نیا پاکستان یا روحانستان

ہفتہ 11 جنوری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

شیخ رشید احمد کا پریس کانفرنس میں یہ کہنا کہ ''آرمی ایکٹ میں ترامیم کے لئے تعویزوں کا سہارلیا گیا تھا''۔ کوئی انہونی بات بھی نہیں۔ کچھ دن قبل شہباز شریف بھی لندن میں یہ کہ چکے ہیں کہ ''اسلام آباد جادو ٹونے کی گرفت میں ہے''۔ پچھلے دنوں حامد میر نے بھی اپنے پروگرام میں توجہ دلائی تھی کہ نواز شریف کی نیب میں قید کے دوران عمارت کے باہر رات کے سناٹے میں کھڑی پراسرار گاڑی میں کون کیا کرتا رہا؟۔

فیاض الحسن چوہان کو اب بھی اپنے دفتر سے اکثر ہڈیاں ملتی ہیں اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو اور کچھ دیگر سیاسی راہنماء بھی اسی طر ح کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ ایک مرتبہ خورشید شاہ نے تو یہاں تک کہا کہ عمران خان ہر کام، ہر مسئلے کو جادو اور تعویز سے کرتے ہیں ایسے ملک نہیں چلتے۔

(جاری ہے)

یہ بھی پڑھ لیجئے کہ ٹک ٹاک سٹار حریم شاہ کے ہمراہ ویڈیو ز میں نظر آنے والی صندل خٹک وقار ذکاء کے ٹی وی شو میں دعویٰ کر چکی ہیں کہ ''عمران خان کالا جادو کر کے ہی وزیراعظم بنے ہیں اور وہ ہمارے سردار ہیں'' گویا حکومتی وزیر نے اپوزیشن کی اس بات کی باضابطہ تصدیق کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ملک ِ ”نیاپاکستان“ روحانی قوتوں کے نرغے میں جا چکا ہے اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ قانون ساز اسمبلی سے کسی بل کو پاس کروانے کے لیئے بھی جن بھوتوں کی امداد کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔

اسلام آباد کے شہری جانتے ہیں کہ بنی گالا سے وزیرِ اعظم آفس تک کے تمام راستے میں جا بجا درختوں پر کالی جھنڈیاں کس نے اور کیوں لٹکائی گئی ہیں؟۔ روحانیت میں حد درجہ دلچسپی لینے والے عمران خان تو چند ماہ قبل اسلام آباد میں روحانی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان تو از خود کر چکے ہیں۔ اس لیئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نیا پاکستان اب روحانستان بننے کی جانب گامزن ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مختلف وضائف کے ذریعے انسان اپنے مخصوص مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے گو کہ یہ سارا عمل بہت مشقت والا اور صبر آزما ہوتا ہے لیکن پھر کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ عمل کے رجعت ہو جانے کے نتیجے میں وظیفہ کرنے والا انسان موت کے منہ میں جا پہنچتا ہے۔ ان گنت واقعات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ اس لیئے پوچھنا تھا کہ اگر ایسا ہو کہ ملکِ پاکستان کو تعویزوں کے سہاروں پر چلانے والے حکمران کسی دن چلّہ کشی کے عمل کے دوران رجعت ہو جانے کی صورت میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں تو کیا وہ اس صورت میں ملک کے شہید کہلائیں گے یا غازی؟
دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم ملک کو نجانے جانب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؟،جادو ٹونے اور تعویز گنڈوں سے نظامِ حکومت چلایا جا رہا ہے، تسبیح کو پھیر پھیر کر پھونکیں مار کر تعیناتیاں کی جا رہی ہیں اور تبدیلی کو گھیسٹتے ہوئے لایا جا رہا ہے۔

جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ آج قومی اسمبلی میں جب رانا ثناء اللہ نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اجلاس میں قرآن پاک اٹھایا اور کہا کہ اگر اس کیس میں انصاف نہیں ہوا تو اس دوران حکومتی اراکین خالد مگسی، سائرہ بانو اور ثناء اللہ مستی خیل نے ایوان میں کھڑے ہو کر رانا ثنا اللہ کی حمایت کا اعلان کیا۔
یہاں رانا ثناء اللہ کا حوالہ اس لیئے دینا ضروری سمجھا ہے کہ کسی بھی بے گناہ انسان کے ساتھ اس قدر زیادتی کرتے ہوئے، اس کے خلاف بے انتہاء جھوٹ بولتے اور پر ظلم کرتے ہوئے،اپنے ہاتھوں میں تسبیح کے دانے پھیر پھیر کر قدرت کے سامنے اپنے آپ کو پارسا ثابت کرنے کا انجام بل آخر کار کسی بڑی تباہی کے ساتھ اعمال کی رجعت پر اختتام پذیر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انسان ان گہری پستیوں میں جا گرتا ہے جہاں سے اس کا دوبارہ اٹھنا محال ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔

ایک ایٹمی ریاست کو اپنے مذموم مقاصد کے لیئے جادو نگری بنانے والوں کو تعویزوں،وظائف اور اعمال کی رجعت سے رونماء ہونے والے حالات سے ڈر اور خوف کھانے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :