اکھاڑ بچھاڑ!!!

ہفتہ 4 مئی 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

        
وزیراعظم عمران خان سے متعدد سیاسی  اختلافات کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا ناکام ہونا ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ لہذٰا  شریفوں اور زرداریوں کے مقابلے میں عمران خان کی سیاسی کامیابی کی  خواہشمند ہوں    ۔ اگرچہ موجودہ  حکومت کے کئ سیاسی فیصلے کمزور ہیں اور عمران خان کی ٹیم کی نالائقی بھی ثابت ہوگئ اور  وزیراعظم عمران خان نے اپنی کابینہ میں جو غیرفطری تبدیلیاں کی ہیں , وہ یقیناً ناقابلِ فہم ہیں ۔

آپ نے تو نیا پاکستان بنانا تھا اور تبدیلی لانی تھی ۔ مگر سچ یہ ہی ہے کہ آپ کی ٹیم عملاً اپنے منشور پر عملدرآمد نہیں کرسکی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس اسد عمر کے رخصت ہونے کا ہوا ہے۔ یقین نہیں ہوتا کہ ایک اتنا قابل اور اہل شخص کیسے ناکام ہوگیا؟؟؟ لگتا ہے کہ ضرور اسد عمر کو ناکام ثابت کرنے کےلیے سازشوں کا جال بنا گیا۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں کئ مفروضے پیش کیے جاسکتے ہیں مثلاً چونکہ بیوروکریسی میں تاحال شریفوں کے وفادار موجود ہیں ۔

لہذاٰ ہوسکتا ہے کہ اسد عمر کو غلط مشورے دئیے گئے ہوں ۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ چونکہ اسد عمر کا شمار تحریک انصاف کے انتہائی اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر سے ہی کچھ لوگوں نے اسد عمر کو راستے سے ہٹانے کےلیے درباری سازشوں کا سہارا لیا ہو۔ اس بات کو تقویت دینے میں دو باتیں انتہائی قابلِ غورہیں ۔ پہلی یہ کہ اسد عمر کے ساتھ وزراء سے اختلافات اور کابینہ اجلاسوں کے دوران مبینہ باہم تلخ کلامی اور دوسرے یہ کہ اسد عمر کے خلاف اپنے ہی کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ہتک آمیز مہم شامل ہے۔

کارکنوں کی جانب سے اپنی ہی سینئر قیادت  کے خلاف اس قسم کی احمقانہ مہم کے پیچھے ضرور کوئی سازش کارفرما تھی ۔ ورنہ کارکن کا اپنے سینئرز پر اس طرح حملہ آور ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جو لوگ اس مہم جوئی کے پیچھے تھے , وہ یقیناً ایسی احمقانہ مہم جوئی کرکے اسد عمر سے زیادہ پی ٹی آئی کے سیاسی تشخص کو زیادہ نقصان پہنچا چکے ہیں مگر انہیں شاید اس کا ابھی ادراک نہیں ہوا۔

اس ضمن میں تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران اسد عمر نے چونکہ مبینہ طورپر روایتی جی حضوری سے گریز کیا , جس کی وجہ سے انہیں وزارت سے ہاتھ دھوناپڑے۔ اس مفروضے کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد وطن واپسی پر اسد عمر نے کوئی میڈیا بریفنگ نہیں دی تھی ۔
اگر کابینہ میں غیرفطری ردوبدل کی بات کی جائے تو یہ بات ورطہ حیرت میں ڈالنے کےلیے کافی ہے کہ اکھاڑ بچھاڑ کے بعد ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے جوکہ تحریک انصاف سے کوئی خاص نظریاتی وابستگی نہیں رکھتے بلکہ پارٹیاں بدلتے رہے ہیں اور ماضی کی حکومتوں میں بھی وزارتوں میں حصہ وصول کرچکے ہیں ۔

گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ الیکٹیبلز اور ٹیکنوکریٹس نے نظریاتی لوگوں کی جگہ لینی شروع کردی ہے۔   فردوس عاشق اعوان , شاہ محمود قریشی ,  فواد چوہدری , فہمیدہ مرزا , نور الحق قادری , مخدوم خسروبختیار , شیخ رشید احمد  , فروغ نسیم , زبیدہ جلال, عمر ایوب وغیرہ  وہ الیکٹیبلزہیں جوکہ آصف زرداری یا مشرف دور کی یاددلاتےہیں جبکہ عبدالحفیظ شیخ بھی زرداری دورکےآزمائےہوئےٹیکنوکریٹ ہیں ۔

تو جنابِ وزیراعظم پوچھنا یہ تھا کہ تبدیلی کہاں     آئی ہے ؟؟؟ اسی طرح پنجاب میں عثمان بزدار     کی کمزور انتظامی صلاحیتوں پرسوائے     افسوس کےاور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پنجاب میں سیاسی جوڑتوڑ اورشدید دھڑے بندی جاری   ہے , جوکہ تشویشناک ہے۔  مگراس  سب  کچھ کے باوجوداگر مولانا فضل الرحمٰن یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان کےبعد وہ شریفوں اور زرداریوں کوحکومت گرانےکی کسی تحریک کےلیے اکٹھا کرنے کی کوشش کریں گے ۔

تو ان کےلیے پیغام ہے کہ کم ازکم شریفوں اور زرداریوں کے مقابلے میں پاکستانی عوام کی اکثریت عمران خان کو ہی سپورٹ کرے گی ۔
کیونکہ عوام  کی اکثریت کو آج بھی وزیراعظم عمران خان کی نیک نیتی , ایمانداری اور خلوص پر پورا اعتماد ہے ۔ اگرچہ اسے توڑنے اور شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرنے کےلیے بھرپور محلاتی سازشیں , ریشہ دوانیاں اور سیاسی جوڑ توڑ کی کوششیں مرکز اور پنجاب دونوں جگہ پر تومسلسل جاری رہتی ہی ہیں ۔ اب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی سویلین حکومت کے مدمقابل لانے کی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ کیونکہ بہت سے لوگوں کےلیے  یہ سول ملٹری آئیڈیل ریلیشنز کا دور کسی طورپر قابلِ  برداشت نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :