زوال پذیر سیاسی عمل

پیر 6 جولائی 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

قومی سیاست پہ جس گہرے جمود نے پنجے گاڑھ رکھے ہیں بظاہر اس سے جلد نجات کی کوئی امید نظر نہیں آتی کیونکہ جس طرح اقتدار کے سنگھاسن پہ بیٹھے لوگ مایوسی کے اندھروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں،اسی طرح اپوزیشن بھی کنفیوژن کی تاریکیوں سے باہر نکلنے کی روادار نہیں ہو سکی،ماضی میں گورنمنٹ اور اپوزیشن کے مابین جس دلچسپ کشمکش کے گداز مناظر دیکھنے کو ملتے تھے اب وہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں گویا ہماری قومی سیاست کا ارتقاء تھم ساگیا ہے،کوہلو کے بیل کی مانند اب ہر جماعت محض پہلے سے متعین کردہ وظائف پورے کرنے میں مشغول نظر آتی ہے،فکر و خیال اور سیاسی نظریات کی وہ فطری بوقلیمونی کہیں دیکھائی نہیں دیتی جس کے دلکش تضادات سیاست کے افسانہ میں رنگ بھرنے کیلئے اہم کردار کرتے تھے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی میکانکی نظام کے ذریعے حکمراں اشرافیہ،اپوزیش جماعتوں اور قوم پرست پارٹیوں کی لیڈرشپ کی سوچ اور طرزعمل کو کوئی ایک ہی قوت کنٹرول کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

بلاشبہ قربانی کے جذبہ سے عاری اس تن آسان سیاسی قیادت سے ہمیں یہی توقع تھی کہ وہ سیاسی جدلیات کی سرگرانی میں سرکھپانے کی بجائے کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے نظام کوبرسر وچشم قبول کرنے میں ہی عافیت تلاش کر لے گی،اب تو شاید سویلین بالادستی کا وہ رومانوی تصور اور ووٹ کو عزت دو جیسے پُرکشش نعرے فرضی حقائق کا خوبصورت جال نظر آتے ہیں،جو کبھی لوگوں کی روح کے اندرجذبات موجزن کر دیا کرتے تھے۔

خاص کرکورونا وائرس وبا کے دوران لاک ڈاون کے فیصلہ کی پیپلزپارٹی،نواز لیگ اور جے یو آئی(ف)سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے جس خشوع وخضوع کے ساتھ حمایت کر کے طاقت کے مراکز کو اپنی اطاعت گزاری کا یقین دلایا،بالکل اُسی طرح حکومت نے بھی اُسے نیم دلی کے ساتھ نافذکر کے اس تاثر کو اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ لاک ڈاون کا فیصلہ حکومت کا اپنا نہیں بلکہ کسی بالاتر قوت کا تھا،وزیراعظم نے یہ کہنے میں بھی باک محسوس نہیں کی کہ”اشرافیہ نے ملک گیر لاک ڈاون کے ذریعے غیریبوں کی دکھوں سے لبریز زندگی کی تلخیاں بڑھا دیں“۔

اس سے قبل آرمی ایکٹ میں ترمیم کے وقت ہم سب نے حکومت اور اپوزیشن کو ہم آواز دیکھا لیکن جس طرح مالی سال 2020-21 کے بجٹ کی منظوری کے دوران حکومتی اور اپوزیشن بنچوں میں بلواسطہ اتفاق رائے نظر آیا اسکی مثال ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔بجٹ سشن میں اپوزیشن کی لیڈر شپ نے مالیاتی امور اور معاشی مسائل کے سوا ہرمہمل موضوع پہ لب کشائی کی،عوامی نمائندوں نے روپے کی قدر میں کمی، تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کی وجوہات، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تیل کی قیمتوں میں یکدم اتنے بڑے اضافہ کو زیر بحث لانے کی بجائے ادھر ادھر کی ہانک کے میڈیا کو انگیج رکھا،تاہم اسی بجٹ اجلاس کے شرکاء کی تفریحی طبع کے لئے وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پور اور مولانا فضل الرحمٰن کے صاحبزادہ مفتی اسد محمود کے درمیان اتفاقاً بھڑک اٹھنے والی دلچسپ نوک جھونک کے مظاہر زیادہ حقیقی نظر آتے تھے۔

علی ہذالقیاس،خود وزیراعظم نے بھی معاشی مسائل اورمالیاتی امور پہ بات کرنے کی بجائے بجٹ اجلاس میں 2 مئی 2011 کو امریکی میرین کی پاکستان کی حدود میں داخل ہو کے اسامہ بن لادن کومارنے کی جسارت پہ برہمی کا اظہار اور اس جارحیت کو ناقابل فراموش قومی المیہ قرار دیکر عالمی سیاست کی حرکیات میں الجھنے کی شعوری کوشش کرڈالی،بظاہر یہ پیش دستی کسی وسیع سکیم کا جُز ہو سکتی ہے،ہم چونکہ فارن ڈپلومیسی کی پیچیدگیوں اور جنگی چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں،اس لئے ان معاملات کی گہرائی کو ماپنے کی کوشش نہیں کریں گے لیکن عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو ان کی طرف سے مخصوص مذہبی طبقہ کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر عسکری گروہوں کی تعریف کرنے کا رویہ سمجھ میں آتا تھا،تاہم اب سوال یہ ہے کہ خان صاحب نے وزیراعظم کی حیثیت سے بن لادن کو شہید کہہ کے قومی بیانیہ کے رخ زیبا پہ پڑے اُس نقاب ابہام کو سُرکانے کی کوشش کیوں کی جو ہماری تزویری حکمت عملی کا مرکز ثقل تھا۔

کیا عمران خان صاحب اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے فیصلہ کی وجہ سے پی ٹی آئی کے خلاف مذہبی حلقوں میں پنپنے والے منفی تاثر کو تحلیل کرنا چاہتے تھے یا پھر وہ اگلے چند ماہ میں ان سیاسی مشکلات کو دیکھ رہے ہیں جوانہیں پھر اپوزیشن کے صحراوں کی اَبلہ پائی پہ مجبور کر سکتے ہیں۔بہرحال،امر واقعہ یہ ہے کہ وزیراعظم کے خطاب سے ایک دن قبل وزرات خارجہ نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اُس رپوٹ کو مسترد کیا جسمیں پاکستان کو اب بھی جنوبی ایشیا میں سرگرم عمل دہشتگرد گروپوں کو محفوظ پناہگاہیں فراہم کرنے والا ملک ظاہر کیا گیا،اگر چہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپوٹ میں تسلیم کیا گیا کہ دنیا بھر میں القاعدہ کی قوت اور وجود بتدریج کم ہوا لیکن اس رپوٹ میں دہشتگردی کے خلاف کامیابیوں کے ضمن میں پاکستان کے کردار کو دانستہ نظرانداز کیا گیا۔

مغربی میڈیا میں بھی عمران خان کے اس بیان کو وسیع پیمانہ پہ ہدف تنقید بنایا گیا،یوروپ کے تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ خان صاحب، بن لادن کو فی الواقع سچے موقف کا حامل اصلی شہید نہیں سمجھتے بلکہ اسے شہید کہنے میں اسے سیاسی مفاد دیکھائی دیتا ہے،چار سال قبل بھی ایک ٹی وی پروگرام میں عمران خان نے اسامہ بن لادن کودہشتگرد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ انہیں اقتدار تک پہنچنے کے لئے انہی نظریات سے وابستہ طاقتور گروہوں کی حمایت درکار تھی،مغربی میڈیا کا خیال ہے کہ اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ اور طالبان کی لیڈر شپ آج بھی پاکستانی مسلمانوں میں مقبول اور نوجوان نسل کے لئے بھرپورکشش رکھتی ہے،اب بھی مسلمانوں کی نوخیز نسلوں کو جہاد کی طرف راغب کرنے کی خاطر انہی شخصیات کے کرشماتی شکوہ کو وسیلہ بنایا جاتا ہے اس لئے پاکستان میں ان وار لارڈز کی مخالفت سیاسی طور پہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

یوروپی تجزیہ کاروں کی رائے سے قطع نظر ہماری اپوزیشن کی طرف سے نہایت پُرجوش انداز میں اسامہ بن لادن کو اس قوم کو تباہ کرنے والا دہشتگرد باور کرانے کی پیش دستی وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کے مہلک اثرات کو کاونٹر کرنے کی کوشش ہو گی،بلاشبہ اس حوالہ سے ہمارا قومی بیانیہ ہمیشہ التباسات کی دھند میں مستور رہا چنانچہ اس پراگندہ ماحول میں ابھی القاعدہ اور طالبان کے موقف کو برحق یا خلاف حق کہنا دشوار ہو گا،جنگ دہشتگردی میں عالمی طاقتوں کو ملنے والی ادھوری فتح بھی تاحال عسکریت پسندی کو باطل ثابت کرنے کے لئے ناکافی ثابت ہوئی بلکہ طالبان کے ساتھ امریکہ کے حالیہ امن معاہدہ نے مبینہ دہشتگردی کے خلاف مہذب دنیا کے موقف کو اور بھی کمزور کر دیا،اس لئے ایسے حالات میں وزیراعظم کی جانب سے بن لادن کو شہید کہنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ امریکی غلبہ کے خلاف مزاحمت کرنے والے عسکری گروہوں کی شناخت بن جانے والے اسامہ بن لادن اور ملا عمر سمیت طالبان مزاحمت کار مطلقاً غلط نہیں تھے۔

بیشک مغربی طاقتیں خطرناک ڈپلومیسی اور اپنے جانبدارنہ اصولوں کے ذریعے انسان کی پیچیدہ زندگیوں کا احاط کرلیتے ہیں لیکن بسا اوقات تقدیرط غیر مربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھاتی ہے اور انکی مرضی کے بغیر انہیں ان دیکھی تباہی سے دوچار کر دیتی ہے۔اس تناظر میں جب ہم ملکی سیاست کی محوری گردشوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں نواز لیگ اقتدار کے مراکز کی طرف واپس پلٹتی نظر آتی ہے،جیسے سابق وزیراعظم نوازشریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی برطرفی اور سابق وزیراعلی اکرم درانی کے خلاف نیب کے مقدمات کی بساط لپٹ لینے کا عمل،موجودہ سیاسی بندوبست میں کسی تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے ،واقعات کے اسی تسلسل سے جہاں نواز لیگ اور مقتدرہ میں غلط فہمیاں ختم ہونے کے اشارے ملے وہاں جے یو آئی اور مقتدرہ کے مابین بھی دوریاں کم ہوتی دیکھائی دیتی ہیں۔

لگتا ہے کہ عمران خان کو ایوان اقتدار تک لانے کا تجربہ زیادہ خوشگوار ثابت نہیں ہوا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا، جیمزسٹفن نے کہا تھا کہ”سیاسی طاقت فقط شکل بدلتی ہے فطرت نہیں بدلتی“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :