کے بجائے اس کو سیاسی مقاصد اور انتخابات میں زیادہ حمایت حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔مغرب دنیا میں ہر کہیں اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے تو پھر یورپ میں مسلمانوں کو مقامی معاشروں میں گھلنے ملنے اور جذب ہونے پر کیوں اصرار کیا جا رہا ہے یہ تو دوہرا معیار ہے۔

ہم عالمی منظر نامہ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ آج کس قدر نیو ورلڈ آرڈر کا دجالی نظام کہیں کامیاب تر تو کہیں شکست خوردہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔اسی نیو ورلڈ آرڈر کے استحکام کے نام پر پوری دنیا میں جس طرح مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور جس طرح اقوام متحدہ جیسے اداروں نے اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔اس طرح یہ پتہ چلتا ہے کہ تمام عالمی ادارے اسی نیو ”ورلڈ آرڈر“ کے تحت کام کرتے ہیں اور مسلمانوں کا قتل عام اس آرڈر کی ایک کڑی ہے۔تاہم عالم اسلام کے ساتھ مغرب کی عداوت کو بڑھانے میں تحریک استشراق (Orientalism) کا اہم کردار رہا ہے۔مستشرقین اسلام کے ساتھ منافرت و دشمنی کو صلیبی جنگوں سے جوڑتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

islamophobia - musalmanoon ke liye aik bara challange is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 July 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.