”ہمارے طالبان“ اور متوقع صورتِ حال‎‎

بدھ 18 اگست 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

 طالبان کی جانب سے کابل اور بشمول پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر نے کے بعد اگر ایک جانب خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب ایک مکتبہِ فکر مذکورہ صورتِ حال پر فکر مند دکھائی دے رہا ہے۔خاکسار بھی افغانستان کی حالیہ بدلتی ہوئی صورتِ حال پر فکر مندوں میں شامل ہے اور اپنی سابقہ تحریروں میں اس حوالے سے گوش گزار کر چکا ہے کہ افغانستان میں موجودہ تشویشناک صورتِ حال پیدا ہونا یقینی تھا۔

امریکہ نے افغانستان میں پہلے اربوں ڈالرز کے اسلحہ کا کاروبار کیا اور اب اپنے مقاصد مکمل اور ٹارگٹ بخوبی سیٹ کرنے کے بعد بقیہ ٹاسک کو پورا کرنے کی ذمہ داری طالبان کے ذمہ لگائی ہے جو وہ سستے میں سر انجام دیں گے اور وہ ذمہ داری کیا ہے؟،اہلِ دانش اسے بخوبی جانتے ہیں اورجو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ امریکہ افغانستان سے اسی طرح طالبان کو ٹریننگ دے کر نکلا ہے جس طرح قیامِ پاکستان کے فوری بعد برطانیہ نے ہماری اشٹبلشمنٹ، عدلیہ اور، بیوروکریسی کو ملک پر قبضہ کرنے کا ہنر اور تربیت کی تھی۔

(جاری ہے)

اس بات کی دلیل طالبان کا یہ اقرار ہے کہ”اب وہ پہلے جیسے نہیں رہے بلکہ مہذب اور اعلی تربیت یافتہ ہو چکے ہیں اور یہ کہ وہ دنیا کے ساتھ چلیں گے“۔ ظاہر ہے بیس سال تک اگر امریکا 83 ارب ڈالرز لگاکر 3 لاکھ افراد کی فوج تیار کرتا رہا، اپنے مقاصد کے حصول کے لیئے اچھے طالبان کی چھانٹی کر رہا تھا تو یقینا ان کی تربیت اور ٹریننگ بھی کرتا رہا ہو گا، وگرنہ اگر امریکہ طالبان کا اتنا ہی خونی دشمن ہوتا تو جدید ٹیکنالوجی اور ڈرون جہازوں کے زریعے پورے افغانستان کو ملبے اور راکھ کا ڈھیر بنا سکتا تھا۔

خاکسار نے اپنے ایک سابق کالم میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ طالبان کی اس قدر فنڈنگ کون کر رہا ہے؟ جو وہ تیزی اور آسانی کے ساتھ تما م علاقے فتح کرتے چلے جا رہے ہیں اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں جبکہ سابق اور موجودہ امریکہ صدر نے افغانستان سے امریکہ فوجیوں کے انخلا کے وقت واضع طور پر کہا تھا کہ تین لاکھ افغان آرمی اور پولیس کو ہم تربیت اور جدید اسلحہ دے کر جا رہے ہیں۔

(جیسے عراق میں داعش کی مدد کے لیئے اسلحہ جہازوں سے پھینکا گیا تھا یہی نہیں بلکہ برطانیہ کے وزیرِا عظم ٹونی بلیئر نے تو داعش تنظیم بنانے کا اعتراف بھی کر لیا تھا) 
افغان باقی کہسار باقی کی نعت پڑھنے والے اس بات کے شادیانے بھی بجا رہے ہیں کہ پاکستان کے 70 ہزار شہریوں اور 6000 فوجی جوانوں کے قاتل اور پاکستانی فوجیوں کو ذبح کر کے ان کے سروں سے کھیلنے والے”ہمارے طالبان“ اب مقبوضہ کشمیر کو آذاد کروا کر اسے ہماری جھولی میں ڈالیں گے لیکن وہ یہ بھول بیٹھتے ہیں کہ امریکہ بھارت کا دفاعی پارٹنر ہے،اور امریکہ اور طالبان کی انڈر سٹینڈنگ کے نتیجے میں ہی اس وقت افغانستان میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔

طالبان جنوبی ایشیاء اور بالخصوص پاکستان کو ڈی سٹیبلائز ضرور کر سکتے ہیں لیکن بھارت کو ناراض نہیں کر سکتے، یاد رکھیئے گا بھارت، طالبان کی ممکنہ حکومت کو تسلیم کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہو گا اور دہلی میں طابان حکومت کا سفیر بیٹھے گا، ایسے میں سفارتی آداب کے منافی کیوں کر طالبانی سفیر بھارت کے اندرونی معاملات میں یعنی کشمیر کے حوالے سے مداخلت خوانہ طرزِ عمل اختیار کرے گا،ویسے بھی طالبان ایک عرصے سے بھارت کے ساتھ آن بورڈ ہیں۔

یہ بھی زہن نشیں رہے کہ سلیکٹڈ اشرف غنی کا افغانستان سے فرار ہو جانا اور طالبان کا بغیر کسی مزاحمت کے دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہونا قطر مذاکرات بلکہ اس سے بھی پہلے سے طے تھا باالفاظِ دیگر افغانستان میں امریکی ڈیکٹیشن اور اسکرپٹ کے عین سب کچھ ظہور پذیر ہوا ہے۔اس لیئے بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں۔
 امریکہ کی پاکستان دشمن پالسیوں کی بدولت ملک اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ہمیں کسی بھی عالمی سطح کی کانفرنس میں مدعو نہیں کیا جا رہا۔

رواں ماہ دو عالمی کانفرنسوں میں پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا،ابھی حال ہی میں ا فغانستان کی صورتحال پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کو پھر نہیں بلایا گیا اور نہ ہی امریکی صدر ہمارے پاٹے خان کو فون کر رہا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز ایک طالبان راہنماء نے ویڈیو پیغام میں جذباتی پاکستانی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ” پاکستان ہمارا اصل دشمن ہے جس نے امریکی ڈالر کھا کر افغانستان کی تباہی کی اور اب امریکہ کے بعد اگلی باری تمہاری ہے“(یہاں یہ بات سمجھانا مقصود ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور طالبان اور امریکہ آن بورڈ ضرور ہیں لیکن امریکہ اور پاکستان نہیں) گو کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز مشرف نے ڈالروں کے عوض اسلام آباد میں افغان سفیر ملا ضعیف کو برہنہ کر کے امریکہ کے حوالے کیا، ہزاروں طالبان کو پاکستانی جیلوں میں قید کیا،سینکڑوں کو امریکہ کے حوالے کیا اور ہم افغانستان میں امریکی جنگوں کا مسلسل حصہ رہے۔

اس لیئے مذکورہ نوعیت کا بیان پڑھ کر حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیئے۔مطلب جو بویا تھا اب کاٹنے اور”ہمارے طالبانوں“ سے چھتر کھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :