انکل سام کا راج

جمعہ 27 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

غلامی کا یہ عالم ہے کہ ملک کی خارجہ، دفاعی اور دیگر پالیسیاں تو ایک طرف، جان بچانے والی ادوایات سے لے کر تعلیمی نصاب اور ٹیکنالوجی تک ہم سامراج کے محتاج ہیں جو ہماری محنت اور خون پسینے کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے نچوڑ رہا ہے۔ ملک میں جان بچانے والی ادوایات بنانے کے لیئے اوّل تو لائسنس ہی نہیں دیا جاتا اور اگر اجازت ملتی بھی تو ملٹی نیشنل کمپنی کے اشراک سے بنانے کی اجازت، تا کہ منافع باہر یعنی سامراج تک پہنچ سکے۔

 میرے ایک دوست جو میڈیکل مشینری کے کاروبار سے منسلک ہیں، انہوں نے کچھ عرصہ قبل از خود کوشش کر کے بایو کیمسٹری کی مشین (اینالائزر) بنا ڈالی جس کے ذریعے خون کے مختلف مخصوص ٹیسٹ کیئے جاتے ہیں، اور اس مشین پر کل لاگت صرف پینتیس ہزار روپے آئی جبکہ امپورٹڈ مشین کی قیمت تین لاکھ روپے سے زائد ہے۔

(جاری ہے)

ظاہر ہے جہاں میرے دوست کے لیئے یہ ایک بہت بڑی کاوش تھی وہاں ملک کا زرِ مبادلہ بچانے اور مذکورہ مشین یا ٹیکنالوجی کے حوالے سے ملک کے خود کفیل ہو جانے کی بھی ایک بڑی خبر تھی سو یہ خبر میڈیکل مشینری بنانے والے عالمی حلقوں میں آگ کی طرح پھیل گئی جہاں پہلے سے بایو کیمسٹری مشین بنانے کی ٹیکنالوجی موجود تھی۔

لیکن ہمیں زیادہ پرجوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کامیاب تجربے کے کچھ ہی دنوں بعد میرے دوست کو اپنے گھر میں ایک خط موصول ہوا جو کسی گمنام کی جانب سے تھا۔ 
خط میں دوست کو مذکورہ میڈ ان پاکستان ٹیکنالوجی سے دور رہنے اور آئندہ اس حوالے سے مذید کسی کوشش یا پیش رفت کرنے سے سختی سے منع کیا گیا تھا،خط میں دوست کو اپنی من مانی کرنے پر سنگین ترین نتائج کی دھمکی دی گئی تھی اور اس کے خاندان یعنی بیوی بچوں اور والدین کے نام،عمریں اور گھر کا اندرونی نقشہ تک بتایا گیا تھا۔

کچھ دن بعد اسی نوعیت کی ایک فون کال بھی دوست کو آئی جس میں گمنام کالر کی جانب سے خط سے ملتے جلتے مندرجات بیان کیئے گئے۔ بہرحال دوست نے اپنی بنائی ہوئی مشین ایک جگہ عطیہ کر دی اور اپنی ٹیکنالوجی اور مشین کی مینو فیکچرنگ سے متعلق منصوبہ بندی موخر کر دی۔
 اس نوعیت کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ دوسری جانب اساتذہ کرام بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ملک کے اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے کورسز اور نصاب کہاں سے تیار اور چھپ کر آتے ہیں؟ اور محض سال یا ڈیڈھ سال کے بیچلر کورس کو صرف کمائی کے لیئے چار سالوں پر محیط کر دیا جاتا ہے۔

مذکورہ مثالیں پاکستان میں موجود عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں کی ایک ہلکی سی جھلک ہیں جس میں یہ قوم جکڑی ہوئی ہے اور جو بھی قوم کو سامراج کی پڑی زنجیریں توڑنے کی کوشش کرتا ہے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے یا اس کی آواز کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سامراج کی سازششوں اور ہتھکنڈوں کے حوالے سے میں اپنے ایک سابقہ کالم ”عالمی سامراج کی چیرہ دستیاں“ میں گزارشات تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔

 
ملک میں جاری کرونا وائیرس کی آفت میں بھی آج ہم سامراج کے ہی محتاج ہیں، اپنی جانیں بچانے کے لیئے معمولی سے ماسک لے کر وینٹی لیٹر کی سہولت تک ہم بیرونی ممالک کے محتاج ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے کیونکہ ہماری محتاجی،غربت اور افلاس میں ہی سامراج کی بقاء اور طاقت پنہاں ہے۔ جسے انکل سام کبھی کم نہیں ہونے دے گا۔ با الفاطِ دیگر پاکستان یا اس جیسے دیگر ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے ممالک سامراجی طاقتوں کے لیئے ایک ایسے ایندھن کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے ان کی گاڑی چلتی ہے۔

 یاد رکھیئے ہم ملک میں جو بھی حکومتی نظام چلا لیں مثلاً پارلیمانی،صدارتی یا حتیٰ کے مارشل لاء یا ڈیکٹیٹر شپ تک یا ملک میں کوئی کسی بھی نظریئے کی حامی سیاسی جماعت اقتدار میں آ جائے لیکن ہمارا وہ نظام عالمی سامراجی نظام کے زیر سایہ یا ماتحت ہی رہے گا۔ گویاجب تک ہم عالمی سامراج کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوں گے اس قوم کے اصل مسائل جوں کے توں رہیں گے جن میں شخصی آزادی اور ملک کی چلانے والوں کی آزاد پالیسیاں سرِ فہرست ہیں۔

 
ملکِ خداداد کے عالمی سامراج کے چنگل میں باضابطہ چلے جانے کا آغاز ملک کے عالمی سامراج کے نمائندوں سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل فرانک اور جنرل گریسی کے دور میں شروع ہوا۔ ان کے جانے کے بعد پاکستان میں موجود سامراج کے دیگر ایجنٹوں نے سامنے آ کر یا پسِ پردہ رہ کر اپنی اپنی باری پر اپنی”قومی ذمہ داریاں“ سرانجام دیں۔ سامراج کی ایجنٹی کرنے کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔

 یہ سلسلہ اس وقت ہی ختم ہو گا جب اس ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجاراداری ختم ہو گی،گورنر اسٹیٹ بینک اور مشیرِ خزانہ آئی ایم ایف کے نمائندے نہیں ہوں گے اور ملک کے حساس اداروں کے سربراہان کا تقرر سامراج کی مرضی سے نہیں ہو گا اور جب پاکستان کے ہنر مند خود میڈ ان پاکستان ٹیکنالوجی کو ملک میں متعارف کروائیں گے اور ہ میں جان بچانے والی ادوایات خود بنانے کی اجازت ہو گی۔

دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے بعد ایک مرتبہ پھر سے سابق وزیرِا عظم نواز شریف کی قیادت میں ملک میں سامراجی غلامی سے آزاد ہونے کی کوششیں شروع ہوئیں، پاکستان خود کفالت کی جانب تیزی سے گامزن ہونا شروع ہوا اور عوامی بالا دستی کی خواہشات اور کوششیں ملک کے گلی کوچوں سے لے کر پارلیمنٹ تک محسوس کی جانے لگیں، علاقائی سیاست کا فروغ پانا شروع ہوا،خطہ کے ممالک آپس میں مضبوط اور ان کے آپس کے باہمی تنازعات بھی ختم ہونا شروع ہوئے، جس کے باعث انکل سام کے پاکستان میں راج، اس کے اسلحہ کے کاروبار اور دیگر مفادات کو ایک مرتبہ پھر سے خطرات لاحق ہو گئے لہذا پانامہ اور اقامہ کے نام پر نواز شریف کو ملکی خودمختاری اور سامراج کی غلامی سے آزادی کی کوششیں کرنے کی پاداش میں تیسری مرتبہ اقتدار سے بے دخل کیا گیا اور ملک میں سامراج کے ایجنٹوں کے ذریعے ”کرپشن کے خاتمے“ اور ”تبدیلی“ کے نام پر منصوبہ بندی کے ساتھ”نیا پاکستان“ کے نام پر واردات ڈال دی گئی۔

 
 سامراج کے مفادات کی تکمیل کا جو کھیل شروع ہوا وہ ابھی تک جاری ہے اور اس کے نتائج بھی سب کے سامنے عیاں لیکن ملک کو درپیش صورتِ حال پر ریاست کے مقتدر حلقوں میں خاموشی طاری ہے، شائد کہ ملک میں انکل سام کا راج ہے اس لیئے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :