شبّر زیدی کو آرام کا مشورہ

ہفتہ 1 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

وہی ہوا جس کی پیشن گوئی اپنے گزشتہ ایک مضمون میں کی تھی۔ ڈاکٹروں نے چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی کو گھر جا کر ”آرام“ کا مشورہ دیا ہے۔ گو کہ اس سے قبل بھی زیدی صاحب کام کی زیادتی کے باعث بے حال ہو کر گھر سدھار گئے تھے لیکن سرکاری گاڑیاں،دفتر،عملہ اور دیگر مراعات کی چمک اور کشش انہیں چند ہی دنوں میں واپس اپنے دفتر کھینچ لائی لیکن اس مرتبہ ڈاکٹروں کی جانب سے انہیں طبی بنیادوں پر گھر جا کر آرام کرنے کا سخت مشورہ دیا گیا ہے اور وہ بھی طویل رخصت پر یعنی ان کی ایف بی آر میں واپسی کی امید کوئی خاص نہیں۔

 
یہاں یہ واضع رہے کہ چند ہی روز قبل وزیراعظم کے مشیربرائے مالیات ڈاکٹرحفیظ نے چیئرمین ایف بی آر کو کہا تھا کہ ناقص کارکردگی والے افسران کو گھر بھیجا جائے،لگتا ہے ناقص کارکردگی والے افسران کی فہرست میں زیدی صاحب نے خود کو بھی شامل کروا لیا تھا۔

(جاری ہے)

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ڈاکٹرحفیظ شیخ کی تقرری براہِ راست آئی ایم ایف کی انڈر سٹینڈنگ سے عمل میں لائی گئی ہے جبکہ شبرزیدی کو آئی ایم ایف کی جانب سے نامزد ہونے کا شرفِ خاص حاصل نہیں تھا اس لیئے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آئندہ مقرر ہونے والا چیئرمین ایف بی آر،آئی ایم ایف کے نمائندے ڈاکٹرحفیظ شیخ کا منظورِ نظر ہو گا۔

 زیدی صاحب کی صرف ایک یہی ناقص کارکردگی نہیں تھی کہ ان کا محکمہ مالی سال2019;20 کی پہلی ششماہی میں محصولات جمع کرنے کا ہدف 2.637 کھرب روپے حاصل نہیں کرسکا بلکہ ان کی موجودگی میں ایف بی آر کی بنائی گئی پالیسیوں کے باعث ملک کا تاجر طبقہ چکرا کر رہ گیا، بلخصوص چھوٹا تاجر طبقہ تو ایف بی آر کے خوف کا شکار ہو کر رہ گیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ تاجر اپنے تحفظات لے کر آرمی چیف کے پاس پہنچ گئے لیکن زیدی صاحب پھر بھی سب اچھا کا راگ الاپتے رہے۔

 
زیدی صاحب کے کارناموں میں ایک کارنامہ بینک کھاتہ داروں کو کسی بھی وقت منی ٹریل مہیا کرنے کا پابند کرنا بھی تھا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بینک صارفین نے اپنے اکاونٹ ہی بند کروا دیئے،یوں زیدی صاحب کے لیئے نہ بانس رہا نہ بانسری۔ کیونکہ جنا بِ زیدی صاحب نے اپنی ہی حکومت کی بیمار کی ہوئی اور بسترِ مرگ پر پڑی معیشت کو ایک ماہ کی دوائی ایک رات میں کھلا کر تندست کرنے کا پلان بنا رکھا تھا۔

میرے دو دوست بینکرز ہیں اس ضمن میں جب میں نے ان منی ٹریل کے مذکورہ قانون کے حوالے سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کی ان کی برانچوں میں زیدی صاحب کے اس”دانشمندانہ“ فیصلے کے نتیجے میں تیس فیصد بینک اکاونٹ بند ہو گئے،شائد کہ یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہو کیونکہ مذکورہ پالیسی ابھی بھی جاری ہے۔ 
تنخواہ دار طبقہ تو بوجہ تنخواہ بینک اکانٹ رکھنے میں مجبور ہے لیکن چھوٹے دکان دار اور کاروباری حضرات نے اس دن کے بعد سے چیک یا پے آڈر کے بجائے لین دین نقد یا کیش میں شروع کر دیا جو آج بھی تمام منڈیوں اور ہول سیل مارکیٹوں میں جاری ہے۔

کیونکہ کسی کاروباری کا دماغ نہیں خراب کہ منی ٹریل دکھانے کی خواہ مواہ کی ٹیشن یا خوف اپنے گلے میں لٹکاتا پھرے۔ 
جب مذکورہ قانون لاگو کیا گیا تھا تو خاکسار نے تفصیل سے اس حوالے سے عوامی تحفظات گوش گزار کیئے تھے،جس کے جواب میں ایف بی آر ہی کے ایک عہدیدار نے راقم کی تحریر سے اتفاق کیا تھا۔ موصوف کا دوسرا کارنامہ چھاپڑی فروشوں کو ایف بی آر کی جانب سے نوٹس بھیجنا تھا اپنی ایفیشنسی دکھانے کے چکر میں اس محاذ پر بھی اور تو کوئی کامیابی ہاتھ نہ آئی البتہ اپنے بچوں کے لیئے غریب اور حلال کمانے والے محنت کشوں کی بد دعائیں خوب لوٹیں۔

 
تیسرا کارنامہ یہ سر انجام دیا کہ بیرونِ ملک سے سرمایہ بھیجنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کی رقوم کر کٹوتیاں کرنے اور انہیں مختلف انڈر ٹیکنگ فارم بھرنے پر لگا دیا، اس کارنامے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اوورسیز پاکستانیوں نے اپنے اکاونٹ فارن بینکوں میں کھلوا لیئے جہاں فارن کرنسی میں لین دین ہوتا ہے اور ان بینکوں میں مذکورہ قانون نافذ العمل نہیں۔

مری ہوئی یا تباہ حال معیشت کو اٹھانے کا ایک بنیادی اور عام فہم اصول یہ بھی ہے کہ تاجر طبقے کو آسانیاں فراہم کی جائیں اور انہیں حد درجہ سہولیات مہیا کی جائیں تا کہ پیسہ قومی دھارے میں رواں ہو اور معیشت کے پھلنے پھولنے پر تاجروں سے ٹیکس وصولیاں کی جائیں اور ٹیکس نیٹ میں نئے تاجروں کو لایا جائے۔ 
دنیا کی تمام مضبوط معیشتیں اسی بنیادی اور عام فہم اصول کو اپنا کر آج نمایاں مقام پر کھڑی ہیں۔

جس ملک کا جی ڈی پی دو اشاریہ دو پر پہنچا ہو،بے روزگاری، مہنگائی اپنے عروج پر ہو اور آدھی سے زیادہ آبادی پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ کھا سکتی ہووہاں راتوں رات بنائے گئے مذکورہ اقدامت اور قوانین نہ صرف معیشت کے لیئے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں بلکہ معیشت چلنے کے امکانات کو بھی ختم کر کے رکھ دیتے ہیں۔ لیکن چونکہ آئی ایم ایف کو اپنے دیئے ہوئے قرضے کی قسط سے مطلب ہے اس لیئے انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ تاجروں کے کاروبار بند ہو رہے ہیں یا لوگ بے روزگاری یا بھوک سے خود کشیاں کر رہے ہیں؟
شبر زیدی غالباً عوام اور ان کے نمائندوں کا پریشر برداشت نہ کر سکے اور اس باعث آئی ایم ایف کی خدمت اس طریقے سے نہ کر پائے جس کا انہیں ہدف دیا گیا تھا۔

اب دیکھنا ہے پاکستان کے عوام کو نچوڑنے کا ہدف احسن طریقے سے کون سا نیا آنے والا ایف بی آر کا چیئرمین پورا کرتا ہے جو آئی ایم ایف کا منظورِ نظر بھی ہو گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :