دو مسیحاؤں کا ذِکر

ہفتہ 21 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

پاکستان میں حاملہ خواتین کے نوزائیدہ بچے آپریشن یعنی ''سی سیکشن'' کر کے نکالنے کے حوالے سے ایک رپورٹ نظر سے گزری جس کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ آیا ہم انسانوں کے کسی معاشرے میں رہ رہے ہیں یا افریقہ کے کسی جنگل میں؟
دنیا بھر میں ستّر فیصد سے زائد نوزائیدہ بچے قدرتی طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سی سیکشن سے بچوں کی پیدائش کی شرح بیس سے پچیس فیصد ہے۔

بھارت میں یہ شرح صرف ستائیس فیصد ہے جبکہ حیران کن طور پر افغانستان میں سی سیکشن سے بچوں کی پیدائش نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ملکِ پاکستان میں ''ساٹھ فیصد'' سے زائد بچوں کی پیدائش عورتوں کے پیٹ کاٹ کر یعنی آپریشن کر کے ہو رہی ہے اور عورتوں کو اپنے پیٹ کٹوا کر پچے نکلوانے کے مشورے بھی مسیحا لیڈی ڈاکٹرز ہی دے رہی ہیں۔

(جاری ہے)

 

یقینا اس غیر فطری اور بعد میں پیچیدگیاں پیدا کرنے والے عمل کے پیچھے صرف پیسے کی حوص اور لالچ ہی کارفرما ہے۔

پاکستان کے طبّی میدان میں مذکورہ انسانیت کش لیڈی ڈاکٹرز اکیلی ہی مصروفِ عمل نہیں بلکہ مرد ڈاکٹرز بھی ان کے شانہ بشانہ ڈاکڑی جیسے مقدس پیشے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مال بنانے میں اتنے مصروف ہیں کہ انسانیت بھی شرما اٹھی ہے۔ جہاں دکھی اور بیمار انسانیت کی خدمت کرنے والے ڈاکٹر صاحبان موجود ہیں تو وہاں قوم کے سرمایہ پر بننے والے ڈاکٹروں کے روپ میں ڈاکو بھی کم نہیں۔

 
یہاں راولپنڈی شہر کے دو ایسے ہی ڈاکٹر صاحبان کا ذکر کروں گا جو عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر بھی دکھی اور بیمار انسانیت کو علاج کے نام پر لوٹنے سے باز نہیں،ان کا نام یہاں نہیں لوں گا۔ دونوں مسیحا اپنے اپنے شعبوں میں پروفیسر ہیں اور دیکھنے میں صفِ اول کے پرہیز گار اور پارساء بھی، ان میں سے ایک ڈاکٹر صاحب ماہرِ امراض و جگر و معدہ ہیں پہلے زرا ان کی انسان دوستی اور اپنے پیشے سے سلوک کا ایک تصدیق شدہ واقع ملاحظہ فرمایئے جو میرے ایک قریبی دوست کی زبانی مجھ تک پہنچا۔

 
میرے دوست راولپنڈی کے ایک جیولر ہیں اورماشا اللہ خوشحال ہیں۔ جگر کی گرمی کی شکایت کے ساتھ مذکورہ ڈاکٹر صاحب کے کلینک پہنچے ڈاکٹر صاحب نے باتوں باتوں میں کاروبار اور رہائش کی جگہ کا دریافت کیا اور مالی حالت کا اندازہ لگا لینے کے بعد انہیں چند ٹیسٹ اپنے کلینک میں ہی قائم لیبارٹری سے کروانے کو کہا۔ جن کا نتیجہ آنے کے بعد دوست کو بتایا گیا کہ اسے ہیپاٹائٹس سی یعنی کالا یرقان کا شکار ہو چکا ہے۔

صورتِ حال دوست پر بجلی بن کر گری لیکن ڈاکٹر صاحب نے تسلی دی کہ امپورٹڈ ادوایات کے چھ ماہ کے کورس کے بعد ہیپاٹائٹس سی نیگیٹیو ہو جائے گا۔ قصہ مختصر کہ ڈاکٹر صاحب کو دوسرے روز تین لاکھ روپے پیشگی ادا کر کے علاج شروع کر دیا گیا۔ 
تقریباً ایک ہفتہ بعد جیولر دوست کی ایک خاتون گاہک جو ڈاکٹر بھی تھیں بیٹی کی شادی کے سلسلے میں زیورات خریدنے دکان پر آئیں لیکن دوست کو پہلے کی طرح ہنسا بولتا نہ دیکھ کراوراس کا پریشان زدہ اور مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر وجہ پوچھی،جس پر انہیں سارا ماجرا سنا دیا گیا۔

ڈاکٹر صاحبہ نے وہیں بیٹھے اپنے اسسٹنٹ کو فون کیا جس نے آ کر دکان پر ہی دوست کے خون کا نمونہ لیا۔ اگلے دن ڈاکٹر صاحبہ نے فون پر دوست کو آگاہ کیا کہ اسے کسی قسم کا بھی کالا یرقان یا ہیپاٹائٹس سی نہیں اور مشورہ دیا کہ کسی اور لیبارٹری سے بھی کاونٹر ٹیسٹ کروا لیا جائے۔ چناچہ اسلام آباد کی ایک مشہور لیبارٹری سے بھی ٹیسٹ کروا لیا گیا جس کی رپورٹ بھی منفی یعنی نیگیٹیو آئی۔

یعنی پہلے سے بتائی گئی بیماری کا کوئی وجود نہیں تھا۔ 
اب جیولر دوست، ڈاکٹر صاحب کی اور اپنی جانب سے کروائی گئی رپورٹیں لے کر ایک وکیل دوست کے پاس پہنچا تا کہ قانونی کارروائی کی جا سکے چناچہ دس کروڑ ہرجانے کا دعوی تیار کیا گیا جو دوسرے دن ڈاکٹر صاحب کی میز پر تھا۔ ڈاکٹر صاحب ڈاکو ہونے کے ساتھ ساتھ شائد عقلمند بھی تھے اس لیئے نقد دو کروڑ روپے دوست کو دے کر اپنی جان چھڑوا لی۔

 
اب دوسرا واقع ملاحظہ فرمایئے،یہ ڈاکٹر صاحب نیورو سرجن ہیں جن کے پاس کپڑے کا ایک تاجر اکثر سر میں درد رہنے کی شکایت لے کر گیا جس پر اسے برین ٹیومر کا بتایا گیا اور فوری طور پر آپریشن کروانے کا مشورہ دیا گیا اور خرچہ مبلغ پانچ لاکھ روپیہ۔ چناچہ آپریشن کی تاریخ طے ہوئی،پیسے جمع کروائے گئے، دماغ کا آپریشن ہوا اور ہفتہ بھر بعد تاجر کو ہسپتال سے ڈسچارج کر کے گھر بھیج دیا گیا۔

کوئی پندرہ روز بعد مال کی خریداری کے سلسلے میں تاجر کو لاہور آنا پڑا یہاں اسے دوبارہ سر میں تکلیف محسوس ہوئی جس پر انہوں نے کسی دوست کے مشورہ پر ایک اچھی شہرت کے حامل معروف نیوسرجن سے رابطہ کیا۔ سی ٹی اسکین کرنے پر انکشاف ہوا کہ برین ٹیومر تو موجود ہے اور کسی قسم کا آپریشن نہیں کیا گیا البتہ سر کی جلد میں محض ایک کٹ لگا کر آٹھ دس ٹانکے لگا دیئے گئے تھے۔

 
خیر دوبارہ اصلی آپریشن ہوا اور کافی بڑھا ہوا ٹیومر نکال لیا گیا جس کی تاجر کو بعد میں بنائی گئی ویڈیو بھی دکھائی گئی۔ قصہ مختصر کہ تاجر نے مذکورہ ڈاکٹر سے تمام کاغذات پر تصدیق لی اور واپس راولپنڈی جا کر پرانے والے نیورو سرجن کے پاس پہنچے اور ساری حقیقت بیان کی۔ یہ پروفیسر صاحب بھی ڈاکو ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھ دار بھی تھے لہذا وقت ضائع کرنے اور کسی قانونی پیچیدگی میں پڑنے کے بجائے مطالبہ پوچھا۔

سودا دو کروڑ روپے میں فائنل ہوا۔
 مذکورہ دونوں واقعات کا حاصل یہ ہے کہ کسی بھی بیماری کی تشخیص ہونے کے بعد علاج شروع کرنے سے پہلے ''احتیاطً کاونٹر'' چیک ضرور کر لینا چاہیئے خاص طور پر لیبارٹری ٹیسٹوں کو کسی دوسری جگہ سے ایک مرتبہ دوبارہ کروا کر تسلی کر لینی چاہیئے اور کوشش کرنی چاہیئے کہ علاج کے لیئے تجویز کی گئی دوا بھی ڈاکٹرز کی اپنی فارمیسی کے بجائے خود کسی اچھے میڈیکل اسٹور سے خرید لی جائے۔

 
آخر میں کرونا وائرس کے حوالے سے عرض ہے کہ اس ضمن میں بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، اس موذی وائرس سے بچاؤ کے لیئے صرف ''عالمی ادارہِ صحت'' کی بتائی ہوئی حفاظتی تدبیرات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جو بار بار میڈیا پر بتائی جا رہی ہیں۔ نہ کہ اس کرونا وائرس سے بچنے کے لیئے سوشل میڈیا پر وائرل بابوں کے بتائے ہوئے نسخے مثلاً کبوتر کے پوٹے کی جھلی کو پانی میں ملا کر پینے، انٹرنیٹ کا استعمال ترک کرنے اور دیگر ٹوٹکوں میں الجھ کر اپنے آپ کو موت سے اور زیادہ قریب کر لیں۔ سلامت رہیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :