مودی کی خوشنودی آخر کیوں ؟

عرب ممالک کے سربراہان کا یہ عمل انتہائی شرمناک اورقابل مذمت ہے اورایک سوال زبان زدعام ہے کہ آیاوہ کونسی قابل قدرخدمات ہیں جن کے اعتراف میں عرب دنیا مودی کی خوشنودی کے لیے اسے عزازات سے نوازرہی ہے ؟اس کا سیدھا اورآسان جواب تویہی ہے کہ سعودی عرب اورابوظہبی انڈیا کے بزنس پارٹنرہیں اوران کے باہمی سرمایہ کاری،تجارتی اورسٹریٹجک تعلقات ہیں سعودی عرب انڈیا کادنیامیں چوتھا بڑاپارٹنرہے

Muhammad Sohaib Farooq محمد صہیب فاروق بدھ 28 اگست 2019

modi ki khushnudi aakhir kyon ?
گزشتہ دنوں پرنس ابوظہبی اوربحرین کی طرف سے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کوملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈسے نوازاگیا اوراس سے قبل 4اپریل 2016کو سعودی عرب کے فرماں رواشاہ سلیمان کی جانب سے شاہ عبدالعزیزایوارڈدیاگیاموجودہ صورتحال میں جبکہ مودی حکومت کی جانب سے 5اگست کوآرٹیکل 370اورA35 کے خاتمہ کے بعد قابض بھارتی فوج کی جانب سے کشمیرکی تاریخ کاسب سے بڑاظالمانہ آپریشن جاری ہے اور کرفیوکے باعث کھانے پینے اورادویات سے محرومی کاسامناہے احتجاج کرنے والے کشمیریوں کوبدترین تشدداورقیدوبندکی صعوبتوں سے گزرناپڑرہاہے۔


 مقبوضہ کشمیرمیں حشرکاساسماں ہے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں انسانیت کا غم رکھنے والاہردل اس ظلم وستم پررنجیدہ ہے اوردنیابھرمیں مقیم پاکستانی اورکشمیری مسلمانوں کے ساتھ دیگرمذاہب کے امن پسندغیرمسلم بھی اپنااحتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں اس سارے پس منظرمیں عرب ممالک کے سربراہان کی جانب سے خون آشام نریندرمودی کواعلی اعزازات سے نوازنااوراس کی آہ وبھگت کرنا صرف نہتے مظلوم کشمیریوں کے زخموں پرہی نمک چھڑنے کے مترادف نہیں بلکہ سواارب مسلمانوں کی دل آزا ری بھی ہے ۔

(جاری ہے)

عرب ممالک کے سربراہان کا یہ عمل انتہائی شرمناک اورقابل مذمت ہے اورایک سوال زبان زدعام ہے کہ آیاوہ کونسی قابل قدرخدمات ہیں جن کے اعتراف میں عرب دنیا مودی کی خوشنودی کے لیے اسے عزازات سے نوازرہی ہے ؟
اس کا سیدھا اورآسان جواب تویہی ہے کہ سعودی عرب اورابوظہبی انڈیا کے بزنس پارٹنرہیں اوران کے باہمی سرمایہ کاری،تجارتی اورسٹریٹجک تعلقات ہیں سعودی عرب انڈیا کادنیامیں چوتھا بڑاپارٹنرہے ۔

گزشتہ دوسالوں میں دونوں ممالک کے مابین27.48بلین ڈالرکے تجارتی معاہدات طے پاچکے ہیں بھارت کی مائع گیس کا32 فیصدجبکہ خام تیل کی ضروریات کا 17فیصدسعودی عرب پوراکرتاہے لہذاسعودی عرب سمیت دیگرممالک اپنے قومی مفادکے تعین میں مذہب کی بجائے جغرافیے اورذاتی منافع کوترجیح دیتے نظرآتے ہیں جوکہ اسلامی تعلیمات سے قطعامناسبت نہیں رکھتا۔اورکسی اسلامی ریاست کاکسی غیرمسلم ریاست کے ساتھ اس طرح کایارانہ واورباہمی تجارت کے جس سے کسی تیسرے اسلامی ملک کی اقتصادی ،سیاسی ومعاشرتی ساکھ متاثرہوشرعََاواخلاقََادرست نہیں۔

دین اسلام نے ذاتی منافع کے لئے تین قسم کی پابندیاں عائدکی ہیں خدائی پابندی ،ریاستی پابندی اوراخلاقی پابندی ۔خدائی پابندیاں وہ ہیں جوقرآن وحدیث کی روشنی میں عائدکی گئی ہیں مثلاََسود،ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ ،جُوا،وغیرہ ان کے ناجائزہونے کاسبب ان کی وجہ سے وجودمیں آنے والی اجارہ داری اوربداخلاقی کی حوصلہ شکنی ہے کہ جومعیشت میں ناہمواریوں کوجنم دیتی ہیں ۔

دوسری قسم کی پابندیاں جنہیں ریاستی پابندیوں سے تعبیرکیاجاتا ہے یہ خدائی پابندیوں کی طرح ابدی نوعیت کی نہیں ہوتیں بلکہ کسی عمومی مصلحت کے تحت کسی ایسی چیزیافعل پرپابندی عائدکی جاتی ہے جوبذات خود جائزہے نہ کہ حرام لیکن اجتماعی طوپراس سے خرابی لازم آتی ہے اس لئے وقتی طورپراس سے روک دیاجاتاہے لیکن اس میں اس بات کاالتزام ہوناچاہیے کہ وہ یہ حکم قرآن وسنت کے منافی نہ ہو۔

اس کی مثال حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بازارآئے تودیکھاکہ ایک آدمی کوئی چیزمارکیٹ کے عمومی ریٹ کے برخلاف بہت کم قیمت میں فروخت کررہاتھاتوآپ نے اس سے فرمایاکہ ”یاتوقیمت میں اضافہ کردوورنہ ہمارے بازارسے اُٹھ جاؤ“اب حضرت عمررضی اللہ عنہ کا اس آدمی کوتنبیہ کرنادووجہ سے ہوسکتاہے ایک تویہ کہ اس میں تاجروں کے لئے جائزنفع کمانے میں دشواری تھی دوسرایہ کہ کم قیمت پرفروخت کی صورت میں مالدارلوگ اسے زیادہ تعدادمیں خریدکرذخیرہ کرلیں گے جس سے ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے مالداروں کونفع اورغرباء کونقصان اٹھانا پڑے گا۔

تیسری قسم کی پابندیاں جنہیں اخلاقی پابندیاں کہاجاتاہے یہ کسی معاشرے میں اخلاقیات کوبہتربنانے کاذریعہ ہوتی ہیں ایک مسلمان کامعاشی فیصلہ آخرت کومدنظررکھ کرہوناچاہیے نہ کہ دنیاکے عارضی فائدہ اوراپنی خواہشات کی تسکین کے لئے ،مسلمان کا مطمع نظرآخرت کی ابدی زندگی کے اعزازواکرام اورمنافع پرہوناچاہیے اورایسابھی نہیں کہ اخلاقی پابندی کی وجہ سے اس کی تجارت میں نقصان ہوگابلکہ وہ معیشت کے استحکام کاذریعہ بنتی ہے۔

اس وقت دنیاگلوبل ویلج کی شکل اختیارکرچکی ہے جس کی وجہ سے ہرملک کودرآمدات وبرآمدات کے سلسلہ میں باہمی تجارت کی سہولت میسرہے اورمسلم وغیرمسلم ممالک کے مابین بیسیوں تجارتی معاہدات ہیں جن کی شریعت نے بھی اجازت دی ہے البتہ غیرمسلم ممالک سے تجارتی تعلقات میں ایک مسلمان ریاست کوخدائی ،ریاستی واخلاقی پابندیوں سے خودکوماورانہیں سمجھناچاہیے دورحاضرکاالمیہ ہے کہ اقتصادی ترقی کی دوڑمیں آج امت مسلمہ نے اسلامی احکامات کوپس پشت ڈال دیاہے۔

نبی آخراالزمان ﷺنے آج سے چودہ سوسال قبل ارشادفرمایاتھاکہ ”خداکی قسم مجھے تم پرفقرومحتاجی کاخوف نہیں لیکن میں تم پرجس بات سے ڈرتاہوں وہ یہ ہے کہ تم پردنیاکی نعمتیں بچھادی جائیں گی جیساکہ تم سے پہلوں کے لئے بچھادی گئی تھیں پھرپچھلی قوموں کی طرح تم دنیاکے سلسلہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگوگے اورجیسے دنیاکی حرص نے انہیں غفلت اورلہولعب میں مبتلاکردیاتھاکہیں تمہیں بھی غفلت اورلہوولعب میں مبتلانہ کردے ۔

ایک دوسری حدیث میں ارشادفرمایامجھے اپنے بعدتمہارے شرک میں مبتلاہوجانے کااندیشہ نہیں لیکن اس بات کاڈرہے کہ دنیاکی دولت میں ایک دوسرے پربازی لے جانے کی کوشش کروگے “۔مومن کوایک جسم کی مانندکہاگیاہے کہ اگرجسم کے کسی ایک حصہ کوتکلیف پہنچتی ہے تواس کے تمام اعضاء بے چین ہوجاتے ہیں من حیث المسلم آج ہم سب کوسوچناہوگاکہ اگرمظلوم ومقہورمسلمانوں کادردہمارے دل میں موجودہے اوران کی تکلیف وبے چینی سے ہماراتلملاتاہے توہم مومن ہیں وگرنہ ہمیں خودکوکسی اورصف میں تلاش کرناپڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

modi ki khushnudi aakhir kyon ? is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 August 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.