سعودی عرب کی یمن کیخلاف مہم جوئی پر امریکہ کے بدلتے تیور

جوبائیڈن انتظامیہ کا اربوں ڈالرز کے اسلحے کی فروخت کو معطل کرنا لمحہ فکریہ سے کم نہیں

ہفتہ 20 فروری 2021

Saudi arab ki yemen ke khilaf mohim joi per america k badalte tever
رمضان اصغر
عرب دنیا کے انتہائی پسماندہ اور غریب ترین ملک یمن کی جنگ میں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق گزشتہ چھ سال کے دوران دو لاکھ تینتیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔یہ لاکھوں انسان اس جنگ یا اس کے اثرات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔نیویارک میں عالمی ادارے کے انسانی بنیادوں پر امداد سے متعلقہ امور کے رابطہ دفتر (OCHA)کی طرف سے بتایا گیا کہ 2015ء میں شروع ہونے والا یمن کا جنگی تنازعہ دنیا کا بدترین انسانی بحران بن چکا ہے۔

دریں اثنا یہ جنگ اب اتنی پھیل چکی ہے کہ اس تنازعے کے واضح طور پر قابل شناخت دھڑوں اور محاذوں کی تعداد اب 47 ہو چکی ہے۔یہ امر یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ یہ تنازعہ کتنا طویل،ہلاکت خیز اور پیچیدہ ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے دفتر او سی ایچ اے کے مطابق چھ سال قبل شروع ہونے والی یمن کی جنگ کے نتیجے میں کئی ہزار انسان تو صرف بھوک ،بیماریوں، غربت اور دیگر جنگی اثرات کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔


اس کے علاوہ کورونا وائرس کی عالمی وبا،شدید بارشوں،پٹرول کی قلت،اور ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے بھی اس ملک اور اس کی معیشت کو اتنا شدید نقصان پہنچا ہے کہ رواں سال اس عرب ریاست کے لئے غیر معمولی حد تک تباہ کن ثابت ہوا ہے۔یمن کی کئی سالہ جنگ اس ملک کی عوام کے لئے کتنی ہولناک ثابت ہوئی ہے،اس کا اندازہ حال ہی میں تعز میں بھی لگایا جا سکتا تھا۔

اقوام متحدہ کے دفتر او سی ایچ اے کے یمن کے لئے نگران سربراہ الطاف موسانی نے تعز میں جس رہائشی علاقے کا دورہ کیا،اس کے بعد انہوں نے وہاں عام شہریوں کے گھروں پر توپ خانوں سے کی جانے والی گولہ باری کو بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا نام دیا۔موسانی کے مطابق،ایسے بے حس اور لایعنی حملے،جن کے نتیجے میں بہت سے بچے اور خواتین بھی ہلاک ہو جاتے ہیں،قابل مذمت بھی ہیں اور ناقابل معافی بھی۔


OCHA کے مطابق یمن میں حالات اتنے خراب ہیں کہ وہاں انسانی بنیادوں پر فوری امداد کے حق دار مردوں،عورتوں اور بچوں کی تعداد عنقریب ہی مزید بڑھ کر 24.3 ملین ہو جائے گی۔ڈھائی کروڑ انسانوں کی مدد کے لئے عالمی ادارے نے بین الاقوامی برادری سے 3.4 بلین ڈالر کی امدادی رقوم کی درخواست کی تھی۔اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔


امریکی صدر جوبائیڈن نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب کو حاصل امریکی تعاون روکنے کا اعلان کیا ہے۔ چھ سالوں سے جاری اس تباہ کن جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں دسیوں لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔امریکہ کی خارجہ پالیسی سے متعلق اپنی پہلی اہم تقریر میں صدر بائیڈن نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یمن میں جنگ ختم ہونی چاہیے۔

2014 ء میں یمن کی کمزور حکومت اور حوثی باغیوں کے مابین تنازع شروع ہوا۔ایک سال بعد تنازعے نے اس وقت شدید شکل اختیار کر لی جب سعودی عرب سمیت آٹھ عرب ممالک نے امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی حمایت سے حوثی باغیوں پر فضائی حملے شروع کر دیے۔اور یہ حملے ہنوز جاری ہیں۔جوبائیڈن نے جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بہت سے اہم فیصلے کیے ہیں اور اپنے پیش رد صدر کے کچھ فیصلوں کو الٹ دیا ہے۔

انھوں نے امریکہ میں آنے والے تارکین وطن کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور جرمنی سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کو واپس لیا ہے۔یہ فوجی دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے ہی جرمنی میں ہیں۔صرف یہی نہیں، جوبائیڈن کے زیر قیادت امریکی حکومت سابق صدر ٹرمپ کے دور میں عرب ممالک کے ساتھ اربوں ڈالر کے فوجی معاہدوں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔

امریکہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسلحہ کی فروخت کے سودوں کو بھی عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اثر ایف 35 جنگی طیاروں کے معاہدے پر بھی پڑے گا۔
امریکہ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو گائیڈڈ میزائلوں کی فروخت بھی روک رہا ہے۔اس سے یمن کی جنگ تو متاثر ہو گی لیکن جزیرہ العرب میں القاعدہ کے خلاف جنگ پر اثر نہیں پڑے گا۔

دریں اثنا صدر جوبائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کی فوجی مہم میں امریکی حمایت روکنے کے بعد سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ یمن میں ”سیاسی حل“ کے لئے پر عزم ہے۔سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی حکومت نے کہا:”سعودی عرب،یمن بحران کے جامع سیاسی حل کی حمایت کے اپنے عزم کا اعادہ کرتا ہے اور امریکہ کی جانب سے یمن بحران کے حل کی سفارتی کوششوں کا پُرزور خیر مقدم کرتا ہے۔

سعودی عرب نے جوبائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کی خود مختاری کے تحفظ اور اس کے خلاف خطرات سے نمٹنے میں تعاون کے عزم کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے ٹویٹر پر لکھا:ہم بحران کا حل تلاش کرنے کے لئے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے،خطے میں ایران اور اس کے اتحادیوں کے حملوں سے نمٹنے کے لئے صدر بائیڈن کے عزم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ہم گزشتہ سات دہائیوں کی طرح امریکہ میں اپنے تمام دوستوں کے ساتھ کام کرنے کے متمنی ہیں۔اپنے بیان میں شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا:”ہم یمن کے بحران کا حل تلاش کرنے اور وہاں انسانی حالت کو بہتر بنانے کے لئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔صدر جوبائیڈن نے سینئر سفارت کار ٹموتھی لینڈرکنگ کو یمن کے لئے امریکہ کا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے۔

انھیں اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے اور یمن بحران کا حل تلاش کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
دارالحکومت صنعا سمیت یمن کے بیشتر حصوں پر حوثی باغیوں کا کنٹرول ہے۔ٹموتھی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ باغیوں اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے مابین بات چیت دوبارہ شروع کرائیں۔یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد کے لئے امریکی تعاون روکنے سے یہ خونی باب فوراً ختم نہیں ہو گا۔

لیکن امریکی صدر کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کے لئے یہ ایک مضبوط پیغام ضرور ہے۔دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت بھی یمن جنگ سے نکلنے کے طریقوں کی تلاش میں ہے۔بہرحال صدر بائیڈن کے لئے یمن میں امن کا قیام ایک بڑا چیلنج ہو گا۔جوبائیڈن نے یہ کام ٹموتھی لینڈرکنگ کو سونپا ہے جو کئی سالوں سے اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں اور اس میں شامل تمام لوگوں سے واقف ہیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے۔انھوں نے نہ صرف یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے تعاون کو جاری رکھا بلکہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدوں کو امریکی دفاعی صنعت کے لئے بھی اہم قرار دیا۔صدر ٹرمپ کے دور کے خاتمے کے بعد سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں بدلاؤ آنا شروع ہو گیا ہے۔جوبائیڈن کے حالیہ اعلان کے بعد یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کو اب نئی شکل دی جائے گی۔

جوبائیڈن انتظامیہ میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کا معاملہ سعودی عرب کو پریشان کر سکتا ہے۔سعودی حکومت کے ناقد خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں قتل کیا گیا تھا۔سعودی عرب اور امریکہ کے مابین ایران کے جوہری معاہدے پر بھی اختلافات ہو سکتے ہیں۔اوباما کے دور میں سعودی عرب نے بھی متفقہ طور پر ایران معاہدے کی حمایت کی تھی۔

جوبائیڈن نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ 2015ء کے جوہری معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد کرنے جا رہے ہیں۔تاہم جوبائیڈن انتظامیہ یقینی طور پر ایران پر کچھ نیا دباؤ بنانے کی کوشش کرے گی۔سعودی عرب چاہے گا کہ اس معاملے میں اس کے کچھ مطالبات تسلیم کیے جائیں۔تاہم ایران نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے جو معاہدہ منسوخ کیا تھا اس پر دوبارہ عملدرآمد کیا جائے گا۔

دلی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے 2017ء میں اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد سے انھوں نے سعودی عرب میں بہت سی معاشرتی تبدیلیاں کیں۔لیکن اظہار رائے کی آزادی پر اب بھی شدید پہرا ہے۔
سعودی عرب نے امریکی صدر جوبائیڈن کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مملکت کو اپنی عوام اور سرزمین کے تحفظ میں مدد دیں گے۔عرب نیوز کے مطابق امریکی صدر نے سعودی عرب کی مدد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں خارجہ پالیسی پر اپنے پہلے خطاب میں کیا۔

صدر جوبائیڈن نے کہا کہ سعودی عرب کو میزائل حملوں،ڈرون حملوں اور کئی ممالک میں ایرانی حمایت یافتہ فورسز سے دیگر خطرات کا سامنا ہے۔ہم سعودی عرب کی اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لئے مدد کرتے رہیں گے۔شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ’ہم یمن کے امریکی نمائندہ خصوصی ٹموتھی لینڈرکنگ کے ساتھ کام کریں گے تاکہ یمن کے مسئلے کا جامع سیاسی حل کر سکیں جو مشترکہ ہدف ہے اور علاقائی امن کے لئے ہمارے ویژن سے ہم آہنگ ہے۔

سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے بھی امریکی صدر کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر تنازعات حل کرنے کے بیان کا خیر مقدم کیا۔انہوں نے یمن کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے کے تقرر کا بھی خیر مقدم کیا اور کہا کہ مملکت اپنے امریکی دوستوں کے ساتھ مل کر یمن کے انسانی مسئلے کے حل کے لئے کام کرے گی تاکہ خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔


نائب وزیر دفاع نے سعودی عرب کی یمن کے مسئلے کے پرامن حل کے لئے کوششوں کے جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا کہ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں کی جانب سے 2014ء میں حکومت گرانے سے قبل بھی سعودی عرب نے تنازعے کے پائیدار سیاسی حل کے لئے کوششیں کیں جن میں گلف کو آپریشن انیشیٹیو،کویت مذاکرات اور اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مذاکرات شامل ہیں۔

وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن کے سعودی عرب کو اپنے دفاع کے لئے مدد جاری رکھنے اور یمن کے مسئلے کے سفارتی حل کے عزم کو سراہتے ہیں۔یورپی یونین کا ایک وفد یمن کے جنوبی بندرگاہ والے شہر عدن پہنچ گیا ہے۔یہ خبر یمن کے مقامی میڈیا پر نشر کی گئی ہے۔عرب نیوز کے مطابق مزید اطلاع دی گئی ہے کہ یورپی یونین کا یہ وفد یمن کی حکومت کے ساتھ متعدد امور پر تبادلہ خیال کرے گا۔

بات چیت کے اس دور میں حکومت کے زیر انتظام صوبوں کی صورتحال اور سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض شہر میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کی پیشرفت شامل ہے۔یورپی یونین کا وفد بکتر بند گاڑیوں میں صدارتی احاطے کی جانب روانہ ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے جہاں پر وہ اقتدار میں شریک نئی حکومت کے ساتھ بات چیت کرے گا۔سینئر ماہرین پر مشتمل ایک بین الاقوامی ٹیم دسمبر 2020ء میں شہر کے ہوائی اڈے پر ہوئے جان لیوا بم دھماکوں کی تحقیقات کے لئے عدن پہنچی تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Saudi arab ki yemen ke khilaf mohim joi per america k badalte tever is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 February 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.