یہ حقائق ہیں ،برا مت مانئے گا‎

منگل 22 دسمبر 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیرِ دفاع احمد مختار مرحوم نے اپنے دورِ حکومت میں تحریری طور پر قومی اسمبلی میں بتایا تھا کہ’’ سویلین محکموں میں تعینات فوجی افسران میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے لے کر کیپٹن کے عہدوں کے ایک سو چھیالیس جبکہ تیرہ سو سات جونیئر کمیشنڈ افسران شامل ہیں ۔ اُن کی فہرست کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ یعنی نو سو چھتیس فوجی اہلکار اینٹی نارکوٹکس فورس میں تعینات تھے جبکہ ایوان صدر میں چونسٹھ، وزیراعظم سیکریٹریٹ میں بیالیس اور زلزلہ زدگان سے متعلق ادارے ’ایرا‘ میں چھیاسٹھ فوجی تعینات تھے ۔

اُن کی حکومت کی تیار کردہ فہرست کے مطابق بلوچستان حکومت اور وزارت خارجہ میں دو دو فوجی افسران کو ضروری تعیناتی کی بنیاد پر واپس فوج میں نہیں بھیجا گیا تھا‘‘ ۔

(جاری ہے)

دفاعی اداروں کے اہلکاروں اور افسران کی سول محکوں اور اداروں میں تعیناتیوں کا سلسلہ اس سے بھی پہلے کا چل رہا ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق55 ریٹایئرڈ میجر جنرل رینک کے فوجی افسران کی مختلف سول محکموں اور بیرون ممالک مختلف سفارتخانوں میں تقرریاں کی گئی ہیں ۔

پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت میں اُس دور کے وزیرِ دفاع احمد مختار مرحوم نے مسلم لیگ ن کے رکنِ اسمبلی مرتضی جاوید عباسی کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں 1453 دفاعی اداروں سے متعلقہ افسران کی مختلف سول محکموں اور اداروں میں تعیناتی کی تصدیق کی تھی ۔ جس پر سابق چیف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اعلان کے باوجود مذکورہ فوجی افسران کو سول محکموں سے واپس نہیں بھیجا جا سکا ۔


ابھی کچھ ہی عرصہ قبل ، سابق ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کے نو سالہ دورِ حکومت میں بھی درجنوں سویلین عہدوں پر کئی ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی تعینات کیے گئے لیکن جب ڈیکٹیٹر پرویز مشرف نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑا تو نئے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے حاضر سروس افسران کو واپس فوج میں بلانے کا اعلان کیا مگر کیانی صاحب کے اعلان پر عملدارآمد نہیں ہو سکا ۔


سابق فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم باجوہ کو حال ہی میں اطلاعات و نشریات کے سلسلے میں وزیر اعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا، گو کہ پیزا اسکینڈل یعنی نناوے پاپا جون فرانچاسز اور ان کے امریکہ اور دیگر ممالک میں اثاثاجات کے منظرِ عام پر آنے کے بعد انہیں اس سول عہدے سے مستغفیٰ ہونا پڑا لیکن ان کی سی پیک کی سربراہی سرکاری ویب ساءٹ کے مطابق ابھی بھی جاری وساری ہے ۔

حال ہی میں ایک اور اہم تعیناتی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کی بھی کی گئی تھی ، جس کا چیئرمین ایک حاضر سروس لیفٹینٹ جنرل محمد افضل کو بنایا گیا ،مگر عالمی ادارہِ صحت کی جانب سے پاکستان کو دیئے گئے اربوں ڈالرز کے کورونا فنڈز کی رسیدیں مانگنے پر انہیں بھی ان کے سول عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔ سکواڈرن لیڈر (ر) شاہ رخ نصرت، سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈی جی کے عہدے پر فائز ہیں ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر میجر جنرل ڈاکٹر عامر اکرام، جبکہ غرق شدہ پی آئی اے کے سی ای او بھی ایئر مارشل ارشد ملک ہیں ، جنہیں ہائی کورٹ نے ان کی نا اہلی کے باعث عہدے سے برطرف کیا تھا ۔

واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرپرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین، پاکستان ٹیلی مواصلات اتھارٹی یعنی پی ٹی اے کی سربراہی میجر جنرل (ر) عامر باجوہ کر رہے ہیں اوراسٹیل مل کراچی کے سی ای او کے عہدے پر بریگیڈئر ریٹائر شجاع حسن براجمان ہیں ۔
کھیلوں کے میدان میں ’’ کھلاڑی‘‘ کیوں پیچھے رہیں؟ ۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بریگیڈئر ریٹائرڈ خالد سجاد کھوکھر ہیں ، پاکستان اسکوائش فیڈریشن کے صدر ایئر چیف مارشل سہیل امان، سینئر نائب صدر ایئر مارشل شاہد اختر علوی اور سیکرٹری گروپ کیپٹن طاہر سلطان ، جبکہ فیڈریشن میں ڈیویلپمنٹ آفیسر فلاءٹ لیفٹینٹ احمد سکندر میو تعینات ہیں ۔

سول اداروں اور محکموں میں دفاعی اداروں کے مذکورہ افسران کے حوالاجات چیدہ چیدہ ہیں جبکہ اس ضمن میں ’’ لِسٹ ‘‘ طویل ہے ۔
یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ گوش گزار کرنا ہے کہ جب ملک کی سیاست، عدلیہ ، نیب،کھیل کے میدان، میڈیا،وزارتِ خارجہ اور دیگر ہر اہم سول ادارے اور اس کی پالیسیوں کو دفاعی محکموں کے افسران کنٹرول کرتے ہیں تو پھر سیاستدانوں اور ان کی لولی لنگڑی اور نامکمل دورِ حکومتوں کو نا اہل اور ناکام ہونے کا دوش کیوں دیا جاتا ہے؟ جبکہ ملک کے تمام اہم سول اداروں اور محکموں کی سربراہی اپنے پاس رکھنے کے باوجود تمام مذکورہ محکموں اور اداروں کی دیوالیہ ہوتی کارکردگی بھی ہم سب کے سامنے عیاں ہے ۔

دوسری جانب اگر سیاستدانوں سے ملک اور اداروں کی ترقی کے لیئے کوئی کوشش کرنے کی غلطی سرزرد ہو جائے تو پھر ان کا انجام بھٹو کی پھانسی، محمد خان جونیجو کی برطرفی، بے نظیر کو قتل، نواز شریف کو تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانا، شہباز شریف کی موجودہ قید اور ملک کی ڈوبی معیشت کی جی ڈی پی کو پانچ اشایہ آٹھ تک پہنچانے والوں کے خلاف قائم بے بنیاد مقدمات کی صورت میں ہم سب کے سامنے موجود ہے ۔

جبکہ بھٹو دور سے پہلے لیاقت علی خان اور سہرودری سمیت منتخب تمام سربراہانِ مملکت کا’’ انجام‘‘ بھی سب کو یاد ہے ۔
آخر میں عرض ہے کہ نواز شریف کے سابق دورِ حکومت کا وہ کون سا وزیر، مشیر اور سرکاری عہدیدار ہے جس نے اپنی وزارت یا ادارے کو کامیابی سے چلایا ہو اور وہ موجودہ دورِ حکومت میں جھوٹے مقدمے میں جیل میں نہ گیا ہو،اور پھر جسے عدالتوں نے کرپشن کے عدم ثبوتوں کے باعث حکومت کی جانب سے قائم مقدمات سے باعزت بری نہ کیا ہو ۔

سابق بیوروکریٹ احد چیمہ،خواجہ سعد رفیق،شاہد خاقان عباسی،انجینئر قمر اسلام اور احسن اقبال کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ کالم کے طویل ہونے کے باعث اس ضمن میں ایسے دیگر افراد کی تفصیلات بیان کرنے کی گنجائش نہیں ۔ بحرحال اس تما تر صورتِ حال سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے،کسی کے لیئے مشکل نہیں ۔ مذکورہ بالا تمام تر حقائق تلخ ہیں لیکن برا مت مانیئے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :