عوام ٹیکس نہیں دیتی‎‎

منگل 24 اگست 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا شمار دنیا کے ان ممالک کے شہریوں میں ہوتا ہے جو اپنی ریاست کو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں یعنی اپنے عوام سے، پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ ٹیکس وصول لینے والے ممالک میں سرِ فہرست ہے لیکن باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مشہور یہ کیا گیا کہ آپ ٹیکس نہیں دیتے اور صرف چار فیصد عوام ٹیکس ادا کرتی ہے۔ اس لیئے کہ اگر یہ حقیقت آپ کو معلوم ہو جائے کہ آپ کا خون چوسا اور آپ کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے تو آپ اپنی بنیادی ضروریات اور حقوق کے حصول کے لیئے اٹھ کھڑے ہو نا گے اور اشٹبلشمنٹ کی عیاشیاں بند ہو جائیں گی جو قومی سلامتی کے نام پر کی جاتی ہیں اور ایک طویل عرصے سے جاری ہیں۔

جیسے پہلے بادشاہوں کے زمانے میں امن اور شہریوں کی حفاظت کے نام پر محصولات یا ٹیکسوں کا زیادہ حصہ محلات اور شاہی سلطنت کے شہزادوں کی شان و شوکت اور بادشاہت کو بچانے کے لیئے فوجی طاقت بڑھانے پر خرچ کیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)


پاکستان کا ہر شہری کسی نہ کسی شکل میں حکومتوں کو مسلسل ماہانہ یا سالانہ ٹیکس اداکر رہا ہے۔سیاست دانوں پر اپنے اثاثوں کو سرکاری گوشواروں میں ظاہر کرنا لازمی ہے انہیں اپنی انکم ٹیکس ریٹرن بھی دکھانا لازم ہے لیکن،جج صاحبان،بیوروکریٹ اور جرنیل اس نیک عمل سے مبرا ہیں بلکہ ایسا سوال اٹھانا بھی ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔

ایف بی آر اور محکمہ انکم ٹیکس ایک عام کاروباری یا دکان دار پر تو اپنی داداگیری چلا سکتا ہے لیکن مذکورہ الیٹ کے آگے لم لیٹ ہے۔
 نومولودبچوں کے دودھ سے لیکر عام کھانے پینے کی ہر شے پر ٹیکس لاگو ہے۔ پانی، سوئی گیس، بجلی اور ٹیلی فون کے ہربل پر مختلف قسم کے ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔پٹرول اور اُسکی مصنوعات پر بھی اصل قیمت سے دگنا ٹیکس نافذ ہے جو ہر پاکستانی کو دیناپڑتاہے۔

کوکنگ آئل اور ماچس کی ڈبیا سے لے کر ادوایات،ٹوتھ پیسٹ، کتابوں، موبائل فونز، ان کے بیلنس کارڈز،گاڑیاں،گھر،پلاٹ سمیت ہر چیز پر پاکستانی قوم ٹیکس ادا کر رہی ہے۔مختصر یہ کہ آکسیجن یعنی سانس لینے والی قدرتی ہواکے علاوہ ملک کے بائیس کروڑ عوام ہر شے پر ٹیکس دے رہے ہیں۔ ٹیکسسز کی مختلف صورتیں ترتیب دی گئی ہیں۔ مثلاًانکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس،پراپرٹی ٹیکس،ایکسائز ٹیکس،جنرل سیلز ٹیکس،پے رول ٹیکس،ویلیو ایڈڈ ٹیکس،کیپٹل گین ٹیکس،آئی پی ایس ٹیکس،ٹیلی ویژن ٹیکس،نیلم جہلم سرچارج ٹیکس،مختلف قسم کے سرچارج اورمحصول بجلی وغیرہ۔

۔۔۔ باالفاظِ دیگر آپ براہ راست یا بالواسطہ ٹیکس کسی نہ کسی صورت میں حکومت کو باقاعدہ ٹیکس ادا کر رہے۔ ہیں۔ مختصر انداز میں یوں جانیئے کہ ایک سو روپے کی خریداری پر مختلف قسم کے سرچاچ اور ٹیکسز ملا کر مجموعی طور پر38 روپے ایک پاکستانی ٹیکس ادا کرتا ہے۔
آڈیٹر جنرل آف نیا پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف رواں سال میں غیر ملکی قرضوں کے سمندر میں غرق ہوئی تبدیلی سرکار کی حکومت کے دوران مختلف محکمہ جات اور اداروں میں 404 ارب روپے کی ہیرا پھیری کی گئی ہے،یہ تو آفیشل اعداد و شمار ہیں جبکہ تبدیلی سرکار کی لوٹ مار اور مالیاتی کرپشن کی بابت باقی کی صورتِ حال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں،ان کٹھ پتلیوں کو ایک مرتبہ اقتدار کی کرسی سے اترنے دیں پھر آپ کو میگا کرپشن کی وہ عظیم داستانیں سننے کو ملیں گی جو عام آدمی کو ناقابلِ یقین لگیں گی۔

دوسری جانب ملک پر بیرونی قرضہ116309 ملین ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے،جس کی اقساط ادا کرنے لیئے بھی قرضہ لینے پر انحصار کیا جا رہا ہے لیکن اگر قرض سے متعلق پوچھا جائے کہ جا کہاں اور کس مد میں خرچ ہو رہا ہے تو قومی سلامتی آڑے آتی ہے اور”ملکی سلامتی“ کا حال یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ روزمرہ استعمال ہونے والی اشیائے خورد و نوش اور یوٹیلیٹی بلز کی قیمتوں کا تعین اب آئی ایم ایف خود کر رہا ہے جبکہ”ملکی سلامتی“ کے نام پر اس غریب اور محکوم قوم کے ٹیکسوں سے ان کی رکھوالی کے نام پر چوبیس سو ارب روپے سالانہ لیئے جاتے ہیں لیکن پھر بھاشن دیا جاتا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتی۔


بڑھتی مہنگائی،بے روزگاری اور عوام کے بنیادی حقوق اور ضروریات کی عدم دستیابی کی بڑی وجہ جبر پر مبنی یہی وہ ٹیکسوں کا سامراجی محصولاتی نظام ہے جس باعث ریاستی اشرافیہ دن بدن پھلتی پھولتی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب عوام کا کچومر نکل رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :