”حکومتی کردار اور پنجاب“

جمعہ 19 فروری 2021

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

تحریک انصاف کی حکومت میں ایسے ایسے کردار ہیں جنہیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ۔ مقبولیت تو بحرحال مقبولیت ہوتی ہے وہ مثبت ہو یا پھر منفی ، وفاقی وزیر مملکت زرتاج گل اس لحاظ سے منفرد ہیں۔ ٹی وی شوز میں ایسی باتیں کرجاتی ہیں تو اہل فکر و نظر سوچتے رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے اکثریہ کہا ہے کہ انہوں نے سرداروں کو ان کے گھروں میں گھس کر مارا ہے ۔

اگر وہ یہ کہیں کہ بلوچ قبیلے نے انہیں عزت دی ہے تو وہ مناسب ہوتا ہے ۔ بلوچ اقوام خاتون کی عزت کرتے ہیں اگر وہ گھر چل کرآئے تو انہیں چادر دیکر روانہ کیا جاتا ہے ۔ بلوچ قبیلے نے اپنے سرداروں کے برعکس ایک خاتون کا احترام کیا ہے ۔ محترمہ اسے کسی اور فتح سے تعبیر کرتی ہیں۔ وزیر مملکت کھل کر اظہار کرتی ہیں اور اسے بطور خاتون ا س زبان میں جواب نہیں دیاجاتا۔

(جاری ہے)

جوابات کا وقت تو آئندہ انتخابات ہی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ان کی کارکردگی سے تو ان کے کارکنان بھی خوش نہیں جوابی الزامات کا درست وقت بھی انتخابات ہی ہوسکتے ہیں جب سامنے آئے تو پتہ چلے گا ۔ دوسرا اہم کردار ضلع ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں ۔ پٹوار خانے سے رجسٹری تک تھانوں میں تبادلوں سے لیکر زمینوں اور پلاٹوں پر قبضے کی داستانیں عام ہیں۔

ملازموں کیلئے وصولیاں الگ کہانی ہے ۔ ایسے معاملات میں دو افراد کے درمیان کوئی تحریری معاہدہ تو ہوتا نہیں اور نہ ہی کوئی رسید لی یادی جاتی ہے ۔ تحصیل تونسہ میں خواجگان تونسہ کے زیر اہتمام صدیوں سے رہنے والے رقبوں کے کیس اب بھی چل رہے ہیں۔ سجادہ نشین خواجہ شاہ سلیمان تونسوی عدالتوں اور دفاتر میں اپنے زیر قبضہ رقبوں کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔

کئی دیگر شرقاء کسی سے بات نہیں کرتے اور انہیں تسلیاں دی جارہی ہیں گزشتہ دنوں ایک بیورو کرپٹ کی چند کنال زمین پر ایسے قبضہ کیا گیا ہے جیسے کوئی اپنی زمین پر دعویٰ رکھتا ہو۔ لڑائیوں پر اینٹیں اور ضروری سامان لاکر کمرے بنادیے گئے اس نے اپنے دوست احباب ، متعلقہ پولیس افسران سے رابطہ کیا لیکن شنوائی نہیں ہوسکی۔ قبضہ کرنے والے کون ہیں اور انہیں کس کی پشت پناہی حاسل ہے پوارا علاقہ جانتا ہے ۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اپنی زمین کے معاملات کی پیروی کرنے والے سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی تاکہ وہ اس پیروی سے دور رہے ۔ اس قبضہ سے متعلق مجھے اس بیورو کرپٹ نے بتایا تو لفظ ادا کرنے سے بھی قاصر تھا۔ بات چند کنال زمین کی نہیں بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ اتنی دیدہ دلیری سے جس طرح قبضہ کیا گیا کہ اہل علاقہ بھی انگشت بد نداں تھے ۔

نہ خاندانی ملکیت کا خیال کیا گیا اور نہ ہی اس بیورو کرپٹ کی لاج رکھی جو گزشتہ کئی سالوں سے ان کی ضرورت کرتا رہا ہے ۔
ایک دوست نے مجھے فون کیا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی بے لگام ہو چکی ہے نیشنل ہائی وے پر ہر چھوٹا بڑا کاروبار نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے NOCسے مشروط ہے اور لاکھوں روپے کا بل پکڑا دیا جاتا ہے کہ کاروباری حضرات سڑک استعمال کرتے ہیں ہر کار، بس اور ٹرک تو پہلے ہی گزرنے کا ٹیکس ادا کررہے ہیں۔

اب سڑک سے ہٹ کر کوئی کاروبار کرے تو اس کی فیس بھی ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی اندھیر نگری ہے کیا پٹرول ، ڈیزل ، بجلی ، گیس روزمرہ کی اشیاء کی گرانی حکومت کا پیٹ نہیں بھرا کہ اب سڑک سے دور کسی بھی کاروبار کیلئے NOCلینے کیلئے بھاری فیس ادا کرنی پڑتی ہے ۔ آخر یہ دھونس دھاندلی کہا ں جاکر رکے گی۔ ضلع ڈیرہ غازی خان جس کیلئے کروڑوں اربوں کے پراجیکٹ کا اعلان ہورہا ہے ۔

پاکستان بھر میں تحصیل تونسہ اور بزدار قبیلہ متعارف ہوا اور کوئی شک نہیں کہ اگر ترقی کی منازل طے ہو گئیں تو بہت بڑا اعزاز ہوگا لیکن دکھ درد، رشوت بد عنوانی کی داستانیں بھی بڑی عام ہیں۔ افسران بھارتی کے رھائشیوں کی فرمائشیں پوری نہیں کرسکتے تو انہیں تبادلوں کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ احتساب کی زد میں اگر ڈیرہ غازی خان کے حکمران آئے تو ان کا پریشان حال کوئی نہ ہوگا۔


سرکاری ملازمین اپنے مطالبات کے لیے اسلام آباد گئے تو ان پر وہ تشدد کیا گیا جس میں مارنے والے اور مار کھانے والے سرکار ی ملازمین تھے ۔ آنسو گیس سے پورا اسلام آباد آلودہ تھا اور وفاقی وزیر داخلہ نے بڑی ڈھٹائی سے کہاکہ آنسو گیس شیل پرانے ہو چکے تھے جنہیں چیک کیا جانا ضروری تھا۔ سرکاری ملازمین کے زخموں پر نمک چھڑ کا گیا۔ سرکاری ملازمین کی تمام تنظیموں نے ایسے نوٹیفیکشن پر اکتفاکیا جس میں کچھ بھی نہیں تھا۔

25فیصد کے اضافہ کے اعلان فردا کے ساتھ ریٹائر ملازمین کیلئے بھی اعلان کردیا جاتا جو اس مشکل حالات میں سب سے زیادہ حقدار اور مستحق ہیں۔ ایسے لوگوں کو نظر انداز کرنا سراسر ظلم ہے ۔ جناب وزیر اعظم ! آپ کو اندازہ نہیں کہ عام آدمی پر کیا گزررہی ہے سرکاری ملازمین کی طرح ریٹائر ملازمین کی پنشن میں معقول اضافہ کرکے ان کی اشک شوئی کرکے ان کی دعائیں لیں وگرنہ ان کے پاس دعائیں نہیں بد دعائیں وافر ہیں اور ان کا انجام کیا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :