گلگت بلتستان انتخابات اور سیاست

منگل 10 نومبر 2020

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

مسلم لیگ ن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جو میاں نواز شریف کے بیانیہ کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا وہ اپنی راہیں جدا کرسکتا ہے بلکہ گلگت بلتستان میں لوٹوں اور انڈے مارنے کی ترغیب دی۔ زبیر عمر ترجمان مریم نواز شریف نے وضاحت کرنا چاہی تو موصوفہ نے ببا نگ دمل اپنی بات کو دہرایا اور کہا کے میرے ترجمان زبیر عمر ادھر اُدھر کی بات کررہے تھے جبکہ میں نے بہت واضع کہا تھا کہ لوٹوں کا پیچھا کرو انہیں گھر سے نہ نکلنے دیں۔

مریم نواز نے گلگت کے مختلف شہروں میں بڑے اجتماعات سے خطاب کیا ہے اور جلسوں کی بنیاد پر رائے قائم کی جاسکتی ہے ۔ کہ وہی انتخابات جیتیں گے۔ حالانکہ گزشتہ پانچ برس مسلم لیگ ن کی وہاں حکومت رہی ہے اور نہ ہی صوبائی حیثیت دی گئی اور نہ ہی کوئی قابل ذکر منصوبہ دیا گیا جس پر مسلم لیگ ن اور وہاں کے لوگ اس پر فخر کرسکیں۔

(جاری ہے)

حقیت یہی ہے کہ جلسوں کے اعتبار سے بڑے جلسے بھی پانچ سال حکمرانی کر چکے ہیں۔

اور اپنے انتخابی جلسوں میں مستقبل کے سہانے خواب دکھا رہے ہیں ۔ سابق حکمران جماعتوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف نہ تو کوئی الزامات عائد کررہے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی مخالفت نظر آرہی ہے بلکہ دونوں حلیف جماعتوں کا ہدف تحریک انصاف ہے اور اسی طرح تحریک انصاف کا ہدف مذکورہ دونوں جماعتیں ہیں۔ تحریک انصاف کا گلگت بلتستان میں کبھی اقتدار نہیں رہا اور ابھی بھی وہاں ایک نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر جو شخص کا م کررہا ہے وہ تمام جماعتوں کے لئے قابل قبول ہیں۔

پی پی پی تو کراچی کے جلسہ عام میں نواز شریف کا خطاب نہ کرا کے اور پھر آئی جی کے اغوا کے بھونڈے الزام اور آرمی چیف کے فون کال کے بعد گزشتہ تین ہفتوں سے وہیں پر مقیم ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس فون کا ل کا اثر ہو کہ وہ پی ڈی ایم کو چھوڑ کر وہاں سے اتنخابات کے تنائج تک رہیں ۔ اوپر سے بی بی سی کو انٹر ویو دیکر ملکی سیاست با الخصوص پی ڈی ایم میں اب طلاظم پیدا کردیا ہے کہ سب وضاحتیں دیکر اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔

اِدھر پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں آصف زرداری خود میدان میں آگے ہیں اور انہوں نے تمام جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ بہت سارے معاذنہ کھولے جائیں وگرنہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آصف زرداری زیر ک سیاست دان ہی ں وہ ہر طرح کا کھیل کھیلنے کی مہارت رکھتے ہیں وہ یہ بات کرکے کسی اور کو بھی پیغام امن دے رہے ہیں۔ یہ ”مرد حُر“مسلم لیگ ن کے بھی بہت سارے ادھار چکانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتائج کا بھی انتظار کررہے ہیں۔

ا نتخابات کے نتائج آنے پر آصف زرداری مزید کھل کر اپنی سیاست کی لہتیں کھولتے جائیں گے۔ میری ذاتی رائے میں یہ انتخابات آئندہ کی ملکی سیاست کا رخ متعین کردیں گے۔ گلگت کی چیف کورٹ نے تمام وزراء اور ایم این ایز جو انتخابات میں جلسوں سے خطاب کررہے ہیں کو حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ چو بیس گھنٹے میں علاقے سے چلے جائیں ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس حکم کو چیلنج کردیا تو انہیں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حکم مل گیا جس سے پی یی پی میں نیا جوش اور ولولہ پید اہوگیا ہے ۔

حکومتی پارٹی پر امید اُمید ہے بلکہ یقین رکھتی ہے کہ وہ انتخابات جیت جائیں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں بڑے بڑے اجتماعات کے باوجود دھاندلی کا شور اور واویلا مچارہے ہیں۔ اس ی اثنا ء میں تقاریروں میں سختی رہتی ہے جس کا فائدہ اٹھانے کا مسلم لیگ ن اور پی پی پی کو دھڑ کا لگا ہوا ہے ۔ ان انتخابات اور خطہ کی صورتحال کے پیش نظر گہری نظر رکھنے والوں کو صورتحال کا ادراک ہوگا اور وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف زیادہ سیٹیں حاصل کرے گی جبکہ دوسرے نمبر پر پی پی پی ہوگی۔

اسی طرح آزاد ارکان اور دیگر کامیاب جمران پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ واللہ اعلم ۔
قارئین کرام! مسلم لیگ ن کے بیان نے انہیں بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے ، بلوچستان میں انہیں ناقابل تلافی پہنچ چکا ہے خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں جوڑ توڑ شروع ہو چکا ہے۔ ن لیگ میں شکست وریخت تیزی سے جاری ہے ۔ جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ ن کا ایک دھڑا جو ہمیشہ متعدد حلقوں کو دیکھ کر اور ان کے اشاروں کنا یوں کو سمجھتے ہوئے اپنی سیاست کا رخ متعین کرتا ہے یہی روایت ان کے بزرگوں کی ہے ۔

جنوبی پنجاب اور پھر ڈیرہ غازی خان میں مسلم لیگ ن کو ایک بڑا دھچکا لگ سکتا ہے ۔ اگرچہ ان کے لئے دو اہم جماعتوں کے دروازے بند ہیں لیکن وہ آزاد رہ کر سیاست میں جینا پسند کریں گے یا پھر کچھ عرصے کے لئے خاموش رہ کر حالات کا جائزہ لیں گے اور تیل اور تیل کی دھار دیکھیں گے۔ مسلم لیگ ن کے باقاعدہ دوگروپ بننے کی بھی باتیں ہورہی ہیں لیکن نواز شریف اور شہباز شریف ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوں گے جس کی وجہ سے پنجاب کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چند لوگ اپنی جگہ بنالیں گے اور کچھ تو شاید سیات کو خدا حافظ کہہ دیں گے۔ پی ڈی ایم یا کوئی سیاسی جماعت اس حکومت کے لئے ہرگز خطرہ نہیں البتہ مہنگائی، بے روزگاری، سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ پنشنر حالات سے بہت تنگ ہیں اگر انہیں ریلیف اور وہ بھی فوری ریلیف نہ ملا تو پھر ایسے لوگوں کی آہیں عرش تک جائیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :