سابق سالارِ جمہوریت اورحقائق

جمعہ 24 جنوری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

آزاد کشمیر کے سابق صدر المعروف سالارِ جمہوریت سردار سکندر حیات کی پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے سربراہ چوہدری سلطان محمود کے ہمراہ وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کو ناچیز نے تا حال ورطہِ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ یہی خیال بار بار کھائے جا رہا ہے کہ سردار صاحب اپنی عمر کے انتہائی آخری حصے میں بھی کاپنتے جسم اور ہاتھوں سے اقتدار کی ہوس میں کرسی کرسی کی تسبیح پڑھ کر اپنے سیاسی کارکنان، نوجوانوں اور ووٹروں کی کون سی سیاسی تربیت کر رہے ہیں اور انہیں کون سا پیغام دے رہے ہیں حلانکہ وہ تو خود ماضی میں سردار عتیق احمد خان کو موقع پرست ہونے کے طعنے دیتے آئے ہیں۔

کیا ہی بہتر ہوتا کہ سردار صاحب مسلم لیگ ن سے لاتعلقی کا اعلان کرتے، مسلم لیگ ن کے ٹکٹ اورنواز شریف کی تصویر پر الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچنے والے اپنے وزیر بیٹے سے استعفیٰ دلوا کر اس عمران خان سے ملاقات فرماتے جس نے ان کے قائد نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو دبانے،کرش کرنے اور ان سے ذاتی اور سیاسی انتقام لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن سردار صاحب، عمران خان سے ملاقات میں یوں خوش دکھائی دے رہے تھے جیسے ان کی زندگی کی آخری خواہش پوری ہو رہی ہو یا گویا ریاستِ مدینہ کے خلیفہ کا دیدار فرما رہے ہوں۔

(جاری ہے)

۔۔
سابق سالارِ جمہوریت عمر کے اس حصے میں آ کر یقینا بھول بیٹھے ہیں کہ جس عظیم ہستی سے ان کی اسلام آباد کے وزیرِا عظم آفس میں ملاقات ہوئی ہے وہ تو از خود ایوانِ اقتدار میں دو تین ماہ کا مہمان ہے اور دنیا اسے سیاسی لیڈر نہیں ایک مہرے اور کٹھ پتلی کے طور پر جانتی ہے۔ اس بات کی تصدیق تو اب انہیں اقتدار میں لانے والے بھی اب کھلے عام کرتے پھرتے ہیں۔

 
سردار ر سکندر حیات جو اس عظیم ملاقات سے پہلے تک سالارِ جمہوریت کے نام سے جانے جاتے تھے اب انہیں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے سیاسی قبیلے کے فرد کے طور پر دیکھا جائے گا۔ جس کا نہ کوئی سیاسی نظریہ ہے، نہ سیاسی تربیت ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی قبلہ اور جو ہر پانچ سال بعد کسی نئی سیاسی جماعت میں موجود ہوتے ہیں۔ با الفاظ دیگر ان کا سیاسی منشور ہمیشہ سے ہی صرف وزارتِ عظمی کا حصول رہا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

اب یہ سوال کہ جب سردار سکندر حیات نے آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کو خیر آباد کہ کر مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کی سربراہی قبول کی تھی تو اس وقت ان پر اس قدر تنقید کیوں نہیں ہوئی تو عرض ہے کہ مسلم (ن) اور مسلم کانفرنس نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے بے حد قریب ہیں دونوں سیاسی جماعتوں کا کلچر اور ان کے کارکنان کا مزاج بھی ایک دوسرے سے میل کھاتا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنان کا مزاج کیا ہے اس کا اندازہ پی ٹی آئی کے سربراہ بیرسٹر سلطان محمود کا ماضی اور ان کی شخصیت کو دیکھ کر با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔

بالفاظِ دیگر پی ٹی آئی کا اور مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مزاج اور کلچر کا دور دور تک ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس لیے تنقید نہیں بلکہ بھر پور تو بنتی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف آزاد کشمیر کے ڈیڈھ سال بعد ہونے والے عام انتخابات میں اگر معجزانہ طور پر حکومت بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے یا حسبِ سابق وفاق کی طرح اسے آذاد کشمیر میں بھی اقتدار پلیٹ میں سجا کر دے دیا جاتا ہے تو بھی سردار صاحب بوجہ بیماری،کمزوری اور بڑہاپے کے اگر الیکشن جیت بھی جاتے ہیں تو نہ ریاست کے وزیرِ اعظم بن سکیں گے اور نہ ہی صدر۔

ان کے بیٹے فاروق سکندر بھی جو اس وقت وزیر ہیں،زیادہ سے زیادہ موجودہ وزارت سے زیادہ کوئی اور منافع بخش وزارت لے پائیں گے اور ان کے بھائی بھی شائد کسی وزارت سے لطف اندوز ہو سکیں دوسرا یہ کہ اگر تو سردار صاحب یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو صدرِ ریاست بنوائیں گے تو ان کی یہ امید، کم از کم پی ٹی آئی کی حکومت جو اگر غیبی امداد کے ساتھ بن بھی گئی تو اس میں کسی طور بھی پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اس کی بڑی وجہ خود سلطان محمود چوہدری ہوں گے۔

سابق سالارِ جمہوریت سرادر سکندر حیات مسلم لیگ ن کاحصہ ہوتے ہوئے بھی ماضی قریب میں نواز شریف کے خلاف بیانات داغتے رہیں ہیں اور ان پر سخت الفاظ میں تنقید کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود سیاسی حلقوں اور ن لیگ میں بھی ان کے اس عمل پر کبھی بھی کھل کر تنقید نہیں کی گئی شائد اس کی وجہ ان کی سابق وزیرِ اعظم اور صدر آذاد کشمیر سردار عبدلقیوم خان مرحوم سے طویل سیاسی وابستگی، ان کی شاگردی اور خود ان کے والد سردار فتح محمد کریلوی جن کا تحریکِ آذادیِ کشمیر میں نمایاں کردار تھا۔

اسی باعث ہی آزاد کشمیر کے سیاسی حلقوں اور عوام میں انہیں ہمیشہ احترام اور عزت دی گئی لیکن ان کی سلطان محمود چوہدری کے ہمراہ عمران خان سے حالیہ ملاقات یا اس موقع پرستی نے جہاں ان کے سیاسی قدکاٹھ کو بری طرح مجروح کیا ہے اور جس باعث خود ان کے اپنے وقار اور سیاسی قد و قامت میں انتہائی کمی واقع ہوئی ہے وہاں ان بے لوث اور دردمندوں کو بھی شدید مایوسی ہوئی ہے جو آذاد کی واحد بڑی ریاستی جماعت اور ریاستی تشخص کی علامت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو دوبارہ متحد کرنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل تھے۔

میں یہاں تمام ترسیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آذاد کشمیر کے عوام کی خدمت اگر کسی سیاسی جماعت نے کی ہے تو وہ مسلم کانفرنس ہی ہے جس کی قیادت سردار عبدلقیوم خان مرحوم کرتے رہے،ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد مسلم کانفرنس کے ساتھ کیا کھلواڑ ہوا اس پر پھر کبھی اپنی گزارشات پیش کروں گا۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ یہ وقت تو مسلم کانفرنس کو دوبارہ متحد کرنے کا تھا، لیکن دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ مسلم کانفرنس جس کو بے دردی کے ساتھ توڑ کر آزاد کشمیر میں ن لیگ بنائی گئی اور جس کے لیڈران آج حکومت میں رہ کر اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔

اپنے زاتی مفادات کی خاطر آج اپنا سیاسی قبلہ ایک مرتبہ پھر سے تبدیل کرنے کے لیئے پر تول رہے ہیں۔
آزاد کشمیر کی سیاست ایک دوسرے کی رواداری،احترام اور عزت سے عبارت ہے لیکن افسوس ہے کہنا پڑتا ہے کہ اگر جماعت کے بزرگان ہی آخری وقت میں اپنے کاپنتے جسم اور ہاتھوں کے ساتھ زاتی مفادات کے لیئے سیاسی نظریات کی دھجیاں اڑانا شروع کر دیں تو پھر ایک عام سیاسی کارکن کو پورا پورا حق پہنچتا ہے کہ وہ ایسے تمام حجاب بالائے طاق رکھ دے۔

عالمی سیاسی تناظر میں بھی اگر دیکھا جائے تو سیاسی نظریئے سے ہٹ کر اس وقت آزاد کشمیر میں ریاستی تشخص کی علامت کسی سیاسی جماعت کی اشد بلکہ بے حد ضرورت ہے،اب اگر ریاستِ آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس ہی ایک بڑی،منظم اور سیاسی تربیت یافتہ کارکنوں سے لیس علاقائی سیاسی جماعت دستیاب ہے تو اس کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی اور سیاسی جماعت موجود ہے تو بھی وہ بھر پور انداز سے سامنے آئے۔

ناچیز کے خیال میں تحریکِ آزادی کشمیر کی اس سے بڑی خدمت اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ خطہ کے عوام کی اپنی سیاسی جماعت حکومتی ایوانوں میں کشمیریوں کی نمائندگی کرے، خواہ وہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو۔ یہ اطلاعات بھی خوش آئند ہیں کہ مسلم کانفرنس کو مضبوط اور دوبارہ متحد کرنے کی کوشیں جاری ہیں۔ آزاد کشمیر کے وزیرِا عظم راجہ فاروق حیدر اور سابق وزیرِا عظم سردار عتیق احمد دونوں صاحبان سردار عبدلقیوم خان مرحوم کے تربیت یافتہ سیاسی کارکن ہیں اور پاور پالیٹکس بھی انجوائے کر چکے ہیں۔

اس کے بعداگر وہ اپنے آپ کو آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ میں اچھے الفاظ سے یاد کروانے کے خواہشمند ہیں تو خلوصِ نیت کے ساتھ مسلم کانفرنس کو دوبارہ متحد کرنے کے کوششیں کریں،وگرنہ سیاسی طور پر تو اب سابق سالارِ جمہوریت سکندر حیات بھی زندوں میں شمار کیئے جاتے ہیں۔ انہیں بھی ایسے ہی یاد کیا جائے گا۔
دونوں مذکورہ سیاسی لیڈران یاد رکھیں کہ مسلم لیگ آزاد کشمیر کا ووٹر دراصل مسلم کانفرنس ہی کا ووٹر رہا ہے۔

لہذا مسلم لیگ کو مسلم کانفرنسی ووٹ ملنے میں راجہ فاروق حیدر کا اپنا کوئی کمال نہیں کیونکہ ووٹر کے پاس اس وقت کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ اب اگر پی ٹی آئی کی صورت میں کوئی تیسرا آپشن دستیاب کر دیا گیا ہے تو اس کا توڑ یا مقابلہ کرنے کے لیئے واحد حل مسلم کانفرنس کو مضبوط کرنا ہی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ راجہ فاروق حیدر خود بھی سیاسی طور پر مسلم کانفرنس کے ہی تربیت یافتہ ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں ن لیگ کی جڑیں کس قدر گہری ہیں،اس لیئے انہیں اور سردار عبدلقیوم خان مرحوم کے دیگر سیاسی شاگردوں کو دیگر بھی زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں آئندہ عام انتخابات سے قبل سیاسی سجدہ سہو کر کے دوبارہ واپس اپنی اسی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس میں آ جانا چاہیئے جس کی گود میں بیٹھ کر انہوں نے سیاست سیکھی اور اسی طفیل آج وہ حکومتی ایوانوں میں بھی بیٹھے ہیں۔

ڈیڈھ سال بعد آزاد کشمیر میں لگنے والے سیاسی اکھاڑے میں سرخرو ہونے کے لیئے آل جموں کشمیر کو دوبارہ متحد کرنے میں ہی سردار عبدلقیوم خان مرحوم کے سیاسی شاگردوں کی سیاسی بقاء ہے۔ آزاد کشمیر کی سیاسی منظر نامہ کے یہی زمینی حقائق ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :