حکومت اور اپوزیشن کا غیر اعلانیہ معاہدہ

جمعہ 14 اگست 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگی لیڈران دعوے کرتے پھر رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کا جانا اب ٹہر گیا ہے اور حکومت چھہ ماہ کی مہمان ہے ۔ دو ہزار اٹھارہ کے پہلے سے فکس شدہ انتخابی نتاءج سامنے آنے کے فوری بعد ہی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مذکورہ دونوں سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتاءج کو مسترد کر کے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا لیکن ملک میں جمہوریت اور جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے رومانس اور اداروں کے عشق میں مبتلا ن لیگ اور پی پی پی کے قائدین نے مولانا کے مشورے پر کان نہیں دھرے اور حلف اٹھا کر اسمبلیوں میں بیٹھ کر گویا دو ہزار اٹھارہ کے ثابت دھاندلی زدہ الیکشن کے انتخابی نتاءج کو قبول اور ایک ’’غیر اعلانیہ معاہدہ‘‘ کر کے ملک کے بائیس کروڑ عوام کو ایک جعلی اور ناجائز حکومت کے رحم اور کرم پر چھوڑ دیا ۔

(جاری ہے)


جی ہاں وہی ’’غیر اعلانیہ معاہدہ‘‘ جو اپوزیشن نے موجودہ جعلی اور کٹھ پتلی حکومت کے وجود میں آتے ہی اس کے ساتھ کر دیا تھا اور اس ’’غیر اعلانیہ معاہدے‘‘ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سرِفہرست تھے ۔ اس’’ معاہدے‘‘ کا پول بھی اس وقت کھل گیا تھا جب مولانا فضل الرحمان نے اس حکومت کے آتے ہی تمام اپوزیشن جماعتوں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفے دینے کا مشورہ دیا تھا لیکن اس مشورے پر عمل در آمد نہیں کیا گیا ، حلانکہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس وقت بدترین انتخابی دھاندلی کا شور اٹھایا تھا اور اپوزیشن کے اس موقف میں حقیقت تھی جسے عالمی حلقوں نے بھی تسلیم کیا تھا ۔

یہ غیر اعلانیہ معاہدہ اس و قت مذید آشکارا ہوا جب پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن اور پھر صدارتی انتخاب میں واک آوٹ کر کے حکومت کے لیئے آسانی پیدا کی اوریوں کھل کر اپنا’’موقف‘‘ جیالوں کے آگے بیان کر دیا ۔ دوسری جانب ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کی داعی مسلم لیگ ن نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے میں سامنے آ کر سرنڈر کر کے اس بات کو ثابت کیا کہ حکومتِ عمرانیہ کے سامنے رکاوٹوں مشکلات کا اتنا بھی پہاڑ کھڑا نہیں کرنا چاہیئے کہ حکومت ہی دانوں ڈول ہو جائے ۔


اس امر کی ایک اور بڑی مثال مولانا فضل الرحمان کا دھرنہ بھی تھا جس میں وعدے کے باوجود پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی عدم شرکت نے واضع کر دیا کہ یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے غیر اعلانیہ معاہدے کی پابند ہیں ،جس باعث ان کے ہاتھ بندے ہیں ۔ آرمی ایکٹ ترمیم اور مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں نواز شریف کی واضع ہدایات کے باوجود اگر دستیا ب قیات نے اپنے کان نہیں دھرے تو آج اس کا نتیجہ بھی نیب کے مقدمات اور حکومتی انتقامی کاروائیوں کی صورت میں ان کے سامنے ہے ۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کی جانب سے چیئر مین سینیٹ اور صدارتی الیکشن میں حکومتِ عمرانیہ کا ساتھ دینے کا تعلق ہے تو واقفِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ اس کے پسِ پردہ کیا کہانی کارفرما تھی ۔ اگر آج سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم و دائم ہے اور زرداری صاحب جیل سے باہر بیٹے ہیں تو اداروں سے محبت اور کا ’’ساتھ دینے‘‘ کے طفیل بیٹھے ہیں ۔
گذرا وقت ابھی تک اپوزیشن کو ملک کا سیاسی منظر نامہ بدلنے کے دو بڑے مواقع فراہم کر چکا ہے ۔

ایک حکومت کے ابتدائی دنوں میں اجتماعی استعفے دینے اور دوسر موقع مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں بھر پور طریقے سے شمولیت اختیار کرنے کا تھا ۔ انہی دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین اگر منافقت کرنے کے بجائے ان دونوں میں سے اگر ایک موقع پر بھی بروقت فیصلہ کر لیتے تو یقینا آج پاکستان کا سیاسی منظر نامہ مختلف ہوتا اور لوگ سکھ کا سانس لے رہے ہوتے ۔

یہاں یہ بات اچھی طرح واضع رہے کہ مذکورہ’’ غیر اعلانیہ معاہدے‘‘ میں نواز شریف کسی طور شامل نہیں تھے ۔ وہ اگر شامل ہوتے تو نہ جیلوں کی صعوبتیں برداشت کرتے، نہ ان کی بیٹی ہاءوس ارسٹ ہوتی اور نہ وہ ہی مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں واضع طور پر پاکستان میں دستیاب قیادت کو بھر پور شمولیت کی ہدایات جاری کرتے ۔ اب اگر پیپلز پارٹی اور ن;لیگ کی دستیاب قیادت حکومتی غصب کا شکار ہے تو یہ سب اسی’’غیر اعلانیہ معاہدے‘‘ کی پابندی کرنے کے باعث ہے جو ان لیڈران نے’’ جمہورےت کو بچانے‘‘ کے چکر میں کیا لیکن پھر بھی ا داروں کے دھوکے اور غصب کا شکار ہوئے ۔


حالیہ دو سالوں میں ملکی معیشت ،خارجہ اور داخلی پالیسی کس نہج پر پہنچ چکی ہے اور عوام الناس کی حالتِ زار کیا ہے ، وہ سب کے سامنے ہے ۔ اداروں اور جمہوریت کی محبت میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے جیلیں اور نیب کے مقدمات بھی بھگتے اور تا حال حکومت کی انتقامی کاروائیاں سہ رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ اپوزیشن لیڈر پریس کانفرنسوں اور ٹیوٹر سے باہرآ کر سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف کسی ایجی ٹیشن کی کال دے سکیں ،جس کا پاکستان کے عوام مطالبہ کر رہے ہیں ۔

منافقت اور دو رخی پالیسی کی انتہاء یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو یہاں تک کہنا پڑا کہ مذکورہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ان کے ساتھ دھوکہ دہی اور منافقت سے کام لیا ہے ۔
کوئی ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے پوچھے کہ اب کیوں حکومت کے خاتمے کے لیئے چھہ ماہ کا ٹائم دیا جا رہا ہے؟ ملک میں جمہوریت اور جمہوری عمل کو کمزور کرنے کے لیئے اب کیوں حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے؟ کیا سر پر جوتے کھانا ضروری تھا کہ اس کٹھ پتلی سرکارکو اب تک چلنے دیا گیا ہے؟ ۔

پہلے چھہ ماہ کا کہا پھر بجٹ کے بعد اور اب پھر چھہ ماہ کے بعد حکومت کے خاتمے کا راگ ملہار الاپا جا رہا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر سیاسی تجزیہ کاروں اور پبلک کے نذدیک اگر یہ خیال پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت اپنی بقایا مدت با آسانی پوری کر سکے گی تو یہ غلط نہ ہو گا ۔ مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اداروں کی محبت اور الفت میں مارے گئے اور جنابِ زرداری اپنی صوبائی حکومت کو بچانے کے چکر میں ، جبکہ دھوکہ ہوا تو صرف ان کروڑوں ووٹرز سے جنہیں اس جعلی حکومت سے جلد چھٹکارے کی امید دلائی گئی تھی ۔


مختلف حکومتی کمیٹیوں کے اپوزیشن ارکان اور عام ممبرانِ اسمبلی اپنی مراعات اور تنخواہوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور آج بھی مسائل اور پریشانیوں کے مارے ووٹرز کو جلد حکومتی تبدیلی کا لالی پاپ دیئے ہوئے ہیں ۔ پٹواریوں اور جیالوں کے سرپرستوں نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر اگر ایسا کوئی معاہدہ کیا ہے جس کی رو سے وہ حکومتِ عمرانیہ کو بچانے کے پابند ہیں تو پھر وہ اگلے عام انتخابات تک دیواروں کو ٹکریں مارنے کے بجائے اپنے سیاسی سرپرستوں کی جانب سے حکومتی تبدیلی کا پالی پاپ اپنے منہ سے نکال باہر پھینکیں ۔

سانپ نکل گیا ہے اب لکیر پیٹنے کا فائدہ نہیں کیونکہ بظاہر اور حالات اور واقعات کے مطابق تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عمران خان حکومت کو پانچ سال پورے کرنے کا غیر اعلانیہ معاہدہ ہو چکا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :