مسجد النور پر حملہ‘صلیبی جنگوں کے آغاز کا پیغام!

یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ اسلام کے دشمن تاتاری کعبہ کے پاسبان بن گئے وزیر اعظم جیسنڈ ا آرڈرن کا تاریخی کردار سنہرے حروف سے لکھا جائے گا

جمعہ 5 اپریل 2019

masjid al-noor par hamla salebi jangoo ke aaghaz ka pegham
 ثوبان ارشد
اسلام ایک حقیقت ہے اس حقیقت کو چھپا یا نہیں جا سکتا۔اسلام ایک صداقت ہے اس صداقت کو مٹایا نہیں جا سکتا،اگر چہ 1440سال کی تاریخ میں اسلام پر بڑے ہی مشکل وقت آئے ہیں ۔سب سے مشکل وقت تاتاریوں کا تھا کہ سیلاب کی طرح ،موجوں کی طرح دنیا پر پھیل گئے اور اپنے وقت کی خلاف عباسیہ کو پاؤں کی ٹھوکر سے اچھال کر رکھ دیا تھا۔

تاتاریوں نے عروس البلاد بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی یہاں تک کہ بیس لاکھ آبادی والے بغداد میں ایک نفس بھی زندہ نہ بچا تھا۔دجلہ اور فرات انسانی لاشوں سے بھر گئے اور خون سے سرخ ہو گئے تھے لیکن اس کے بعد ہوا کیا وہی تاتاری جو اسلام کو مٹانے کا عزم لے کراٹھے وہ اسلام کے نگہبان اور کعبہ کے پاسبان بن گئے تھے یہ اصل میں اسلام کا اعجاز ہے اس کے بعد بھی اسلام پر بڑے مشکل وقت آئے ہیں ۔

(جاری ہے)


نائن الیون کے بعد امریکہ اناولاغیری کا نعرہ لگاتا ہوا مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔فرعون ،نمرود ہلا کو اور چنگیز خان کی طرح بغداد پر حملہ آور ہوا،افغانستان اور دیگر بہت سے اسلامی ممالک کو تہس نہس کردیا آج امریکہ روبہ زوال ہے جبکہ نخل اسلام بد ستورایستادہ ہے ایسے ہی نیوزی لینڈ کا واقعہ بھی اپنے پس منظر میں اسلام کے ساتھ مخاصمت کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے ۔

نیوزی لینڈ یورپ کا ایک چھوٹا سا پرامن ملک ہے یہاں اسلام1870ء میں پہنچا۔
2006ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں مسلمانوں کی تعداد تقریباً50ہزار ہے ۔1950ء میں نیوزی لینڈ مسلم یونین کے نام سے پہلی مسلم تنظیم کو رجسٹرڈکیا گیا۔پہلا اسلامی مرکز آکلینڈ میں 1959ء میں قائم کیا گیا اور پہلی مسجد 1980ء میں تعمیر کی گئی۔مسلمان بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کی طرح نیوزی لینڈ کی تعمیر وترقی میں اپنا بھر پور حصہ ڈال رہے تھے کہ 15مارچ کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران ان پر قیامت صغری بپا کردی گئی۔

28سالہ آسٹریلوی دہشت گرد برینٹن ٹیر نیٹ نے نماز جمعہ ادا کرتے ہوئے پچاس سے زائد مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا انسانیت سے عاری دہشت گرد نے سوچا شاید اس طرح نیوزی لینڈ سے مسلمانوں کا وجود مٹ جائے گایا اسلام دب جائے گا اسلام کی تاریخ تویہ رہی ہے کہ اسے جتنا ہی دبایا گیا اتنا ہی یہ پھیلتا گیا۔
اس سانحہ کے بعد نیوزی لینڈ کی عوام اور سرکار بالخصوص وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن نے جو کردارادا کیا اسے تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔

جسینڈا نے کہا کہ اس دلخراش سانحہ کو بدترین دہشت گردی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ۔انہوں نے زخمی دل مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے انہیں گلے لگا کر ان کا غم بانٹا اور دنیا پر واضح کیا کہ یہ دہشت گردی مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کی عوام کے خلاف ہوئی ہے اسی لئے سرکاری سطح پر نیوزی لینڈ کا پرچم تین دن سرنگوں رہا اور اس سوگ کے موقع پر مسلمانوں سے یکجہتی کے لئے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر پورے ملک میں مسحورکن آواز میں اذان نشر کی گئی ۔


وزیر اعظم کی پارلیمان میں تقریر سے پہلے تلاوت قرآن حکیم ہوئی اور وزیر اعظم نے اپنی تقریر کا آغاز اسلام علیکم سے کیا اسی طرح پورے ملک میں جسینڈا آرڈرن سمیت کیوی خواتین نے حجاب اوڑھا تو ایسے لگنے لگا کہ نیوزی لینڈ اسلام کا دیس بن چکا ہے جہاں اسلام کی بات کرنا اور سننا ممکن نہ تھا وہاں اسلام خود مبلغ بن گیا اسی بنا پر النور مسجد کے امام نے کہا کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گاس کے ذریعے اسلام کا جمال نیوزی لینڈ سمیت پوری دنیا کے سامنے آئے گا۔


یورپ اور دنیائے میسحیت اس واقعی کو دہشت گردی کی بجائے ایک فرد کی سوچ کا شاخسانہ قرار دے رہی ہے دہشت گرد کی حمایت میں آسٹریلوی سینیٹ کے رکن ایٹنگ نے دہشت گردکے اس حملے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ نہ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کو امیگریشن دی جاتی اور نہ یہ سانحہ ہوتا ،جس دہشتگرد کواب ذہنی مریض کہا جارہا ہے اس نے اس حملے سے پہلے 74صفحات کا ایک منشور دیا اور اپنی گن اور بلٹ پروف جیکٹ پر اس نے کچھ نام،واقعات مع تاریخ لکھے ہیں جو اس کے دہشت گردانہ نظرئیے اور سوچ کے عکاس اور مسلم دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں ۔


بندوق کی میگزین پر tours 732لکھا ہے ۔جنگ ٹور732ء میں فرانس کے شہر ٹور میں ہوئی تھی لیکن مسلمانوں کو بد قسمتی سے اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اگر اس جنگ میں مسلمان فاتح بن جاتے تو پورے یورپ پر آج مسلما ن ہوتے ۔ٹور میں آج بھی میدان جنگ کے مقام پر ایک کتبہ لگاہوا ہے جس پر کچھ یوں لکھا ہوا ہے کہ یہاں شیطان کے قدم روک دئیے گئے تھے اسی طرح نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردنے عیسائی فوج کے کمانڈر مارٹل کا نام اپنی بندوق کی نالی پر لکھا ہے جس نے ٹور میں مسلمانوں کو شکست سے دو چار کیا تھا۔


جنگ ٹور میں مسلمان سالار لشکر سمیت ہزاروں مجاہد شہید ہوئے تھے ۔ان شہداء کی بدولت اسے معرکہ بلاط شہداء کہا جاتا ہے ۔حملہ آور نے اپنی بندوق پر veana 1683بھی لکھا ہے جو کہ ترک سلطان سلیمان عالیشان کی جانب سے کئے جانے والے مشہور محاصرہ ویانا کی یاددلاتا ہے جس کی قیادت قرہ مصطفی پاشا نے کی تھی اس حملے کو یورپ اتحاد نے سخت مقابلے کے بعد پسپا کردیا تھا یہ حملہ ترکوں کی یورپ کو فتح کرنے کی آخری کوشش تھی ۔


دہشت گرد نے اپنی بندوق پر 1189 acreبھی لکھا ہوا تھا جو کہ مشہور محاصرہ ایکر کی یاددلاتا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ جب یروشلم کے بادشاہ گائی نے سلطان صلاح الدین کے خلاف جوابی حملہ کیا تھا۔یہ محاصرہ دو سال تک رہا جس میں صلیبیوں کو کامیابی ملی اور ایکر بعدازاں تیسری بڑی صلیبی جنگ کا باعث بنا۔قاتل نے اور بھی کئی نام لکھے ہیں جو قومیتوں کے اعتبار سے پولش‘روسی ،اسپینی ،جرمن اور فرانسیسی کمانڈر تھے مگر ان سب میں قدر مشترک اسلام دشمنی تھی ۔

اس وقت 58ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے لمحہ فکر یہ ہے کہ آپ کا دشمن ہزار سال بعد بھی کچھ بھولا نہیں ۔
حملہ آور نے اپنی گن پر Refugees Welcome In Hellبھی لکھا تھا جس میں مسلم مہاجرین کو مغربی ممالک میں آنے پر جہنم پہچانے کی دھمکی دی ہے ۔اس دہشت گردنے اپنے انجام کو جانتے ہوئے یہ سب باتیں بڑی باریک بینی سے لکھی ہیں جو کہ مسلمانوں سے شدید نفرت اور ماضی کی صلیبی جنگوں سے محبت اور ان کے دوبارہ آغاز کا واضح پیغام ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایسے شخص کو ذہنی مریض قرار دیا جا سکتا ہے ۔
مغرب سے کوئی پوچھنے کی جرأت کیوں نہیں کرتاکہ جن لوگوں نے نیویارک میں طیارے ٹکرائے تھے اگر وہ بھی ذہنی مریض قرار دے دےئے جاتے تو افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح نہ کاٹا جاتا لیکن بش اور ٹونی بلےئر نے اسے صلیبی جنگ قرار دیا۔مغرب اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ جنگوں اور مسلمانوں کے ممالک پریورش کرکے اسلام کو مٹا سکتا ہے تو یہ ناممکن ہے اس لئے تباہی وبربادی کے اس کھیل کو بند کرکے مکالمہ بین المذاہب کو اہمیت دی جائے تاکہ دنیا امن وسکون سے جی سکے۔اس دور میں جنگیں کسی صورت مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی آماجگاہ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

masjid al-noor par hamla salebi jangoo ke aaghaz ka pegham is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 April 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.