”نئے “پاکستان میں” نیا“ کیا ہے ؟

پیر 30 دسمبر 2019

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

پاکستانی قوم بعض لحاظ سے ایک اچھوتی و عجیب وغریب قوم ہے ۔ہماری سیاسی تاریخ میں چند جملوں، نعروں ،دعووٴں کا استعمال اس تواتر سے کیا گیاکہ یہ اپنی معنویت ،مقصدیت اور مفاہیم کھوچکے ہیں۔ حیرت اس بات پر نہیں کہ مسلسل جھوٹ بولا جارہا ہے دراصل دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ لوگ ان نعروں، وعدوں ،جذباتی باتوں کوسچ مان کر ان پر یقین کرلیتے ہیں ۔
جب سے ہوش سنبھالاہے ایک ہی جملہ سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے ۔

دوسرا جملہ ”یہ فیصلہ ملکی مفاد میں کیا جارہا ہے“یہ پڑھتے ،سنتے ہوئے عمر کی اتنی بہاریں دیکھ لی ہیں مگر ایک مدت سے اپنے ہاں ظلم کی فضا قائم ہے جوختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہی ۔بھوک بدعنوانی کی داستانیں ،بے اعتنائی ،جبر وستم ،بے روزگاری ،لاقانونیت ،ناانصافیاں ،میرٹ کی پامالیاں ،اقربا پروری ،تھانہ کلچر، پٹواری نظام ،دوہرانظام تعلیم ،امیروغریب کے لئے الگ قانون سب ویسے کا ویسا ہی ہے ۔

(جاری ہے)

کچھ بھی تو نیا نہیں ہے ،”نئے“ پاکستان میں” نیا “کیا ہے ؟ وہی انقلاب وتبدیلی کا نعرہ ،وہی جمہوریت کے دعوے، سابق حکمرانوں کی طرح وضاحتیں ،اپوزیشن کی الزام تراشی کی پرانی روش،حکمرانوں کے عوام کی قسمت بدلنے کے وعدے ،وہی سیاسی ہلچل ،وہی ذاتی مفادات والزامات کے گرد گھومتی سیاست اور بے بسی کی علامت بنے عوام خاموش تماشائی ،وہی فرد کی بے حرمتی و بے توقیری ،یہ سب مناظر دیکھے سنے لگتے ہیں۔

حالات ،حکمران ،میڈیا سب کی ایک ہی داستان ۔پروفیسر عنایت علی خان نے اس قومی بے حسی کانقشہ یوں کھینچاہے 
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
کہ لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
 اب تو اس ملکی مفاد والے جملے کویوں پڑھنا چاہئے یہ فیصلہ حکمرانوں ،اشرافیہ ، مقتدر اداروں کی شخصیات، حکمرانوں کے دوستوں کے ذاتی مفاد ات کوتحفظ دینے کے لئے کیا جارہا ہے ۔

بدقسمتی سے ہرگزرتے دن کیساتھ عام آدمی کی زندگی بہتری کی اُمید میں مزید اجیرن ہوگئی ہے ۔گرمیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ،سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ ،ملکی خراب صورتحال کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہیں ،رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کردی ہے ۔کاش ان مجبور ،محکوم ،لاچار ،بے بس،بے کس، مظلوم اور غربت کی چکی میں پسنے والے لوگوں کے لئے بھی کوئی این آر او آتا ۔

کاش ان لوگوں کے لئے بھی کوئی ترمیمی آرڈیننس آتا ،کیا ہی اچھا ہوتا ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک بل اسمبلی سے ا س ملک کے 95 فیصد غریبوں کے لئے بھی آجاتا ۔سوچئے ،بار بار سوچئیے ،سوچنے پر تو ابھی تک کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں ۔ذرا بھی یاد نہیں رکھتے کہ پہلے بھی اسی طرح کا شور مچاتھا ؟اس کا نتیجہ کیا نکلا تھا ؟ ایسا کیا ہوگیا ہے ؟کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟ایسا کون ساظلم ہوگیا ہے جواتنا شور مچاہوا ہے ؟اس ملک میں تویہی ہوتا ہے بڑے بڑے مجرم آزاد پھرتے ہیں اور سائیکل چور ،مرغی چور جیل میں پڑے رہتے ہیں ۔

اشرافیہ کوبچانے کے لئے توراتوں رات قوانین بن جاتے ہیں مگر غریب کی کوئی شنوائی ہی نہیں ہوتی ۔طاقتور کو چھٹی والے دن بھی عدالت لگا کر ضمانت مل جاتی ہے جبکہ عام آدمی کی سال ،دوسال تک تاریخ ہی نہیں پڑتی تو یہ ہے نظام انصاف۔بقول شاعر
سوچتا ہوں کہ اب انجام سفر کیا ہوگا
لوگ بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے
تضادات کے مارے اس ملک میں عوام جملے باز لیڈروں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کی خدمت کررہے ہیں ۔

تضادات صرف قائدین میں نہیں عوام میں بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام کوایسے رہنماؤں کی مضحکہ خیز باتوں میں دانائی نظر آتی ہے ۔میر تقی میر کے بقول 
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں 
من حیث القوم ہمار ی قوم کا مزاج تماش بین بن چکا ہے جس کی وجہ دلیل کی بجائے جملہ بازی کو اہمیت دی جاتی ہے ۔

دلیل کی جگہ بڑھک نے لے لی ہے اور دانائی کی جگہ جگت بازی نے ،ایسے میں تحریک انصاف کے لیڈر ان سے پوچھیں کہ آپ کی حکومت یہ غلط اقدامات کیوں کررہی ہے ؟ تو جواب آتا ہے سابق حکمران چور تھے ،لٹیرے تھے ۔موجودہ حکومت کا طرز حکمرانی وہی سابق حکمرانوں والاہے کہ میرا لیڈر اگر گالیاں دیتا ہے ،مخالفین پر دشنام طرازی کرتاہے توآپکا لیڈر بھی تو یہ کرتا تھا یا کرتا ہے گویا 
Two wrongs make one right پر قوم کی نئی عمارت تعمیر ہورہی ہے ۔

ایک لبنانی امریکی دانشور نسیم نکولس طالب نے 2004 میں Fooled by Randomness لکھی اس میں کامیابی سے متعلق بہت دلچسپ لکھا ہے ۔طالب کا کہنا ہے کہ ہم دنیامیں کامیاب لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایسا کرنے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کامیاب لوگوں کے علاوہ دنیامیں ناکام لوگ ان سے بھی زیادہ تعداد میں تھے جنہوں نے وہی کرناچاہا مگر ناکام رہے ۔

چونکہ وہ ناکامیاں ریکارڈ نہیں کی جاتیں اس لئے ان کی وجوہات بھی سامنے نہیں آتیں اور یوں لوگ کامیاب ہونے کی بجائے ناکام ہوجاتے ہیں ۔یہی فارمولہ انفرادی سے اجتماعی وقومی سطح پر اگر لگائیں تو ہمیں پتہ چلے گاکہ ہم ترقی یافتہ اقوام کی صرف مثالیں دیتے ہیں مگر ان کی کامیابیوں وناکامیوں سے سبق نہیں سیکھتے اور کسی مسیحا کے انتظار میں رہتے ہیں۔

لیڈر تاریخ کے حالات وواقعات کے منطقی نتیجے کاردعمل ہوتاہے۔
 نامور فلسفی ودانشور (ہیگل) G.W.F.Hegel اپنی شہرہ آفاق کتاب ”دی فلاسفی آف ہسٹری“ میں کہتا ہے کہ جب تاریخ Thesis اور Anti Thesis کے بعد Synthesis کے عمل سے گزر رہی ہوتی ہے توجوشخص اس عمل کے دوران قدرتی طور پر فیصلہ کن مرحلے میں کوئی کردار ادا کرتا ہے وہ خود بخود لیڈر بن جاتا ہے مگر بدقسمتی سے قائداعظم محمدعلی جناح کے بعد ہمیں اہل وقابل قیادت نہیں مل سکی ۔

جارج واشنگٹن ،تھامس جیفرسن ،روزویلٹ ،اتاترک ،چرچل ،نپولین،ماؤزے تنگ ،نیلسن منڈیلا جیسے لوگ ہمیں نہیں مل سکے۔اقتدار کے لالچ وتضادات کے بارے میں ایڈورڈشلز (Edward Shellz)نے کہاتھااقتدار کی مخالفت کے پیچھے درحقیقت اقتدار کے ساتھ محبت اور اس کے حصول کی خواہش کارفرماہوتی ہے کیونکہ جب یہ تنقید کرنے والا طبقہ برسر اقتدار آتا ہے تووہ اسی اقتدار کوپسند کرنے لگتے ہیں جس کے خلاف اس سے پہلے جدوجہد کرکے انہوں نے نمایاں حیثیت حاصل کی ہوتی ہے۔

ایڈورڈشلزکی یہ بات عمران خان اور تحریک انصاف پر بلکل صادق آتی ہے جن چیزوں پر تنقید کرکے اور بدلنے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئے تھے آج سب کچھ اس کے برعکس کررہے ہیں ۔
اس وقت شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی فوج ظفر موج ہے ۔پروفیسر وارث میر اپنی کتاب ”فلسفہ خوشامد پاکستان کی درباری سیاست و صحافت “ میں لکھتے ہیں کہ پرانے دور کے بادشاہوں کے مزاج کے بارے میں یہ بات ہمیشہ عام رہی کہ ”گاہ بسلائے دگاہ بہ دشنامے خلعت بہ ہند “ چنانچہ قصیدہ پڑھتے ہوئے بھی دربار میں درباریوں کی نگاہیں فرش سے اوپر اٹھنے کی جرات نہیں کرتی تھیں ۔

چنانچہ درباری کے فن کی کامیابی یہی تھی کہ جس آقا کو ایک دفعہ شیشے میں اتاراہے اسے زندگی بھر شیشے سے باہر نہ نکلنے دے ۔اگر ہم سیاسی جماعتوں کے سرکردہ لوگوں کودیکھیں تو یہ لوگ اپنے لیڈر کی مدح سرائی اور اس کی شان میں قصیدے پڑھنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے اور بات کرتے ہیں ملک میں جمہوریت کی ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی اپنی جماعت میں شخصی وخاندانی آمریت ہے جمہوریت کانام ونشان تک نہیں ہے ۔

جمہور یت توجمہور سے ہوتی ہے مگر یہاں تو خاندان میں جمہوریت کا تصور بھی نہیں ہے ۔ قوم نے عمران خان سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی تھیں مگر وہ امیدیں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں ۔عمران خان بھی خوشامدیوں و ابن الوقت لوگوں میں گھر چکے ہیں جو وزیراعظم کو حالات ومعاملات کی حساسیت کی بھنک نہیں پڑنے دے رہے ۔شمیم ترمذی کہتے ہیں جھوٹ ہر دور میں روپ بدل بدل کر اپنے جوہر دکھاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے بس آج کا جھوٹ قدرے سائنٹفک ہوچکا ہے ۔

کیا آزادی اور سچ کی یہ قندیل ہمارے بیمار معاشرے کے وہ سفاک اور چالاک مفادات روشن کریں گے جو ایک امریکی شاعر ڈونلڈ جسٹس کے الفاظ میں ایسے شکستہ تھرمامیٹر ہیں جن کے ایمان اور شعور کادرجہ حرارت اب صفر پر رک چکاہے 
Poor cracked thermometers stuck now at zero everlasting
 سچ اور آزادی کی جدوجہد کرنے والے مولانا ظفر علی خان کا ایک شعر ہے 
پہلومیں ہودل،دل میں ہوتڑپ،سر پہ ہوکفن،کفن میں ہونہاں
جب جمع یہ اجزاء ہوتے ہیں ،بنتا ہے قوام آزادی کا 
مگر اب ہمارے ملک کے دانشور وصحافیوں کی ایک بڑی تعداد مصلحتوں کا شکار ہے وہ قوم کوحقیقی صورتحال بتانے کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے تجزیہ کرتے ہیں ۔

اس گھور اندھیرے میں سچ کی قندیل روشن کرنے والے کون ہونگے ؟والٹر لپ مین( Walter Lippman )امریکہ کے صاحب اثر ورسوخ صحافی تھے اس نے ”رائے عامہ “Public Opinionکے عنوان سے کتاب لکھی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ قوموں کا رویہ ،ایک دوسرے کے بارے میں ،اس تصویر کے مطابق بنتا ہے جوان کے ذہنوں میں تشکیل پاتی ہے اور اس تصویر کوبنانے میں ان معلومات کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے جوکسی معاشرے کے عام انسان تک پہنچائی جاتی ہیں ویسی ہی تصویر ان کے ذہن میں بنے گی ۔

تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی معاشرے کی مقید اور پابندیوں میں جکڑی ہوئی صحافت اس معاشرے کی ناکامیوں اور کمزوریوں کی عکاسی کیسے کرسکتی ہے ؟ 
شہرہ آفاق اطالوی اہل قلم Albien Count Yittonio نے اپنی کتاب Lella Ummide میں (جوانقلاب فرانس سے کچھ پہلے منظر عام پر آئی ) میں لکھا ہے ۔استبداد نے غلام قوموں کو یقین دلا دیا ہے کہ حقوق مانگنے والے’ مجرم ‘اور حقوق چھوڑنے والے’ وفادار‘ ہیں ۔

’مظلوم‘ اگر شکایت کرے تو’مفسد‘،سست اور ناکارہ ’متدین ‘ہے ،غیرت ’عداوت ‘ہے ،خودادری ’سرکشی ‘ہے ،حمیت ’دیوانگی‘ ہے انسانیت ’حماقت‘ ہے رحم وکرم’ بیماری‘ ہے ،ریااور منافقت’ تدبر‘ ہے ،مکاری’ دانائی ‘ہے اور خوشامد’ اخلاق‘ ہے ۔ہمارے ملک کی اشرافیہ و نام نہاد انٹیلجیشیا (Intelegensia)کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔ہمارے نظام کا ایک اور المیہ نظام انصاف سے جڑا ہوا ہے ۔

نظریہ ضرورت کی تحت بہت سے ایسے فیصلے کردئیے جاتے ہیں جن کے اثرات سے قوم متاثر ہوتی ہے ۔
اب آتے ہیں اس وقت نیب ترمیمی آرڈیننس کے بعد ملک میں سیاسی وسماجی حلقوں میں پیدا ہونی والی تشویش پر ۔اس آرڈیننس کے بعد عوام کو اندازہ ہوا کہ احتساب کا ڈرامہ ولولی پاپ بھی رانگ نمبر نکلا۔ اب پتہ چلاکہ احتساب کا نعرہ بھی دھوکہ وفریب تھا۔لوٹی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں آنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ۔

عمران خان اور مقتدر اداروں نے کرپٹ مافیاز کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں ۔نیب ترمیمی آرڈیننس سے بیک جنبش قلم 110 میگا سکینڈلز نیب کے دائرے سے باہر ہوگئے ہیں اسے ہم این آراو پلس نہ کہیں تو کیا کہیں۔ عمران خان چیخ چیخ کر اب بھی قوم کو لولی پاپ دے رہے ہیں کہ کسی کو این آراو نہیں دونگا ۔ماتم کناں دانشوران ملت جو ہرروز شب تبدیلی کاماتم سجاتے ہیں وہ سمجھ جائیں یہ بھی” رانگ نمبر“ نکلا۔

جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا 
طرفہ تماشہ یہ ہے اسے وسیع تر ملکی مفاد میں قرار دیکر اس کے دفاع میں بھونڈی توجیحات پیش کی جارہی ہیں ۔عمران خان کو سابق حکمرانوں کی طرح مصلحتوں کا شکار ہوتے ہوئے نظریہ ضرورت اور غلطیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہئے ۔اگر قدرت نے انہیں اقتدار کا موقع دیا ہے تواپنی بے تدبیریوں اور نااہلیوں کی وجہ سے اسے گنوانا نہیں چاہئے ۔

قوم کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے سنجیدہ اور ذمہ دارانہ رویہ اختیارکرنا ہوگا۔اگر انہوں نے یہ قیمتی وقت ضائع کردیا توشاید دوبارہ قسمت کی دیوی انہیں اقتدار کی غلام گردشوں تک نہ لاسکے۔خودہی سوچئیے کتنے حکمران آئے ؟کتنے الیکشن ہوئے ؟کیا کچھ بدلا؟کیانظام بدلا؟یہ نظام،یہ ملک ایسے ہی چل رہا ہے۔مگر مجھے تبدیلی اور سپنوں کا محل دھڑام سے گرتے ہوئے نظر آرہاہے ۔ ن، م ،راشد کی نظم کے اشعارشاید میری اور عوام کی ترجمانی کرسکیں 
فلسفہ گو!
کہاں ہے وہ ردائے آسمانی ؟
کہاں یہ نمرود کی جدائی ؟
توجال بنتا رہا ہے جن کے شکستہ تاروں سے اپنے موہوم فلسفے کے ہم اس یقین سے 
ہم اس عمل سے 
ہم اس محبت سے 
آج مایوس ہوچکے ہیں 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :