شہید ملت پاکستان کے پہلے وزیراعظم

بھائیو میرے پاس نہ مال ہے نہ جائیداد اورفقط ایک جان ہے اگر پاکستان کی حفاظت کیلئے کبھی خون کی ضرورت پڑی تو لیاقت کا خون قوم کے خون میں شامل ہو کر سب سے پہلے بہے گا’’ یہ الفاظ تھے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے جو صادق القول تھے اور 16 اکتوبر 1951ء کو اپنا کہا پورا کر دکھایا۔

منگل 16 اکتوبر 2018

shahed e millat Pakistan ke pehlay wazeer e azam

الطاف احمد خان مجاہد

بھائیو میرے پاس نہ مال ہے نہ جائیداد اورفقط ایک جان ہے اگر پاکستان کی حفاظت کیلئے کبھی خون کی ضرورت پڑی تو لیاقت کا خون قوم کے خون میں شامل ہو کر سب سے پہلے بہے گا’’ یہ الفاظ تھے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے جو صادق القول تھے اور 16 اکتوبر 1951ء کو اپنا کہا پورا کر دکھایا۔

روایتی باتوں اور ان کی سیرت و سوانح سے وہ واقعات سنانے کی بجائے جو ہم آج تک برسوں سے سن رہے ہیں آج تذکرہ ہو جائے کچھ ان باتوں کا جو عوام سے پوشیدہ رکھی گئیں یا انہیں الزامات کی گرد میں دبا دیا گیا۔

(جاری ہے)

کسے یاد ہے کہ پاکستان کی مالی حالت ان کے عہد میں اس قدر بہتر تھی کہ ان کی حکومت نے برما کو جو آج میانمار کہلاتا ہے 5 لاکھ پاؤنڈ کا قرض دیا تھا اور جب پاکستان کو آزادی ملی تو نوآزاد مملکت میں ایک بنک نہ تھا لیکن 14 اگست 1950 تک 34 بنکوں کی 251 شاخیں قائم ہو چکی تھیں۔ جرأت و کردار کی آزمائش کا سب سے اہم موقع 15 ستمبر 1949ء کو آیا جب برطانیہ نے اپنی کرنسی کی قیمت کم کر دی۔ اگلے روز بھارت نے بھی اس فیصلے کی پیروی کی لیکن لیاقت علی خان مرحوم نے بطور وزیراعظم کرنسی کی شرح برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ پاکستان دولت مشترکہ کارکن تھا بھارت کی کوشش تھی کہ ایسا ہو جائے کیونکہ وہ پاکستان سے پٹ سن خریدتا تھا اور جب حکومت پاکستان اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی تو بھارت کو نئے نرخوں پر پاکستان سے تجارت پر مجبور ہونا پڑا اور اس موضوع پر حرف آخر یہ کہ اپنے عہد حکومت کے ابتدائی دو برسوں ہی میں انہوں نے پاکستان کو خوراک کے شعبے میں فاضل پیدا دینے والا ملک بنا دیا۔ آج حکومت میں موروثی سیاست کا دور دورہ ہے ہر سیاستدان نے خواہ وہ دینی شخصیت ہو یا قوم پرست اپنی اگلی نسل کو میدان میں اتار دیا ہے بدقسمتی سے این جی اوز اور تجاری وفلاحی تنظیموں میں بھی یہ کلچر عام ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے اکابرین تو یہ چلن اختیار نہ کر سکے مگر برا نہ منائیں تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمار ے عوام نے کبھی ان کی قربانیوں کی قدر نہ کی۔ علامہ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال 70ء کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں ناکام رہے، مادرملت کو بانیء پاکستان کی ہمشیرہ ہونے کے سامنے شکست ہوئی اورلیاقت علی خان کے صاحبزادے اکبر لیاقت کو 77ء کے الیکشن میں ان کے والد کے آباد کردہ علاقے لیاقت آباد ہی میں پروفیسر غفور احمد کے ہاتھوں شکست کھانا پڑی۔ لیاقت علی خان کی اہلیہ نے آل پاکستان ویمن ایسوی ایشن کی بنیاد رکھی اور تاحیات اس کے پلیٹ فارم سے خدمات انجام دیں لیکن ان کی زندگی میں وہ بھی وزیر، سفیر یارکن اسمبلی نہ رہیں۔ بلاشبہ وہ بعد میں پہلی خاتون گورنر بنائی گئیں، مختلف مناصب پر فائز ہیں لیکن یہ سب بعد کی حکومتوں کے فیصلے تھے۔ سادگی قائد ملت کا شعار تھی اور اس سلسلے میں بارہا کے بہت سے واقعات بتائے بھی جاتے ہیں۔ بالخصوص ان کی شہادت کے وقت شیروانی اوربنیان کی خستگی اور بنک اکاؤنٹ میں معمولی رقم کی موجودگی سے سب ہی آگاہ ہیں لیکن کچھ دوسرے واقعات بھی کم نہیں۔ تحریک پاکستان کے کارکن اور ممتاز صاحب قلم محمد سعید صدیقی نے اپنی کتاب تحریک پاکستان کے رہنما میں اس واقعہ سے پردہ اٹھایا ہے کہ میرے علی گڑھ کے ہم وطن سید حامد علی ٹیلر ماسٹر نئی دہلی میں وائس رائے کے سوٹ سیا کرتے تھے۔ بعد میں وہ ہجرت کر کے کراچی صدر میں آباد ہو گئے۔ انہیں ایک پرانے کوٹ کی آلٹریشن کرتے دیکھا تو ٹوکا کہ اتنے بڑے کاریگر ہو کر اب آپ کوٹ آلٹر کر رہے ہو۔ اس بات پر وہ کہنے لگے آپ کو پتہ بھی ہے یہ کس کا ہے؟ یہ وزیراعظم کا کوٹ ہے۔ لیاقت علی خان نے پاکستان آکر بلاشبہ کوئی نیا سوٹ نہ سلوایا وہ اپنے پرانے کپڑوں ہی کو استعمال کرتے رہے۔ یہ روایت بھی محمد سعید صدیقی کی ہے کہ پاکستان آکر نوابزادہ صاحب نے اپنی جائیداد کا کوئی کلیم نہیں بھرا تھا حالانکہ کرنال، مظفر نگر اور نئی دہلی میں ان کی بھاری مالیت کی جائیداد تھی۔ انہوں نے اپنی بارؤنج ایونیو کی وہ کوٹھی جو دلی میں بیگم رعنا لیاقت کے نام پر بنوائی تھی پاکستان ہائی کمیشن کو دے دی تھی جو آج تک وہاں پاکستانی سفار تخانہ کی عمارت کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ نواب صدیق علی خان مرحوم نے لکھا ہے کہ جب دس کروڑ مسلمانوں کی آنکھ کا تارا قائداعظم کا دست راست انتہائی پروقار انداز میں عزم و استقلال کے ساتھ ایک ہجوم بے کراں سے خطاب کرنے کے لئے مائیک کی جانب بڑھا اور اس کی زبان سے صرف یہ الفاظ نکلے تھے ’’براداران اسلام‘‘ تو مجمع میں سے 2 گولیاں آئیں جو لیاقت کے سینے میں پیوست ہو گئیں۔ شہید ملت کا بھاری جسم فرش پر آ رہا ، میں جو پرائم منسٹر کی کرسی کے عین عقب میں فرش پر بیٹھا تھا جلدی سے بڑھا اور لیاقت کے سر کو اپنے زانو پر رکھ لیا۔اس دوران لیاقت علی خان کی زبان سے 2 مرتبہ کلمہ طیبہ ادا ہوا اور آخری کلمات جو انہوں نے ادا کی کوشش کی تو صرف ’’پاکستان کا خدا حافظ‘‘ کہہ پائے۔ انہوں نے جان دے دی تو وقت آخر بھی ان کی زبان پر کلمہ طیبہ اور وطن سے محبت کا اظہار تھا ۔ محمد سعید قریشی لکھتے ہیں کہ اس روز 13 محرم الحرام کی تاریخ تھی اور عصر کا وقت تھا گویا انہیں شہدائے کربلا کی رفاقت نصیب ہوئی کہ نام ’’علی‘‘ توپہلے ہی ان کے نام کا حصہ تھا اور اجداد سے چلا آرہا تھا۔ عصبیت سے دوری اور پاکستان سے محبت کے درجنوں نہیں سینکڑوں واقعات ہیں۔ وہ اپنے عملے کے انتخاب اور تقرر کے معاملے میں بڑے محتاط تھے۔ ایک مرتبہ کام بڑھا تو ذاتی عملے میں ایک اور افسر کا اضافہ کیا یعنی ایک ڈپٹی سیکرٹری کی تعیناتی کا فیصلہ کرتے وقت اس افسر کے انتخاب میں بطور خاص یہ دیکھا گیا کہ اس کا تعلق کہاں سے ہے؟ تین نام پیش ہوئے انہوں نے مشرقی پنجاب کے میاں منظور محمد (ایم ایم احمد) کا انتخاب کیا جبکہ یوپی کے دو افسران کو مسترد کر دیا کہ ان کے رشتہ دار وہاں موجود تھے’’ پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم‘‘ کے عنوان سے تصنیف میں درج ہے کہ یہ محض اس لئے کیا گیا کہ ان کے دفتر میں کوئی ایسا آدمی نہ ہو جس کا تعلق پاکستان بننے سے قبل ہندوستان سے رہا ہو۔ ان کے دور میں پی ایم ہاؤس کام کرنے والے عبدالستار ڈسپیچ رائیڈر ریٹائر ہوئے وہ راوی ہیں کہ میں، اکثر بیگم صاحبہ، نواب صاحب اور مس مائلز اور بچوں کو کھانا کھلانے کے بعد پلیٹس باورچی خانے لے جاتا تو بیگم صاحبہ بچوں سے کہتیں کہ اکبر اور اشرف جاؤ اس کی مدد کرو۔ لیاقت علی خان جب وزیراعظم بنے تو وزیراعظم ہاؤس میں کوئی ڈریسنگ روم نہ تھا، مگر اس کیلئے کبھی تقاضا بھی نہ کیا۔ یکم اکتوبر 1895ء کو نواب رستم علی خان کے گھر کرنال میں پیدا ہونے والے لیاقت علی خان 16 اکتوبر 1951ء کو پنڈی میں شہید ہوگئے، تاریخ وفات کسی نے نکالی تو کیا خوب نکالی کہ لوح قرطاس پر امر ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

shahed e millat Pakistan ke pehlay wazeer e azam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.