نواز شریف یا اسٹیبلشمنٹ ۔ دِفاعی پوزیشن پر کون ؟

منگل 23 مارچ 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

امریکہ کی جانب سے اربوں ڈالروں کی پیشکش، دھمکیوں اور پھر مخالفت کے باوجود جوہری دھماکے کر کے اس ملک کو دنیا کی ساتویں ایٹمی ریاست کا درجہ دلوانے والے سابق وزیرِا عظم نواز شریف نے اپنے حالیہ خطاب میں وہ کچھ بھی کھل کر بلکہ ان کے دورِ حکومت میں معاشی اور خارجہ ترقی کرتے پاکستان کو موجودہ بدترین تباہی کے دھانے پہنچانے والے کرداروں کا نام لے لے کر کہ دیا ہے جو کہ لحاظ اور خیال کرتے ہوئے اس سے پہلے نے انہوں جانتے ہوئے بھی کبھی نہیں کہا تھا، جبکہ خاکسار اپنے سابقہ کالموں میں دست بدستہ عرض کر چکا ہے کہ’’ اس ملک کے اصل مالک ہونے کے چند دعویدار عناصر نے اپنے اور اپنے غیر ملکی آقاءوں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنے غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور متنازع عمل کے باعث اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ایسی کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ ان کے ساتھ کسی قسم کا لحاظ روا رکھا جائے ۔

(جاری ہے)

اس لیئے وہ دن زیادہ دور نہیں جب پبلک کا ہاتھ ہو گا اور اشٹبلشمنٹ کے متنازع کرداروں کا گریبان ہو گا‘‘ ۔
نواز شریف کا حالیہ خطاب یقینا اس ملک کے محکوم بائیس کروڑ عوام کی آواز تھا ۔ اس لیئے وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب عوام کی جانب سے سامراجی طاقتوں کے پاکستان میں موجود سرکاری ایجنٹوں کی جائدادوں کا گھیراو کیا جائے گا اور وہ اپنی جانیں بچانے کے لیئے ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کی طرح اس ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوں گے ۔

(اب کی بار شائد ملک سے فرار ہونا بھی مشکل ہو)
ہم نے اس ملکِ خداداد پر غاصبانہ قبضہ کر کے اور نوے دنوں میں الیکشن کروانے کے وعدہ دار لیکن ملک میں اسلام نافذ کرنے کے چکر میں گیارہ سال اقتدار کے مزے لوٹنے والے خود ساختہ امیر المومنین جنرل ضیاء الحق اور پھر پاکستان سے دبئی فرار ہونے ، افغانستان میں طالبان حکومت پر حملے کے لیئے پاکستان کو کندھا دینے کے لیئے امریکہ کی ایک فون کال پر لیٹنے اور’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے کمانڈو جنرل پرویز مشرف رجیم بھی بھگتائی ہے لیکن اس ملک کے ساتھ صرف اپنی نوکری میں ایکس ٹنشن یا توسیع کے چکر میں جو زبر زناء اس وقت باجوہ ڈاکٹرائن کے دور ہو رہا ہے،ایسا دور پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ۔

خدا اس ملک کے حال پر اپنا اور کرم رحم فرمائے ۔ (آمین)
قصہ مختصر کہ مسلم لیگ ن کے حالیہ یوتھ کنونشن میں نواز شریف کے مذکورہ خطاب اور پھر اسی روز مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کی میڈیا ٹاک کی ٹائیمنگ صاف طور پر بتلا رہی ہے کہ اشٹبلشمنٹ کے مذکورہ کردار واضع طور پر اب دفاعی پوزیشن پر جا چکے ہیں اور فیس سیونگ کے لیئے کسی باعزت راستے کی تلاش میں ہیں ۔

یقینا نواز شریف،مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز جانتے ہیں کہ ان کی جانب سے اشٹبلشمنٹ کے متنازع اور مذکورہ کرداروں کے حوالے سے سخت ترین موقف اپنانا انہیں مشکلات سے دوچار کر سکتا ہے لیکن چونکہ پی ڈی ایم کے مذکورہ لیڈران کے ہاتھ عوام کی نبض پر ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت عوام کے اندر پی ٹی آئی حکومت کی مالک اور سہولت کار اشٹبلشمنٹ کے خلاف نفرت کا لاوہ پک چکا ہے، مخالف جذبات بھی زوروں پر ہیں اور دوسری جانب موجودہ رجیم چلانے والے کردار بیک فٹ پر جا چکے ہیں یعنی وہ اپنی شکست تسلیم کر چکے ہیں اور کتنے پانی میں کھڑے ہیں ۔

اس لیئے یہی وہ وقت ہے جب عوام کو موجودہ سامراجی نظام کی تبدیلی کے نام پر سڑکوں پر لایا جا سکتا ہے اوراس واسطے اشٹبلشمنٹ مخالف تحریک کی عملی شروعات کے لیئے پیپلز پارٹی اگر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا ساتھ نہیں بھی دیتی تو کوئی حرج نہیں ۔
قومی اداروں کی تباہی، معیشت کی بربادی اور خارجہ امور میں بری طرح کی ناکامی کے بعد اب یہ کہنا کہ’’ ماضی بھول کر آگے بڑھا جائے‘‘ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ حکومتِ عمرانیہ کو اس ملک پر مسلط کرنے والے عناصر اپنے ہاتھ اوپر کھڑے کر چکے ہیں اور خود این آر او کے منتظر ہیں جبکہ نواز شریف کے حالیہ خطاب سے پوری طرح عیاں ہے کہ وہ کسی بھی صورت عالمی اشٹبلشمنٹ کی پاکستان میں موجودہ رجیم کو این آر او یا فیس سیونگ دینے کو تیار نہیں بلکہ نواز شریف اس ملک کو موجودہ صورتِ حال سے دوچار کرنے والے عناصر کو قانون اور عدالت کے کٹہرے میں لانے کے لیئے پر عزم ہیں اور یہی قوم کے بھی جذبات ہیں اور مطالبہ بھی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :