”سیاسی کارکنوں کی کہانی کچھ نئی کچھ پرانی“

منگل 16 جون 2020

Ahmed Khan

احمد خان

سیاسی کارکنوں کو شناخت اور عزت دینے کا سہر ابہر حال ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے یہ ذوالفقار بھٹو تھے جنہوں نے سیاسی کا رکنوں کو محض نعرے لگا نے اور اپنی قیادت کے لیے لا ٹھیاں کھا نے والی مخلوق نہیں سمجھا بلکہ انہوں نے اپنے سیاسی کا رکنوں کو ماتھے کا جھو مر بنایا ، انہوں نے کا رکنوں سے والہانہ محبت کا ایسا رشتہ استوار کیا کہ آج بھی اس دور کے بزرگ بھٹو کا نام سنتے ہیں تو ایک ٹھنڈی آہ بھر تے ہیں ، ذوالفقار بھٹو اور ان کی سیاسی جماعت نے در اصل سیاسی کارکنوں کو زبان دی ، بھٹو ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے سو نے پہ سہا گہ کہ دبنگ لب و لہجے اور کمال کی ذہا نت نے انہیں عوام میں کمال شہرت بخشی، سیاسی کارکن ان پر ہر لمحہ واری صدقے ہو نے کے لیے تیار رہتے جواباً ذوالفقار بھٹو نے بھی اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کیا ، اپنے سیاسی کارکنوں پر محبت نچھاور کر نے میں انہوں نے بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا ، اس دوطرفہ محبت کا نتیجہ کیا نکلا ، سیاسی کارکن ذوالفقار بھٹو سے عشق کر نے لگے اور عشق بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ عشق صادق ، پاکستان کی سیاسی تاریخ نے وہ سیاہ دن بھی دیکھا جب ذوالفقار بھٹو کو پھا نسی چڑ ھا دیا گیا ، بھٹو کی جبراً ” دائمی رخصتی “ کے بعد ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ بھٹو کے جاں نثار ، فدائی اور عاشق کو نوں کھدروں میں چھپ جا تے ، اس سے بھی سہل راستہ یہ تھا کہ بھٹو کی محبت دفن کر کے آمر کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ، سخت کو شی سے بھی امان پاجا تے اور ذاتی مفادات سے اپنی زندگیوں میں رنگینی بھی بھر لیتے ، حیر ت انگیز طور پر مگر ایسا نہیں ہوا ، پیپلز پارٹی کے کارکن اور ذوالفقار بھٹو کے عاشق صادق آمر یت کے سامنے پوری قد کا ٹ کے ساتھ کھڑ ے ہو گئے ، آمریت کے سیاہ دور میں بھی پی پی پی کے جاں نثاربھٹو کے گن گا تے رہے اور آمر وقت کو للکارتے رہے ، بد لے میں انہیں کو ڑے بھی کھا نے پڑ ے جیلو ں کی سیر بھی کر نی پڑ ی ، عقوبت خانے بھی ان کا مقدر بنے ، گیارہ سال کی طویل مگر صبر آزما جد وجہد کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے سیاسی میراث کو پھر سے سنبھالا گویا پی پی پی کے کارکنو ں کی صدائیں ، وفا ئیں اور سزا ئیں رائیگاں نہیں گئیں، محترمہ نے بھی عین اپنے والد محترم کی راہ اپنا ئی ، ذوالفقار بھٹو کے ہم نوالہ و ہم پیالہ ساتھیوں اور سیاسی کا رکنوں کو وہ تکر یم بخشی کہ بیاں سے باہر ہے ، آمر یت کے گیارہ سالوں میں ذوالفقار بھٹو کے جو جاں نثار راہ عدم کے مسافر بنے وہ جا تے جا تے اپنی اولا دوں میں بھٹو کی ”سیاسی گھٹی “ ڈال کر گئے ، بہت سو ں نے اپنی اولادوں کو وصیت آمیز تلقین کی اگر سیاست کر نی ہے تو صرف پی پی پی کے پلیٹ فارم سے کرنی ہے ، اس نئی نسل کو محترمہ بھٹونے اپنا داست بازو بنایا ، وہ سیاسی جماعت جس کے بارے میں پیپلز پا رٹی کے مخالفین اور سیاسی پنڈت کہتے تھے کہ اب پی پی پی قصہ پا رینہ بن چکی ، محتر مہ بھٹو کی قیادت میں پی پی پی نے ایسی انگڑائی لی کہ پی پی پی کے مخالفین حیر ت زدہ رہ گئے ، نئے خون نے پی پی پی کو پھر سے سیاسی کامرانیوں کی راہ پر گامزن کیا ، محترمہ کا بھی اپنے کارکنوں کے ساتھ سلو ک محبت آمیز تھا اقتدار ہو یا حزب اختلاف کا مر حلہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے جاں نثارکارکنوں کو کبھی نہیں بھو لیں ، نہ صرف اپنے سیاسی کا رکنوں سے ان کا مضبوط رابطہ رہا بلکہ ان کی بات بھی سنتیں ، اپنی سیاسی قیادت کے سامنے لب کشائی کا وصف پیپلز پارٹی نے سیاسی کا رکنوں کو عطا کیا ، محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد اور جناب بلا ول کی پارٹی قیادت سنبھالنے تک وقت کے پلوں تلے بہت سا پانی بہہ چکا ، سیاسی کارکنوں کے ساتھ ذوالفقار بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے محبت اور اپنا ئیت کا جورشتہ استوار کیا تھاوہ اب قدرے کمزور پڑ چکا ہے ، جناب بلاول کو اب نئے دم خم سے سیاسی کا رکنوں سے محبت کا رشتہ قائم کر نا ہوگا ، دیکھیں جناب بلا ول اس میں کس حد تک کامران ٹھہر تے ہیں اور پھر سے کیسے پیپلز پارٹی کو عملا ً وفاق کی علا مت بنا تے ہیں ،مسلم لیگ ن کے چا ہنے والوں کی بھی کمی نہیں ، مسلم لیگ ن کو عوام میں دوام بخشنے میں جناب نواز شریف نے کلیدی کر دار ادا کیا اگر یوں کہا جا ئے کہ مسلم لیگ ن کو توانا درخت نواز شریف نے بنا یا قدرے بے جانہ ہوگا ، جناب نواز شریف جب پنجاب کے وزیر اعلی تھے اس دور میں نواز شریف اور ان کے چاہنے والوں کے درمیاں محبت کا رشتہ استوار ہوا ، نواز شریف نہ صرف کا رکنوں کے حالات سے خود کو باخبر رکھتے بلکہ ان سے ملنے ملا نے کا اہتمام بھی کر تے ساتھ اپنے سیاسی کا رکنوں کے مسائل بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرتے رہے ، آج مسلم لیگ ن دراصل نواز شریف کی محنت کا پھل کھا رہی ہے اگر چہ سیاسی پیچ و خم میں چھو ٹے میاں صاحب جنا ب نواز شریف کا شانہ بشانہ ساتھ دیتے رہے مگر آج بھی انتخابات کے بہار کا موسم جب بھی ک کھلتا ہے مسلم لیگ ن کو ووٹ نواز شریف کے نام کا پڑ تا ہے ، صوبے کی کما ن داری سے مر کز کی کمان داری سنبھالنے کے بعد مگر جناب نواز شریف اور کارکنوں کے درمیاں وہ مضبوط رابطہ قائم نہ رہ سکا ، نواز شریف اور کا رکنوں کے درمیاں ” شیشے کی دیوار “ کے پس پر دہ محرکات کیا ہیں ، بہر حال اس کا بہتر اور صائب جواب جنا ب نواز شریف ہی دے سکتے ہیں ، میاں صاحب کے بعد محترمہ مریم نواز صاحبہ نے کارکنوں سے رابطہ استوار کر نے کی سعی کی ابھی وہ مسلم لیگ ن کے کارکنوں کے ساتھ مضبوط تعلق بنانے کے لیے تگ و دو کر ہی رہی تھیں کہ پانامہ کے قضیے نے مسلم لیگ ن کو ایک نئی آزمائش میں دھکیل دیا ، کیا آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن پھر سے بھر پور سیاسی قوت بن پا ئی گی ،اس کا جواب مستقبل ہی بہتر طو ر پر دے سکتا ہے ، تحریک انصاف وطن عزیز کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے ، جناب خان بھی ذوالفقار بھٹو کی طرح طلسماتی شخصیت کے مالک ہیں کر کٹ کی فتوحات الگ سے ان کا معتبر حوالہ ہے ، جناب خان پہلے دن سے اپنے کا رکنوں میں مقبول تھے ، جناب خان کی پشت پر ایک طویل سیاسی جد وجہد ہے مگر اس طویل سیاسی جد وجہد میں ان کے چاہنے والے ثابت قدمی سے ان کے ساتھ کھڑ ے رہے ، گزشتہ انتخابات میں ان کے کا رکنوں نے جناب خان اور تحریک انصاف کی جیت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی اور اس نتیجے میں آج جناب خان وطن عزیز کے وزیر اعظم ہیں مگر وزیر اعظم بننے کے بعد جناب خان کا اپنے سیاسی کا رکنوں سے وہ رابطہ نہیں جو ہونا چاہیے تھا ، تمام تر رام کہانی کا مقصد کیا ہے ، کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اس کے کارکن آکسیجن کا کر دار ادا کر تے ہیں ، یہی سیاسی کا رکن ہیں جو اپنی اپنی سیاسی جماعت کی ” نیک نامی “ کو عوام میں فروغ دیتے ہیں ، اپنی سیاسی جماعتوں کا دفا ع کر تے ہیں ، گویا جمہوری سیاست کی ساری بہار سیاسی کا رکنو ں کی بد ولت ہی ہو تی ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :