قبلہ اول کی بازیابی کا عزم صمیم

جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے میں عالمی طاقتیں رکاوٹ کیوں

ہفتہ 29 مئی 2021

Qibla e Awal Ki Baziyabi Ka Azam e Sameem
محمد عبداللہ حمید گل
”پاک ہے پاکیزہ ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ اپنی نشانیوں کی سیر کروائیں اور بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے“۔(سورة اسراء آیت نمبر 1 )۔سرزمین فلسطین انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔

بیشتر مذاہب کے انبیاء کی پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی ،اس لئے یہ زمین تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے لئے متبرک ہے۔بیت المقدس،القدس،یروشلم،شہر تو ایک ہے مگر نام کئی ہیں۔اس شہر میں موجود مسجد اقصی وہ مسجد ہے،جو اللہ کے پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کرائی تھی۔ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج کو اسی مسجد میں تشریف لے گئے ،یوں اس مسجد کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔

(جاری ہے)

ہر سال ماہ رمضان میں جمعتہ الوداع کو ‘فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی اور قبلہ اول کی اسرائیل سے بازیابی کے عزم کا اعادہ کے لئے ”یوم القدس“ سال منایا جاتا ہے۔جسے فارسی میں”روز جھانی قدس“ بھی کہا جاتا ہے۔
7 اگست 1979ء میں ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کا رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ’یوم القدس‘ کے نام سے موسوم کرنے کا مقصد امت مسلمہ کے نزدیک مسئلہ فلسطین کو زندہ جاوید بنانا تھا۔

دراصل اس دن کا مقصد فلسطینی عوام پر قابض اسرائیلی فوج کی بربریت و درندگی کے حوالے سے اقوام متحدہ سمیت حقوق انسانی کے علمبردار اداروں و ملکوں کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔جمعتہ الوداع سے ہی غاصب صہیونی افواج کی دہشت گردی میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔مسجد اقصیٰ آج مسلمانوں کو پکار رہی ہے۔او آئی سی سمیت دیگر مسلم تنظیموں کی خاموشی لمحہ،فکریہ ہے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر وحشیانہ،بمباری جاری ہے،بچے شہید کئے جا رہے ہیں،نوجوان ہاتھوں میں سنگ اٹھائے دہشت گرد اسرائیلی فوج سے نبرد آزما ہیں۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے موقف کی تجدید ہے۔افسوس !آج مسلم امہ کے نفاق،عرب اسرائیل امن معاہدہ،سنچری ڈیل،شام کی خانہ جنگی،ایران،سعودیہ کشیدگی نے فلسطین کی جدوجہد آزادی کو شدید نقصان پہنچایا۔
1945ء میں فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے قائم کردہ عرب لیگ اور Palestinian liberation organization(PLO) کا کردار بھی مایوس کن ہی رہا۔

تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد 1948ء میں پہلی بار مغربی و استعماری طاقتوں کے بل بوتے پر اسرائیلی ریاست نقشے پر ابھری،حالانکہ ”Zionism“ صہیونی تحریک نے فلسطین میں ناجائز ریاست کے قیام کی کوششیں 1800ء سے ہی شروع کر رکھی تھیں اس وقت وہاں صرف 5 فیصد یہودی آباد تھے۔جس کا ذکر Zariani abduRahman کی کتاب "Hitler and wandering jew"1948ء میں کیا گیا ہے۔

1897ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر پال میں یہودیوں کی ایک منعقدہ کانفرنس میں یہودیوں نے فلسطین کو ”اپنا وطن“ بنانے کی قرار داد منظور کی تھی۔تھیوڈو ہرتزل کی”یہودی مملکت“ نامی کتاب میں موجود صہیونی ریاست کے نقشے میں ناجائز مملکت کی حدود میں سارا فلسطین پورا اردن تمام شام و لبنان عراق کویت کے بیشتر علاقے اور سعودی عرب کا بھی بڑا حصہ شامل کئے گئے ہیں اور پھر یہ حدود مدینہ منورہ تک وسیع کر دی جائیں گی۔

مصر سے صحرائے سینا قاہرہ اور سکندریہ اسرائیل کا حصہ ہونگے۔اور یہ عبارت ”اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے فرات سے دریائے نیل تک ہیں“۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر بھی کنندہ ہے جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ ہر دم کوشاں رہتے ہیں۔تھیوڈو ہرتزل کی صہیونی تحریک کا اصل مقصد یہی تھا کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ کیا جائے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جا سکے۔

فلسطین دنیا کا بدنصیب ترین علاقہ ہے جو جنگ عظیم اول سے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی سامراجیت کا سب سے زیادہ شکار ہوا۔فلسطینی عوام گزشتہ 73 سالوں سے سامراجیت اور صہیونیوں کے سامنے مزاحمت کرتے چلے آرہے ہیں،فلسطین کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ہے،انسانیت سوز تشدد اور فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا درندہ صفت صہیونی افواج نے معمول بنا رکھا ہے،اسرائیل غاصب فوج کے ہاتھوں مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔


فلسطینیوں میں سے جذبہ حریت کو کچلنے کے لئے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔حاملہ خواتین کا قتل،خاص طور پر نوزائیدہ بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنا انسانی حقوق کے عالمی علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے۔فلسطینی نیشنل اتھارٹی منسٹری آف کی رپورٹ کے مطابق صہیونی افواج کی بربریت و درندگی سے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں مہلک امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں جن میں سینکڑوں قیدیوں کو فوری آپریشن و علا ج کی ضرورت ہے۔

اسرائیل حقوق انسانی کی پامالی کرکے حقوق انسانی کے عالمی منشور کے آرٹیکلز 5 اور 9 کی مسلسل خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔نہ صرف صہیونی زندانوں میں محصور مظلوم فلسطینیوں بلکہ ان کے عزیز و اقارب کو بھی شدید ذہنی ٹارچر اور دباؤ ڈالا جاتا ہے۔سینکڑوں فلسطینی نابالغ بچے بھی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qibla e Awal Ki Baziyabi Ka Azam e Sameem is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 May 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.