صیہونی کورونا وائرس

ہم جو چند دن کے لاک ڈاؤن ہونے سے پریشان و عاجزآچکے ہیں اور گھروں سے نکلنے کے لیئے بے چین ہیں ۔ذرا سوچئیے گزشتہ 13 سال سے غزہ کے بیس لاکھ لوگ جوصیہونی کورونا کی وجہ سے ہر طریقے سے لاک ڈاؤن میں ہیں،نہ کوئی آسکتا ہے نہ جا سکتا ہے

سیّد منتظِر ہفتہ 16 مئی 2020

sihoni coronavirus
فلسطین سر زمینِ انبیاء و پیغمبر کہ جہاں دوسری عالمی جنگ کے بعد15 مئی 1978 میں غاصب صیہونیوں کو ناجائز طریقے سے لا کر بسایا گیا اورایک ہی دن میں آٹھ لاکھ سے زیادہ مظلوم فلسطینی عرب اپنے ہی وطن اور گھر سے محروم کردئیے گئے اور پڑوس میں موجود ریاستوں مِن جملہ شام، لبنان ،اُردن اور مِصر میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے۔مظلوم فلسطینیوں پراس صیہونی وائرس کو چھوڑنے کی ابتداء اُسی دن سے ہوگئی تھی جب بوڑھے استعمار برطانیہ کے ایک اعلی عہدیدار جیمز بالفور(James Balfour) نے ایک اعلان کے ذریعے فلسطین کی تقسیم صیہونیوں کے حق میں کرنے کے لیے حکومتِ برطانیہ کو خط لکھا تھا۔

اس اعلان کواعلان ِبالفور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد اِس پرُامن اورپاکیزہ خطے میں ظلم و بربریت کے وہ پہاڑ توڑے گئے اور توڑے جارہے ہیں جس کی مثال شاید ہی مل سکے۔

(جاری ہے)


اعلان بالفور
یہ2نومبر1917ء کی بات ہے کہ جب پہلی جنگ عظیم کے بعدصیہونیوں نے فلسطین پر قبضہ کی ٹھان لی۔برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ جیمز بالفور نے برطانوی یہودی لابی کے اہم ترین فردوالٹر روٹسچائلڈ(Walter Rothschild) کوایک خط لکھا ، جس میں فلسطین کو یہودیوں میں تقسیم کرنے کا کہا گیا۔

یہ خط اپنی نوعیت کا مختصر خط تھا ،تاہم اِس کے اثرات فلسطین کی تقسیم کا نمونہ بن کر سامنے آئے ۔ جیمز بالفور لکھتا ہے کہ :
"جناب Walter Rothschild مجھے آپ کو یہ بات بتانے میں انتہائی مسّرت ہو رہی ہے کہ کابینہ نے یہودیوں کی امنگوں کے مطابق فیصلہ قبول کرلیا ہے۔فلسطین میں یہودیوں کی ریاست اور وطن تشکیل دینے کے لیئے حکومت برطانیہ ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لائے گی۔

میں اس اعلامیے کو آپ تک پہنچانے میں پرُ مسرت ہوں"
 جیمز بالفورکے اس اعلان کے بعد جیسے فلسطین عربوں پر قیامت ہی ٹوٹ پڑی تھی اورفلسطین کی عوام اور تما م دھڑوں نے اِس اعلان کو مسترد کیا اور کسی صورت فلسطین پر صیہونیوں کی ناجائز ریاست کے حق کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا۔فلسطینی عربوں کا موقف کافی مضبوط تھااُن کا کہنا تھا کہ کیسے ممکن ہے کہ دنیاکے مختلف ممالک سے صیہونیوں کو لاکر بسایاجا رہا ہے اور حکومتِ برطانیہ فلسطین پر ان کو ایک الگ وطن بنا کر دینے کا وعدہ کر رہی ہے۔

فلسطین کا سب سے زیادہ متا ثرترین علاقہ غزہ کی پٹی ہے۔
غزہ
غزہ کہ جہاں2006میں حماس کی حکومت قائم ہوئی۔2007 سے ہی غاصب اسرائیلیوں کے محاصرے میں ہے یا یوں کہیے کہ صیہونی کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔ہم جو چند دن کے لاک ڈاؤن ہونے سے پریشان و عاجزآچکے ہیں اور گھروں سے نکلنے کے لیئے بے چین ہیں ۔

ذرا سوچئیے گزشتہ 13 سال سے غزہ کے بیس لاکھ لوگ جوصیہونی کورونا کی وجہ سے ہر طریقے سے لاک ڈاؤن میں ہیں،نہ کوئی آسکتا ہے نہ جا سکتا ہے ۔نہ کوئی امداد پہنچ سکتی ہے ۔ کیسے زندگی گزار رہے ہیں؟ غاصب اسرائیلی اس علاقے میں کبھی فضائی حملے کرتے ہیں تو کبھی زمینی حملے اور یوں روز درجنوں نوجوان اورچھوٹے بچے اپنی زمین سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹنے کے جرم میں قتل کردیئے جاتے ہیں،خواتین کی عزتیں تاراج کی جاتی ہیں۔

قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ لیکن سلام ہو اُن ماؤں ،بیٹیوں اور نوجوانوں کو جوحق کا شعار بلند کیئے ہوئے ہیں اور غاصب صیہونیوں سے لڑرہے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیاکہ جس کا کام دنیا میں امن قائم کرنا ہے(گو کہ آج تک دنیا کے کسی بھی خطے میں امن قائم نہ کرسکی)فلسطین تنازعے میں بلکل بے بس نظر آتی ہے۔

اب اقوام متحدہ سے کیا امید لگائی جائے جب اس کی قلعی خود امریکی حکمران کھول دیں۔
بقول ہیلری کلنٹن
اقوام متحدہ صیہونی ہے یہ ادارہ ایک طاقتور حکومت ہے جس کے بارے میں صیہونی دانشوروں کے پروٹوکولز میں بتایاگیا ہے اور1897 سے1905 تک اس کی طرف بارہا اشارہ کیا گیا ہے۔
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی 
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مقبری کرتے
یہاں ایک اور بات جو غور طلب ہے وہ یہ کہ1948 کے صیہونیوں کے اس غاصبا نہ اقدامات کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ مزید طویل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

West Bankمیں تیزی سے صیہونی آباد کاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سلسلہ پھر بھی نہ رکا اور پچھلے برس ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئی ڈیل متعارف کرائی کہ جس میں غاصب صیہونیوں کو مزید قبضے کی نوید سنائی گئی ۔جسے سینچری ڈیل(صدی کی ڈیل) کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ 
سینچری ڈیل(صیہونی)
امریکہ نے پچھلے سال سینچری ڈیل کے نام سے مظلوم فلسطینیوں پہ ایک اور شب خون مارا۔

جس کے تحت پہلے امریکہ نے امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے نکال کریروشلم یعنی القدس شہر میں منتقل کیا(تاریخی وثقافتی اعتبار سے القدس شہر فلسطین کا ابدی دارلحکومت تھا اور ہے) اور دنیا کو یہ تاثر دیا کہ القدس شہر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت ہے ۔مزید یہ کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو اردن کے مغربی کنارے کو اپنے ساتھ ملحق کرنے کا حق دیا گیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا فیصلہ آتے ہی فلسطینی سارے حصار توڑ کر گھروں سے باہر نکل آئے۔ قابض اسرائیلی فوج نے نہتے فلسطینی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرکے کئی افراد شہید کر دئیے،جبکہ4700 سے زائد افراد زخمی کردئیے گئے۔
سینچری ڈیل(اسلامی)
ایران جو کہ صدی کی ڈیل کاسختی سے مخالف ہے ۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اِس بارے میں جو ڈیل پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ فلسطین میں انتخابات کرائے جائیں اور اس انتخاب میں فلسطین کے مسلمان ،مقامی یہودی(یہاں مہاجرین یہودیوں کی بات نہیں ہورہی)اور عیسائی تینوں اِن انتخابات میں شرکت کریں اور اپنا ووٹ دیں اور ایک مشترکہ حکومت برسرِاقتدار آجائے اُس کا نام فلسطین رکھا جائے ناکہ اسرائیل۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے تو پھر یہ۵ ملین غاصب اسرائیلی کہا جائیں گے؟
 اِس بارے میں ڈاکٹر حسن عباسی (مطالعاتی و تحقیقاتی مرکز برائے ڈاکٹرائن ،ایران کے سرابراہ) کچھ اس طریقے سے حل پیش کرتے ہیں کہ وہ ملک جو ہمیشہ اسرائیل کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور ہر سطح پہ اُس کا دفاع کرتے ہیں پھر چاہے وہ اقوام متحدہ ہو یا سلامتی کونسل وغیرہ غاصب اسرائیلیوں کواِنہی ممالک میں بھیج دیا جائے۔

امریکہ
امریکہ جو اسرائیل کا سب سے بڑا حامی ہے۔اُس پرجان نچھاور کرتا ہے یا یوں کہیے کہ اِن دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ امریکہ کہ لیئے تو معمولی سی جگہ دینے سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔شہر Boston سےNewyork کے درمیان ایک چھوٹی سی جگہ ہے۔ Philadeilhiaتک کا ایک حصّہ اسرائیلیوں کو دیں دے۔ وہاں یہودی بھی پہلے سے آباد ہیں اِس سے اچھی کیا بات ہوگی نہ کوئی جھگڑا نہ کوئی قتل و غارت ۔

اسرائیلی سکون سے وہاں رہیں۔ 
برطانیہ
برطانیہ جو' بالفور معاہدے 'میں یہ کہتا ہے کہ ہم اِس معاہدے میں شروع سے ہیں اور ہم اِن یہودیوں کو فلسطین لے کر آئے۔برطانیہ میں فلسطین کے برابر ایک جگہ ہے ۔Southampton یہ جنوبی لندن میں واقع ہے ۔برطانیہ یہ جگہ اُن یہودیوں کو دے دے اور اسرائیلی وہاں ایک حکومت قائم بنالیں۔

آخر کیوں 'بلفور معاہدے' کے ذریعے کسی کی جگہ کو چھین کر کسی اور کو بخشا جارہا ہے۔برطانیہ والے جو اسرائیلیوں کے بہت بڑے عاشق ہیں اپنی زمین کا ایک چھوٹاٹکڑا دے دیں۔
کینڈا
کینڈا میں دو جگہ ہیں۔ ایک Vancouver جہاں وہ اپنا چھوٹا سا ملک بنا لیں یا Ottawaکے نیچے Toronto کے اندر ایک چھوٹا سا ملک بنالیں یا کینڈا کی وسیع و عریض زمین میں جہاں چاہے منتقل ہوجائے۔

فرانس۔۔۔۔
 فرانس بھی اسرائیلیوں کا کم عاشق نہیں ہے۔ہم کہتے ہیںLille شہر جہاں کی سرحد Belgium وغیرہ کے ساتھ ملتی ہے ۔اس حصّے کو فرانسیسی حکومت اسرائیلیوں کو دے دے۔اسرائیلی آرام سے وہاں رہائش اختیار کرلے۔
جرمنی
جرمنی جس پہ الزام ہے کہ DachauاورAuschwitzمیں ہولوکاسٹ کا جرم انجام دیا ۔

اب جرمنی والوں کو چاہیئے کہ ان کے حق میں ایک نیکی کریں اورMunichکے نیچے والا علاقہ اسرائیلیوں کو دے دیں۔وہاں ایک ملک بنام اسرائیل بن جائے یا پھر Berlinسے مشرق کی طرف HollandاورGermany کے درمیان ایک جگہ ہے جسے اسرائیلیوں کے لیئے مختص کیا جاسکتا ہے۔ 
آسڑیلیا
اب بات کرتے ہیں آسڑیلیا کی جس پر ۲۰۰سال پہلے برطانیہ نے قبضہ کیا تھا اور وہاں کی قوم کو نابود کردیا اور پھر وہاں کا نام آسٹریلیا رکھ دیا۔

شہرCanberra سےMelbourne کی طرف کا علاقہ بہت بڑا اور آبادی کم ہے تو یہاں آسانی سے اسرائیلیو ں کو آباد کیا جا سکتا ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ ان کو ان خطوں میں منتقل کرنے کے لیئے تقریباًایک ٹریلین ڈالر کا خرچہ لگے گا تو یہ خرچہ کون برداشت کریں گا؟اس رقم کو چارحصوں میں تقسیم کریں اِس کا ایک تہائی حصہ یہودی برداشت کریں ، ایک تہائی مغربی ممالک ادا کریں، ایک تہائی مسلمان ممالک دیں اور آخری ایک تہائی خود صیہونی حکومت یعنی اسرائیل ادا کرے۔

اب اگر اِس تجویز پر غور کریں تو واقعتاً محسوس ہوتا ہے صدی کی ڈیل یہ ہے ناکہ وہ جو اسرائیل اور اُس کے حواری پیش کرتے ہیں۔
المختصر یہ کہ گزشتہ ساتھ دہائیوں سے زیادہ کے قبضے کے دوران صیہونی حکومت نے ناجائز قبضہ اور فلسطین کے اصل مالکان کے خلاف جارحیت اور بے شمار جرائم کا ارتکاب کیا۔ مسجدِاقصٰی کی بے حرمتی کی،صیہونی بستیوں میں توسیع کرکے مزید فلسطینیوں کوبے گھر کیا، بیت المقدس کویہودی شہر بنانے کی کوشش کی، مغربی کنارے اور غزہ پٹی کو مسلسل محاصرہ میں رکھا،جولان کی پہاڑیوں پر ناجائز تسلط جمایا اور اب مغربی کنارے کو بڑے حصوں کومقبوضہ علاقوں میں شامل کرکے اپنی جارحانہ پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

 
یہی وجہ بنی کہ اِمام خمینی نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعتہ الوداع کو یوم القدس کے عنوان سے منانے کا کہا اوردنیا کے حریت پسندوں کو یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہو۔ پوری دنیا کے غیور انسان جمعتہ الوداع یعنی یوم القدس کواُس کی پوری آب و تاب کے ساتھ مناتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اِس غاصبانہ اقدام کو تسلیم نہیں کرتے اور انشااللہ وہ دن دور نہیں کہ جب مسلمان ایک ہوکر اپنے قبلہ ِاول کو بیت المقّدس کو آزادکروائیں گے اور اسرائیل کے ناپاک وجود کا ہمیشہ کے لیئے خاتمہ کر دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

sihoni coronavirus is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 May 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.