ایک سیاسی جماعت کا نعرہ، نظریہ اور زمینی حقائق‎

پیر 15 فروری 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

ایک عرصے تک آذاد کشمیر کے سیاسی میدان میں راج اور حکومت کرنے والی سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ہی کے لیڈروں نے پارٹی ورکروں کی قربانیوں اور سیاسی جدوجہد کو پسِ پشت ڈال کر اقتدار ، جماعتی عہدوں ، اختیارات ،شہرت اور ریاستی طاقت کی ہوس کے باعث ماضی قریب میں اپنی سیاسی جماعت کا بیڑہ غرق کیا اور اسے محض دو تین انتخابی حلقوں تک محدود کر لیا لیکن اب آذاد کشمیر کی ریاستی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے احیاء کی کوششیں یقینا قابلِ ستائش ہیں ، ریاست کی اس بڑی اور منظم سیاسی جماعت کو کسی طور بھی کمزور نہیں ہونا چاہیئے تھا ۔

یقینا اس کے کمزور ہونے سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ آذاد کشمیر کی تاریخ میں جس قدر بھی ترقیاتی کام ہوئے اور سیاسی کارکنوں کی جس طرح احسن تربیت ہوئی اس کا سہرا جماعت کے قائدین کو جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

مسلم کانفرنسی لیڈروں نے اپنے سیاسی کارکنان کو ایک سیاسی نظریئے سے روشناس کروایا اس سے قطع نظر کہ اس سیاسی نظریئے ( کشمیر بنے گا پاکستان) کی دنیا میں کوئی اہمیت یا وقعت ہے یا نہیں ۔


آذاد کشمیر میں غیر ریاستی سیاسی جماعتوں نے جہاں خطہ میں نظریاتی سیاست کا بیڑہ غرق کیا تو ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر بھی عام کیا کہ اسلام آباد میں جس سیاسی جماعت کی حکومت ہو گی مظفر آباد میں بھی اس کی منظورِ نظر سیاسی جماعت اقتدار میں ہو گی ۔ اس سوچ اور تاثر کے باعث آج ریاستِ آذاد کشمیر میں خود مختار کشمیر کے سیاسی نظریئے کے علاوہ دیگر کسی بھی سیاسی نظریئے کا کوئی نام و نشان نہیں ۔


اب زرا تلخ حقائق کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔ عالمی سیاسی منظر نامے پر بدلتے حالات، واقعات اور سوشل میڈیا کے طفیل بڑھتے سیاسی شعور کے باعث کشمیر کو پاکستان بنانے کی داعی سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو اب اپنے سیاسی نظریئے اور رواءتی نعروں میں نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ موجودہ دور میں کسی کو بھی حقائق سے دور رکھنا یا گمراہ کرنا ممکن نہیں رہا ۔

کسی کو اچھا لگے یا برا، زمینی حقائق یہی ہیں کہ ریاستی عوام کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ خود مسلم کانفرنس کا عام ورکر،سپورٹر اور ووٹر بھی اب خود مختار کشمیر کی بات کرنے لگا ہے ۔ اب مسلم کانفرنس کے لیڈروں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہوں نے عوامی جذبات اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی سیاست کرنی ہے یا پھر کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کر کے مذکورہ رواءتی راگ الاپتے رہنا ہے ۔

سابق صدرِ ریاست سردار سکندر حیات خان کا دوبارہ آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس میں شمولیت کے موقع پر یہ کہنا کہ’’ اگر آذاد کشمیر کی سیاسی قیادت متحد نہ ہوئی تو آذاد کشمیر کا حال بھی گلگت بلتستان جیسا ہو گا‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ لگتا ہے سردار صاحب کو عمر کے آخری میں پہنچ کر حقیقتیں نظر آنے لگی ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل راولاکوٹ آذاد کشمیر سے شاءع ہونے والے حارث قدیر کے اخبار’’مجادلہ‘‘ کی ایک مشہورِ زمانہ عوامی سروے رپورٹ تو سب کو یاد ہو گی جس میں آذاد کشمیر میں بسنے والوں کی اکثریت نے ’’خود مختار کشمیر‘‘ کی حمایت میں بات کی تھی ۔

زمینی حقائق کو منظرِ عام پر لانے کی پاداش میں اخبار مجادلہ تو بند کروا دیا گیا لیکن عوامی خیالات، سیاسی نظریات اور حقیقت نہیں بدلی جا سکی ۔ مقبوضہ کشمیر کو آذاد کروانے والے پالیسی ساز، ٹھیکیدار اور’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے روحِ رواں مسلم کانفرنسی لیڈران کرام زرا اپنے ارد گرد بنائے ہوئے سرکاری حصار سے باہر نکل کر آذاد کشمیر میں ایک آدھ آذادانہ سروے کروا کے دیکھ لیں ، عام پبلک کے سیاسی نظریات اور خیالات میں بڑی تبدیلی پائیں گے جبکہ پاکستان کے دگرگوں حالات اور بدلتی کشمیر پالیسی دیکھ کر مقبوضہ کشمیر کے عوام پہلے ہی ریاست کے خودمختار ہونے کی بات کر رہے ہیں ۔

بنگلہ دیش کیوں ،کیسے اور کن حالات میں ایک الگ ملک بنا مسلم کانفرنسی قائدین کو سنجیدگی سے اس تاریخ کا بار بار مطالعہ کرنا چاہیئے اس سے انہیں اپنے سیاسی نظریات میں ترمیم کرنے میں راہنمائی ملے گی ۔
جب فاٹا اور پاکستان کے دیگر صوبے وفاق سے مذید صوبائی خودمختاری مانگ رہے ہیں ،محکوم اقوام اور طبقہ اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیئے سراپا احتجاج ہے تو ایسے حالات میں خاکسار کی مذکورہ بالا گزارشات کو ’’عجب فلسفہ‘‘ قرار دینے والے مسلم کانفرنسی احباب اور دانشور نوٹ فرما لیں ، قریبی اور بے لوث سیاسی کارکنان سے اقتدار کے لیئے بنے گا پاکستان وغیرہ جیسے نعرے لگوا کر لوکل اشٹبلشنٹ کو خوش تو کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو بیرونی طاقتیں پاکستان کے مستقبل سے متعلق فیصلے کرتی ہیں انہوں نے ہی( اگر کبھی کیا بھی تو) کشمیر سے متعلق ہ میں صرف فیصلہ سنانا ہے ۔

گویا اگر دیرپا اور حقائق کے مطابق سیاست کرنا مقصود ہے تو عالمی اور علاقائی حالات کے مطابق پرانے اور گھسے پٹے سیاسی نظریات کو ازسرِ نو ترتیب دینا ہو گا ۔
آخر میں عرض ہے کہ حالات یک سر بدل چکے ہیں ، خودمختار کشمیر کے حامیوں کو اب بھارتی ایجنٹ قرار دینے سے کام نہیں چلنے والا ۔ کشمیر اور کشمیریوں سے ہمدردی کے ناٹک اور ڈھونگ رچانے والی قوتیں آذاد کشمیر کے عام انتخابات میں خود مختار کشمیر کے حامیوں کی شرکت کو کیوں نہیں ممکن بناتیں ، آذاد اور خودمختار کشمیر کی ریاست کے قیام کے حامی ریاستی باشندوں کے لیئے عام الیکشن میں حصہ لینا کیوں حرام قرار دیا گیا ہے ۔

ان قوتوں کو آخر خود مختاریوں سے کس بات کا ڈر اور خوف ہے،شائد اس بات کا کہ ان قوتوں کے بنائے ہوئے کنوئیں کے باہر کی دنیا میں کشمیر کی آذادی اور خودمختاری کی بات کی جاتی ہے نہ کہ مذکورہ قوتوں کے بنائے ہوئے کھوکھلےء نعروں ، بے سروپا فلسفوں اور بے بنیادبیانیوں کی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :