چوری اور سینہ زوری

پیر 27 جنوری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

جو صادق اور امین صاحب کنٹینر پر آئے رو ز یہ بھاشن دیا کرتے تھے کہ جب میں وزیراعظم بنوں گا تو سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیئے پیش کرونگا،انہوں نے پانچ سال سے چلنے والے غیر ملکی فنڈنگ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ قوم کو سمجھ جانا چاہیئے کہ کیوں کل ہی اخباروں اور ٹی وی سکرینوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

اس لیئے کہ چونکہ دال میں کچھ کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے تا کہ قوم ان نام نہاد صادق اور امینوں کے کرتوتوں سے لاعلم رہے۔
اسٹیٹ بینک سے بر آمد ہونے والے پی ٹی آئی کے سولہ خفیہ اکاونٹ از خود ایسا ثبوت ہیں جسے کوئی بھی عدالت جھٹلا نہیں سکتی۔ یہی نہیں اس ضمن میں اکبر ایس بابر اس کے علاوہ بھی ایسے ناقابلِ تردید ثبوت اپنے پاس رکھتے ہیں جنہیں بعد میں منظرِ عام پر لایا جائے گا، شائد یہی وجہ ہے کہ انہیں آئے روز ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور ان پر مذکورہ کیس سے پیچھے ہٹنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

 درخواست میں یہ ''موقف'' اختیار کرنا کہ اکبر ایس بابر کا دو ہزار گیارہ سے تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں، وہ کیس میں متاثرہ فریق نہیں اس لیئے الیکشن کمیشن کو کیس سننے کا اختیار نہیں،خود اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ صادق اور امینوں کے گروہ کے ہاتھ مکمل طریقے سے فارن فنڈنگ کیس میں رنگے ہیں اور اسی باعث جن پارساوں اور پرہیزگاروں کیخلاف اربوں کی کرپشن کا یہ کیس ہے وہی اکبر ایس بابر کو سنگین دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔

سادہ سا سوال ہے کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کا رکن ہے یا نہیں،آخر تلاشی دینے میں حرج کیا ہے؟
پاکستان کو نیو مدینہ کے دعوے داروں کی کرپشن سے متعلق حقیقتِ حال یہ ہے کہ پہلے مالم جبہ کیس، پشاور بی آر ٹی اور بلین ٹری کیس پر سٹے لے لیا اور اب فارن فنڈنگ کیس کو اس امید پر سپریم کورٹ میں چیلینج کیا گیا کہ شائد وہاں سے ریلیف ملنے کی صورت میں نا اہلی سے بچا جا سکے۔

جب چوری نہیں کی تو پھر یوں تلاشی دینے سے بھاگنا صاف طور پر ثابت کر رہا ہے کہ نیازی سرکار کی رخصتی میں فارن فنڈنگ کیس بنیادی کردار ادا کرے گا۔
ابھی بھی چور چور کی گردان کے شور میں جو لوٹ مار کا بازار گرم ہے اس کے حقائق جب کچھ عرصہ بعد منظرِ عام پر آئیں گے توامیدِ قوی ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو صادق اور امین قرار دینے والے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی اپنے فیصلے پر نہ صرف شرمندہ ہوں گے بلکہ قوم کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے کہ ان کی پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک یہ بھی وہ بڑا فیصلہ تھا جس کے دھبے سالوں تک سپریم کورٹ کے ماتھے سے صاف نہیں ہو سکیں گے۔

اگر سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس سنگِ مرر سے مزین اپنی عمارت پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے لگائے گئے اس بدنما داغ کو دھونا چاہتے ہیں تو قدرت نے انہیں بہترین موقع فراہم کیا ہے، کیونکہ چوروں نے اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو خود ان کی عدالت میں چیلنج کر کے اپنے آپ کو ان کی سپریم کورٹ کے حوالے کر دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :