مقابلہِ تابعداری‎‎

جمعہ 13 اگست 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

  ریاستی طاقت اور اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کے حصول کے لیئے محکوم اور مجبور عوام کے سامنے زمینی حقائق کو توڑ مروڑ کر صحیح کو غلط تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے نتائج وہی نکلتے ہیں جو دو ہزار اٹھارہ کے نام نہاد الیکشن کے نتیجے میں نکلے جنہیں تین سال سے ملک اور پوری قوم بھگت رہی ہے۔نواز شریف اور اس کی سیاسی شہرت کے بغض میں سابق آمر پرویز مشرف نے ق لیگ بنوائی، احتساب کرنے کے نام پر نیب جیسا ادارہ وجود میں لایا گیا، جس کے زریعے سیاسی مخالفین کے خلاف بدترین انتقامی کاروائیاں کی گئیں، جس حد تک ممکن تھا نواز شریف، اس کے خاندان اور مسلم لیگ ن کو دبانے اور تباہ کرنے کے لیئے سرکاری وسائل بروئے کار لائے گئے لیکن اس کا نتیجہ بھی نواز شریف، مسلم لیگ ن کے دوبارہ پاپولر ہونے اور اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے پر ہمارے سامنے ہے۔

(جاری ہے)


 اب پھر محب الوطنوں کی جانب سے”ملکی مفاد“ کے نام پر ایک مرتبہ ن لیگ کو تقسیم اور کمزور کرنے کی کوششوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے تا کہ آمدہ انتخابات میں اشٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ اور تیار شدہ کٹھ پتلیوں کو منظرِ عام پر اور اقتدار میں لایا جائے جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہو کہ ملکی اقتدار میں اختیارات پارلیمنٹ کے بجائے امریکہ کی اردلی لوکل اشٹبلشمنٹ کے پاس رہیں جیسے کہ ابھی ہیں اور ملکی معاشی،دفاعی، خارجہ اور دیگر اہم قومی پالیسیاں بھی امریکہ کی مرضی اور منشیٰ کے مطابق بنتی اور جاری رہیں اور اس لیئے ضروری ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ اشٹبلسمنٹ رہے۔


اس ضمن میں پی ٹی آئی اور پی پی پی کے لیڈران نیازی زرداری کے مابین Competitionدیکھا جا رہا کہ کون اور اس کی سیاسی جماعت لوکل اشٹبلشمنٹ کی زیادہ تابعدار اور امریکی سامراج کے پاکستان میں مفادات کو مکمل اور جاری رکھنے میں زیادہ اہلیت کی حامل ہے۔ آپ بھلے لاکھ سیاسی جوڑ توڑ،سیاسی بلیک میلنگ کریں،مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے کے لیئے بندے توڑ توڑ کر پی ٹی آئی اور پی پی پی میں شامل کریں،بات وہی ہے کہ اس گورکھ دھندے اور کوئلے کی دلالی میں وقتی طور اپنا پر منہ کالا تو کیا جا سکتا ہے لیکن آخر تاریخ کے اندھیروں میں ڈوب مرنے کا مقامِ عبرت ہو گا۔

گزرتے وقت اور ملک میں سیاسی و حکومتی تجربات کے بعد عام پبلک میں اب یہ بات مذید واضع اور عیاں ہو گئی ہے آئندہ بھی اشٹبلشمنٹ کے سہارے اقتدار میں آنے والے کوئی بھی سیاسی جماعت ملکی مفاد میں کام اور عوامی فلاح و بہبود کرنے کے بجائے اپنی توانائیاں اشٹبلشمنٹ کو مذید توانا کرنے اور امریکی مفادات کی تکمیل کرنے میں صرف کرے گی تا کہ اس کی حکومت چلتی رہے۔

اس لیئے جب تک اس ملک میں آذادانہ اور اشٹبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک الیکشن نہیں ہوں گے اس وقت تک نہ ہمارا جی ڈی پی 5.8 تک جا سکتا ہے اور نہ ہم دنیا بلخصوص دنیا میں سارے فساد کی جڑ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں،جیسے نواز شریف کو1998 میں ایٹمی دھماکوں کے وقت، امریکی صدر بلِ کلنٹن جس نے پانچ مرتبہ نواز شریف کو فون کیا اور اربوں ڈالرز کی پیشکش کی جسے نواز شریف نے ٹھکرا دیا تھا۔

 
 
نواز شریف،اس کی سیاسی شہرت، ووٹ بینک کے حسد اور بغض میں اگر سیاست دانوں کو ڈنڈے کے زور پر تقسیم کرنے، ملک اور قوم کا مذید بیڑہ غرق کرنا مقصود اور مطلوب ہے تو میدان کھلا ہے لگے رہیئے لیکن لکھ کر رکھ لیجئے وہ دن اَب زیادہ دور نہیں جب اس بے لگام اشٹبلشمنٹ کو بھی اپنی بقا اور سلامتی کے لیئے اسی نواز شریف کی ہی ضرورت پڑے گی،جسے آجکل غدار اور نہ جانے کیا کیا کہا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کو تقسیم کرنے کی کوششیں کرنے والوں کو بھی خبر ہو کہ پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس میں صدر’ن‘ لیگ محترم شہباز شریف نے دو ٹوک اور واضع طور پر کہا ہے کہ ایک ہی بیانیہ ہے اور وہ ہے“آئین اور قانون کی بالادستی”اور یہی بیانیہ میاں نواز شریف کا ہے۔ن لیگ کے صدر سمیت اور تمام ٹکٹ ہولڈر اور امیدوار بخوبی جانتے ہیں کہ نواز شریف کے تصویر پر ہی انہیں ووٹ ملے گا،اس لیئے خصوصاً پنجاب میں ن لیگ میں دراڑیں ڈالنے والوں کو ناکامی کا سامنا ہو گا۔


اب اگر آصف زرداری،ق لیگ کے چوہدری برادران،مینگل گروپ یا کوئی اور سیاسی دھڑا یا سیاسی جماعت ملک کی سیاسی تاریخ میں اپنا نام اچھے انداز میں لکھوانے کی خواہشمند ہونے کے بجائے وقتی سیاسی اور زاتی فائدے یا اقتدار کے لیئے اشٹبلشمنٹ کی تابعداری اور بوٹ پالشی کے نتیجے میں اقتدار میں آ بھی جاتی ہے تو اسے بھی عوام میں انہی ناموں سے یاد کیا جائے گا جن ناموں سے کٹھ پتلی عمران خان کو ملک کے اندر اور باہر یاد کیا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :