روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ‘اقوام متحد ہ خاموش تماشائی کیوں؟

انسانی حقوق کے علمبر دار بلوائیوں کے آگے بے بس․․․․․ بنگلہ دیش کا برمی پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار لمحہ فکریہ سے کم نہیں

بدھ 20 مارچ 2019

rohingya musalmano ki nasal kashi
محبوب احمد
روہنگیائی مسلمانوں پر عشروں سے ڈھائے جانے والے ظلم وستم کو ضبط تحریر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو رورہا ہے ۔مسلم ممالک کی فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم ،اقوام متحدہ ،اقوام عالم کی چشم پوشی اور نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی کے باعث برما میں مسلم خواتین کی عصمتیں محفوظ نہیں ،مساجد کو شہید کرکے اراضی پر قبضہ کرنا اور بھارت کی طرح انہیں زندہ جلانا روز کا معمول بن چکا ہے ۔

بلوائیوں کی ستم ظریفی کا شکاریہ روہنگیائی مسلمان خوراک کی عدم دستیابی کے باعث سمندرکے پانی سے پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ مردہ انسانوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہیں ۔
اس میں بھی کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ عالمی برادری مسلمانوں کی تباہی پر ہمیشہ سے ہی خاموش رہی ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ اس ظلم وستم پر مسلم ممالک کا کر دار بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہا ۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کا میا نمار کی سکیورٹی فورسز پر صرف یہ الزام عائد کرنا کہ وہ سنجیدہ نوعیت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں جن میں جنسی تشدد ،بچوں اور خواتین کا قتل عام شامل ہیں سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ قبل ازیں بھی انہی بیانات پر اکتفا کیا گیا لیکن عملاً ان مظالم کی روک تھام کیلئے کوئی موٴثر اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے۔
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا شروع ہونے والا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا،ایک انداز ے کے مطابق اب تک 7لاکھ سے زائد مسلمان میا نمار چھوڑچکے ہیں ۔

رخائن ریاست میں ساز گار ماحول نہ ہونے کے باعث کوئی ایک روہنگیا بھی رضا کا رانہ طور پر واپس نہیں جانا چاہتا کیونکہ ان پناہ گزینوں کا یہی مطالبہ ہے کہ ان کی واپسی سے قبل ان کی حفاظت کے حوالے سے ضمانت دے کر انہیں میا نمار کا شہری بھی تسلیم کیا جائے۔بنگلہ دیش بھی اب روہنگیائی پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار ہو چکا ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے ،ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ میانمار کی حکومت ان پناہ گزینوں کو واپس لینے کے حوالے سے کھوکھلے وعدے کرتے ہوئے رکاوٹی تدابیر اپنا رہی ہے ۔


افسوسناک المیہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ ،امریکہ ،برطانیہ اور دیگر انسانی حقوق کے علمبردار ممالک بھی روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف جاری فوجی کارروائی کونسل کشی قرار دے کر محض لفظی مذمت پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہیں ۔برما میں انسانی ہلاکتوں کے واقعات نہایت ہی دلخراش ہیں کہ ان میں جہاں کئی افراد کو تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا وہیں زیادہ تر افراد کو زندہ آگ میں ڈال دیا گیا۔


بچوں ،خواتین سمیت روہنگیائی مسلمانوں کی جلی ہوئی انسانی نعشوں کے ڈھیردور قدیم کی قتل وغارت گری کی یاد تازہ کرنے کیلئے کافی ہیں ،یہاں قابل غور امر یہ بھی ہے کہ ان پناہ گزینوں کی مہا جر کیمپوں میں نقل وحرکت ،تعلیم ،اور شادیوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں ،مختلف قسم کے ظالمانہ ٹیکس ،زمین کی ضبطگی اور گھروں کو مسمار کرنے جیسے مظالم ان کے علاوہ ہیں ۔

ماضی کے دریچوں میں بھی اگر دیکھا جائے تو روہنگیا مسلمانوں کو بری فوج اور پولیس کی طرف سے جبری مشقت اور معمولی بات پر قتل کرنا عام سی بات بن چکی تھی۔
برما میں روہنگیائی مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی نسل کشی کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔بدھ مت کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل عام کی داستان مسلسل آج کی جدید اور انسانی حقو ق کی علمبرداری کی دعویدار دنیا کے لئے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔

1947ء میں روہنگیا رہنماؤں نے شمالی اراکان میں حریت پسند تحریک شروع کی تاکہ اراکان کو ایک مسلم ریاست بناسکیں۔1962ء تک یہ تحریک کافی متحرک تھی لیکن برما کی فوج نے روہنگائی مسلمانوں کے خلاف جنگی کارروائیوں کرتے ہوئے بڑی تعداد میں قتل عام کیا۔
1978ء میں ”آپریشن کنگ ڈیگون “کیا گیا،اس دوران کافی تعداد ہجرت کرکے پاکستان بھی آئی ،
ماضی کے ان سارے واقعات نے ہی موجودہ حالیہ بحران کو جنم دیا ہے کہ جب ہزاروں روہنگیا مسلمان عشروں سے جاری ظلم وستم سے بچنے کے لئے دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کو ترجیح دے رہے ہیں ،
یہاں مقام افسوس ہے کہ افسوس کہ تشدد سے جان بچا کر قریبی ممالک کی طرف بھاگنے والے افراد کو بھی بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔

1930ء میں ”برمی مسلم فسادات “نے شدت اس وقت اختیار کی تھی جب رنگون پورٹ پرلیبر ایشو ا بھر ا اور انڈین مسلم ور کر زہڑ تال پر چلے گئے ۔
برٹش حکومت نے انہیں دھمکانے کے لئے مقامی برمیوں کوان کی جگہ بھرتی کر لیا لیکن اپنی ملازمتیں جاتے دیکھ کر مسلمان پھر سے اپنے کام پر واپس آگئے اس طرح برمی بھرتیاں ملتوی ہو گئیں ۔برمی مزدوروں نے سارا الزام بھارتی مسلمانوں کے سر دھر کر تقریباً200کے قریب مسلمانوں کو قتل کر دیا ۔

1938ء میں بلوائیوں نے ”بر ما صرف برمیوں کے لئے “تحریک کا آغاز کیا اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا ان فسادات میں 113مساجد کو شہید کر دیا گیا اور مسلمانوں کی املاک بھی لوٹ لی گئیں
۔
بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں اس وقت ہزاروں روہنگیا پناہ گزیں ہیں جن کو اپنا شہری تسلیم نہ کرنے پر بنگلہ دیش اور برمامیں تنازع چل رہا ہے اور اب بنگلہ دیشی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے جس سے مہاجر کیمپوں میں مقیم ہجرت کرکے آنے والے روہنگیائی مسلمانوں کی پریشانی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔

بنگلہ دیشی حکمرانوں کا اس حوالے سے یہ موٴقف ہے کہ روہنگیا مسلمان برما کے شہری ہیں لہٰذا وہ ایک لمبے عرصے تک ان کی مہمان نوازی نہیں کر سکتے ۔
عالمی برادری برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کانوٹس کیوں نہیں لے رہی ؟،آخر حقوق انسانی کے تحفظ کے علمبردار ممالک اور اقوام متحدہ بر ما میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وجور کے واقعات پر خاموش کیوں ہیں ؟،کیا اس لئے کہ یہ ظلم ہندوؤں ،یہودیوں اور عیسائیوں پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر ہورہا ہے ؟۔

پاکستانی قوم برمامیں ہونے والے مظالم کے خلاف متحد ہے اور چاہتی ہے کہ حکومت اس حساس مسئلہ پر اقوام متحدہ اور او آئی سی سے اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرے۔برما کی حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام کو فوری روک کر انہیں شہریت دینے سے انکار کے قانون کو یا تو منسوخ کرے یا اس میں تبدیلیاں کی جائیں۔
دنیا کا ہر قانون اور ضابطہ انسانی قتل عام کی شدید مذمت کرتا ہے لیکن اس کے برعکس برمامیں مسلمانوں کے قتل عام کے جوروح فرساواقعات سامنے آرہے ہیں اس نے دنیا کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے ۔

برما میں جاری بربریت انسانی تاریخ کے بدترین واقعات میں سے ایک ہے ۔عدم تشدد کے پر چاری بدھ مت انتہاپسند وں کے ہاتھوں روہنگیائی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی نسل کشی سنگین دہشت گردی سے کم نہیں ہے ۔
روہنگیا تحریک سے تعلق رکھنے والے بعض ماہرین کا یہ دعویٰ ہے کہ روہنگیا وہاں کے مقامی باشندے تھے جبکہ کچھ کا دعویٰ ہے کہ وہ عرب تاجروں کی اولاد ہیں جو کچھ صدیوں پہلے یہاں آباد ہوئے تھے لیکن بری حکومت کا یہ موٴقف ہے کہ روہنگیائی مسلمان بنگالی آباد کا رہیں اس لئے انہیں واپس چلے جانا چاہئے،حالات کے ستائے برمی مسلمان بیچ منجدھار سمندر کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں ،
ہزاروں روہنگیا مسلمان سمندر میں چھوٹی چھوٹی کشیتوں میں محصور بے بسی کی تصویر بنے ماتم کناں ہیں کیونکہ کوئی بھی ہمسایہ ملک انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔


اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے مسلمانوں کو تباہی پر ہمیشہ خاموشی کا کردار ادا کیا ہے جس کا واضح ثبوت آج برما میں روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم سے لگا یا جا سکتا ہے ۔فلسطین ،کشمیر ،شام،بوسنیا ،عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر اقوام متحدہ نے آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں ؟،اگر روانڈ میں قتل عام پر بین الاقوامی عدالت کو سووو پر براہ راست بمباری کا حکم دے کرروانڈا کی فوج کے جرنیلوں کو سزائیں سنا سکتی ہے تو برما کے جرنیلوں کے خلاف مقدمات کیوں درج نہیں کئے جارہے ؟۔


روہنگیا کے مسلمان اقلیت کو کافی عرصے سے امتیازی رویوں کا سامنا ہے یہ افراد میا نمار میں تیسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں بلکہ اب تو ان کو باقاعدہ شہری بھی تسلیم نہیں کیا جاتا دوسری طرف اگر وہ بنگلہ دیش فرار ہو کر جائیں تو انہیں وہاں غیر قانونی مہاجر قرار دیا جارہا ہے ،اپنی زندگی بچانے اور نسل کشی سے بچنے کے لئے محفوظ مستقبل کے متلاشی بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کا رخ کرنے والے ان مجبور وبے بس پناہ گزینوں کو محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچے کے لئے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا پڑرہا ہے۔

میانمار میں ظلم وستم کی یہ داستان امن کا نوبیل انعام پانے والی آنگ سانگ سوچی کی ناک کے عین نیچے رقم کی جارہی ہے اور پورا عالم اسلام اور انسانی حقوق کے علمبردار ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے
ہیں ۔
برما کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے جہاں ایک طرف پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے تووہیں دوسری طرف یو این او ،او آئی سی ،انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی طاقتوں کی خاموشی لمحہ فکر یہ سے کم نہیں ہے ،یہاں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وتشدد کو روکنے اور انہیں شہریت دینے سے انکار کے قانون کو منسوخ کرنے کیلئے برمی حکومت پر دباؤ ڈال کر روہنگیائی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک موٴثر اور فعال کر دارادا کیا جائے۔

خون مسلم کی ارزانی پر دنیا کا ہر انسان دکھی ہے ۔
روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ حالیہ ظلم وجبر کی داستان زبان زد عام ہے یہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ انسانیت کا قتل عام ہے ۔برمی فوج کو جس طرح اسرائیل اور بھارت کی سپورٹ حاصل ہے اسی طرح مسلم ممالک بھی چاہئے کہ سفارتی محاذ پر ایک پلیٹ فارم پر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شمن عناصر کا مقابلہ کیا جائے ۔امت مسلم کے حکمرانوں کو مصلحتوں اور مفادات سے باہر نکل کر بر ما میں ہونے والے ظلم وستم کو روکنے کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

rohingya musalmano ki nasal kashi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.