سیاسی کشمکش کی نئی راہیں

بدھ 23 ستمبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

آل پارٹی کانفرنس میں ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کا حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے اتفاق رائے تک پہنچنے کے فیصلہ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بظاہر ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کی تکمیل کی خاطر کی جانے والی متنازعہ قانون سازی کو پس منظر میں دھکیل دیا،جسے اپوزیشن جماعتیں اور سول سوسائٹی اپنی گوشمالی کا ٹول تصور کرتی تھی۔

گویا اب قوم ایک ایسی غیر معمولی سیاسی کشمکش کی طرف بڑھ جائے گی جو اگرچہ سیاسی عدم استحکام کو بڑھا دے گی لیکن یہی پیش دستی شاید پیراڈیم شفٹ کے تقاضوں کی تکمیل کا ذریعہ بھی بنے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاسی جماعتیں انسانی اقدار اور وسیع تر عوامی مفادات کی نگہبانی کا فرض نبھانے کے برعکس اپنی آخری حقیقت میں ریاستی مقاصد کی تکمیل کا ٹول بنتی ہیں،مہنگا ترین تنظیمی ڈھانچہ اور بقاء کے تقاضے ہمہ وقت انہیں سودا بازی پہ آمادہ رکھتے ہیں،چنانچہ وہ اعلی ترین قومی مقاصد کی خاطر جماعتی وجود اور شخصی لیڈرشپ کو قربان کرنے کی بجائے ہمیشہ ملکی یا عوامی مفادات کو ہی سیاست کی بھینٹ چڑھانے میں عافیت تلاش کرتی ہیں لیکن ہماری سیاست کی ٹرین اُس وقت تک پٹڑی پہ نہیں چڑھ سکتی جب تک اسے پارٹی پالیٹکس کے تقاضوں سے ماورا ہو کے سوچنے والی ایسی دلیر اور بے غرض لیڈرشپ نہیں ملتی جو زندگی کے اعلی ترین مقاصد کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جائے۔

(جاری ہے)

یہ سچ ہے،جن لوگوں نے جدوجہد کا ثمر خود اپنی زندگی میں دیکھنے کی آرزوئیں پال رکھی ہوں وہ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے،قوموں کا حوصلہ بڑھانے والے کارنامے وہی لوگ سرانجام دے سکتے ہیں جو پارٹی کے تنظیمی اور شخصی مفادات کے حصول کی خواہش سے بے نیاز ہوں۔اس وقت عالمی حالات کے تناظر میں ہماری مملکت انتہائی نازک مرحلہ سے گزر رہی ہے،سی پیک کو فنانس کرنے والے چینی بینکوں نے سیاسی عدم استحکام کو جواز بنا کے پراجیکٹ کی فنڈنگ روک دی ہے ،شنید ہے چینی حکومت سی پیک روٹ کے قانونی تحفظ کی خاطر متنازع علاقہ،گلگت بلتستان، کو پاکستان میں ضم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

ان دونوں تقاضوں کی تکمیل کے لئے حکومت کو کشمیر کاز کے روایتی موقف سے پیچھے ہٹنے کے علاوہ وسیع تر قومی اتفاق رائے کی ضرورت تھی کیونکہ گلگت بلتستان کو مملکت کا جُز بنانے کے لئے پہلے جی بی اسمبلی سے قرار داد کی منظوری کے بعد آئین میں ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت پانے کی خاطر اپوزیش جماعتوں کی حمایت درکار ہو گی مگر ڈھائی سالوں پہ محیط پی ٹی آئی گورنمنٹ کی سیاسی پالیسی نے قومی مفاہمت کے ہر امکان کو بعید تر بنا دیا،اس لئے ہموار سیاسی عمل کے ذریعے ان مقاصد کا حصول ممکن نہیں رہا بلکہ عملاً اِس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں بند گلی تک پہنچ چکے ہیں،اِس صورت حال سے نکلنے کے لئے اپوزیشن کے پاس تو مزاحمت کا آپشن موجود تھا ،جسے وہ آزمانے پہ اتر آئے ہیں لیکن حکومت کے پاس اس مشکل سے نکلنے کے لئے طاقت کے استعمال کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں بچا لیکن طاقت کا استعمال خود ریاست کے لئے مہلک ثابت ہو گا چنانچہ قومی بقاء کا تقاضہ یہی ہے کہ فریقین آئین و قانون کی چھاوٴں تلے بیٹھ کے مسائل کو سلجھا لیں بصورت دیگر وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔

الجھن یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کو اگر پاکستان میں ضم کر لیا گیا تو کشمیر کی آزادی کا ہمارا روایتی موقف از خود تحلیل ہو جائے گا جسکی جُزیات پہ بحث کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔تاہم بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت غیر معمولی قوانین کی طاقت کو بروکار لا کر مصنوعی سیاسی استحکام سمیت جی بی کو ضم کرنے کے لئے آئینی ترامیم کا بل منظور کرانے کی راہ اختیار کرناچاہتی تھی لیکن اپوزیشن جماعتوں نے مزاحمت کا ناقوس بجا کے حکومتی منصوبہ ناکام بنا دیا۔

آل پارٹی کانفرنس سے نوازشریف کا خطاب اُس سپاہی کی للکار تھی جو مرنے سے قبل مدمقابل پہ فیصلہ کن وار کا تہیہ کر لیتا ہے۔چنانچہ ہرگزرتے دن کے ساتھ اپوزیشن کی مزاحمتی تحریک سیاسی اضطراب کو بڑھانے کے علاوہ گلگت بلتستان کو مملکت کا حصہ بنانے کے امکانات کو دور کرتی جائے گی۔بلکہ یہی تنازعہ ہر روز نئی صورتیں اختیار کر کے ریاست کی مشکلیں بڑھاتا رہے گا کیونکہ میاں نوازشریف نے سیاسی مسلہ کو آئینی تنازعہ میں بدلنے کی خاطر جس مشکل راہ کا انتخاب کیا، پُرخطر ہونے کے باوجود یہی اس وقت کا مقبول ترین بیانیہ ہے،اب فیفتھ جنریشن وار کی کہانی ذرا پیچھے رہ جائے گی،اگر بلوچستان کے بعد جی بی اور پنجاب میں بھی سیاسی مزاحمت بھڑک اٹھی تو سی پیک منصوبہ ناکام اور کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

اب بھی وقت ہے گورنمنٹ جمہوری طریقوں سے اپوزیشن کو انگیج کر کے اس نامطلوب تصادم کو ٹال سکتی ہے جو ہمارے ادارہ جاتی نظام اور جمہوریت کے انہدام کا سبب بنے گا۔الیکشن دوہزار اٹھارہ میں غیر متوقع انتخابی شکست کے بعد صرف مولانا فضل الرحمٰن ہی وہ واحد سیاستدان تھے جنہیں یہ بات سمجھ آ گئی تھی کہ تبدیلی کی یہ نئی لہر آخر کار مذہبی جماعتوں کے سیاسی کردار کی تحدید اور ایک مہیب استبدادی نظام پہ منتج ہو گی اس لئے پہلے انہوں نے مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے روکنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگایا تاہم وہ حالات کے فعال دھارے کا رخ موڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

مولانا صاحب کو چونکہ اپنی سیاسی بقاء کا مسلہ بھی درپیش تھا اس لئے عمیق ہزیمت کے باوجود وہ چین سے نہ بیٹھے،حتی کہ دوسری بار انہوں نے تنہا پرواز کے ذریعے مخصوص حالات پیدا کرنے کی کوشش میں اسلام آباد میں دھرنا دیکر حکومت گرانے کی ناکام کوشش کر ڈالی،بدقسمتی سے یہ مشق ان کے لئے ایسا ٹریپ ثابت ہوئی جو ایک طرف انہیں سیاست کے مرکزی دھارے سے جدا کرنے کا محرک اور دوسری جانب مخالفین کے لئے ان کی پُرشکوہ سیاسی قوت کا درست تخمینہ لگانے کا موقعہ بن گیا۔

لیکن منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح مولانا فضل الرحمٰن نے تمام تر شکر رنجیوں کے باوجود ملک گیر سیاسی جماعتوں سے ربط و تعلق کو برقرار رکھنے کے علاوہ نہایت تیزی کے ساتھ ناکامیوں کے ان صدمات سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پاوں مارے جنہوں نے اسے گھیر لیا تھا۔تاہم ان کی بڑھتی ہوئی فعالیت اسی امر کی عکاس تھی کہ کسی نہ کسی دن وہ اپنی تراشیدہ الجھنوں پہ قابو پا لیں گے۔

نادیدہ خطرات کا کامل ادراک رکھنے والے مولانا فضل الرحمٰن نے سیاسی تنہائی سے بچنے کی خاطر پی پی پی اور نواز لیگ سمیت علاقائی جماعتوں کو بھی خود سے منسلک رکھا اور ڈھائی سال کی جدوجہد کے بعد بلآخر وہ حکومت مخالف مزاحمتی تحریک اٹھانے کے لئے بڑی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔علی ہذالقیاس،موجودہ سیاسی نظام اور اس کی فریب کاریوں سے قطع نظر ہماری سیاست میں میاں نوازشریف،مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن ہی اپنی افتاد طبع کی وجہ سے جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کے کسی عظیم مقصد کی خاطر سب کچھ کر گزرنے پہ تیار نظر آتے ہیں اور انہی کا جارحانہ کردار ہی آخر کار پیش پا افتادہ اپوزیشن کی قوت بن گیا ، یہی شورش اس مطلق العنانی کا مقابلہ کرے گی جس پہ اس نئے سیاسی بندوبست کی بنیاد رکھی گئی۔

حیرت انگیز طور پہ ہماری سیاست کے یہی تینوں کردار ایک دوسرے کی مزاحمتی سوچ سے توانائی حاصل کرتے نظر آئے،دوہزار اٹھارہ کے جنرل الیکشن کے دوران میاں نوازشریف کے مزاحمتی کردار نے مولانا فضل الرحمن جیسے صلح جُو سیاستدان کو برسرمیدان آنے کی راہ دیکھائی،اگر نوازشریف بیٹی کے ہمراہ جیل سے مولانا کی حوصلہ افزائی نہ کرتے تو شاید وہ اس قدر شدت کے ساتھ ریاست سے ٹکرانے کی جسارت نہ کرتے۔

ریاستی مقتدرہ نے کسی نہ کسی طرح نوازشریف کی مزاحمتی سوچوں کو کند کر کے انہیں بیرون ملک جانے اور مریم نواز کو خاموش ہونے پہ راضی کر لیا لیکن مولانا فضل الرحمن کی پیہم للکار نے بلآخر میاں نوازشریف اور مریم نواز کو پھر اسی مزاحمت کی طرف واپس پلٹنے پہ مجبور کر دیا جسے تجّ کے وہ دیار غیر کو سدھار گئے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :