کسوٹی !!!

جمعہ 10 مئی 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیےاور بیل آوٹ پیکج کےلیے کم وبیش آئی ایم ایف کی تمام شرائط قبول کرلیں , چنانچہ  آئندہ مالی سال کےبجٹ میں عام آدمی پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا اضافی بوجھ پڑےگا۔ ڈالر, سونے,  پیٹرولیم مصنوعات , بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سےعام آدمی متاثر      ہوگا اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بھی غیرمعمولی اضافے کا امکان ہے۔

                      
حزبِ اختلاف کی جماعتیں تباہ کن اقتصادی صورتحال کو حکومت مخالف تحریک میں بطور ہتھیار استعمال کریں گی ۔ عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جائے گی کہ نئ حکومت کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے اور حکومت خلافِ وعدہ IMF کے در پر کاسہء گدائی لے کر چلی گئ اور بدلے میں غریب آدمی کی زندگی مزید اجیرن کردی ۔

(جاری ہے)

  آصف زرداری نے رمضان کے بعد حکومت گراو تحریک کا عندیہ دے دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن پہلے سے ہی حکومت گراو تحریک شروع کرنے کےلیے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو ایک پیج پر لانے کےلیے متحرک ہیں ۔ مگر ٹھہرئیے !!! یہ وہی ن لیگ ہے جو  نواز شریف کوجلوس کی شکل میں جیل چھوڑنے کےلیے سارا دن اپنے کارکنوں کے  سڑکوں پر نکلنے کا انتظار کرتی رہی ۔ مجھےنہیں لگتا کہ حزبِ ختلاف کی جماعتیں حکومت کے خلاف کوئی واقعی کامیاب عوامی  مہم جوئی کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

نوازشریف کے جیل چلے جانے اور شہبازشریف کے لندن فرار ہوجانے کے بعد ن لیگ میں قیادت کا بحران صاف نظر آرہا ہے۔ اگر شہبازشریف واپس نہ آئے اور مریم نواز کی بطور نائب صدر تقرری پی ٹی آئی نے عدالت میں چیلنج کردی تو مریم نواز کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹک سکتی ہے۔ حمزہ شہباز تاحال لاہور کی حد تک قیادت کرسکتے ہیں ۔ حسن نواز , حسین نواز اور سلمان شہباز وغیرہ کا ملکی سیاست میں دور دور تک کوئی کردار نہیں ۔

ن لیگ میں سیکنڈ لائن لیڈر شپ میں عہدوں کی بندربانٹ سے قیادت کا بحران صاف جھلک رہا ہے۔ شہبازشریف کی وطن واپسی کی یقین دہانیوں کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ موصوف کو ضرور کسی ڈیل کے تحت فرار کروایا گیا۔ اگر  ماڈل ٹاون کیس کے نامزد   شہبازشریف بھی اسحٰق ڈار کی طرح مفرور ہوگئے تو  ماڈل ٹاون کیس کا فیصلہ  کیسےاورکب  ہوگا؟ مجھے لگتا ہے کہ کچھ قوتیں شہبازشریف کو ماڈل ٹاون کیس سے بچانا چاہتی تھیں ۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون پر بننے والی نئ جے آئی ٹی ٹوٹنے اور شہبازشریف کا ای سی ایل سے نام نکلنے اور لندن روانگی کے بعد جلد ہی لاہور ہائی کورٹ کا وہ بینچ تحلیل ہو گیا , جس نے یہ سب فیصلے صادر کیے تھے۔ اوراس کی جگہ بننےوالےنئے بینچ کی سربراہی جسٹس باقرنجفی کررہےہیں ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شہبازشریف اب واپس نہیں آنا چاہیں گے اور علاج کے بہانے لندن میں قیام کو طول دینے کی کوشش کریں گے۔

علاج کے یہ ہی  بہانے اس سے قبل نواز شریف کا  پول بھی کھول چکے ہیں ۔ موصوف چھ ہفتے ضمانت پر رہے مگر اتنا طویل وقت محض چیک اپ  میں گزار دیا اور علاج کی نوبت ہی نہ آئی ۔ اسی صورتحال کے پیشِ نظر ہی سپریم کورٹ نے نواز شریف کو واپس جیل بھیجنے کا فیصلہ دیا ۔ سانحہ ماڈل ٹاون کا ایک اور نامزد ملزم رانا ثناءاللہ مسلم لیگ ن پنجاب کا  صدر منتخب ہو چکا ہے ۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پانچ برس گزر جانے کے باوجود ماڈل ٹاون کیس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں لگ سکا ۔ اتنے سارے ثبوتوں اور گواہوں کی موجودگی کے باوجود آخر کچھ تو پوشیدہ مصلحتیں ہیں کہ معاملہ ایک انچ بھی آگے بڑھنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ ماڈل ٹاون کیس پی ٹی آئی حکومت کےلیے ایک ٹیسٹ کیس تھا ۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے کھرے بہت دور تک جاتے ہیں ۔

پی ٹی آئی حکومت اس معاملے میں مکمل طورپر بے بس نظر آتی ہے۔ عمران خان نے برسراقتدار آنے سے قبل شہدائے ماڈل ٹاون سے انصاف کے جو وعدے کیے , وہ پورے نہ ہوسکے ۔ وزیراعظم عمران خان کی اس معاملے میں پہلوتہی اور خاموشی میں  کیا صلحت ہے ؟ موجودہ  صورتحال میں شہدائے ماڈل ٹاون کو انصاف ملنے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ؟ جب کہ حمزہ شہباز کو چھٹی والے دن بغیر پیشی کے ریلیف مل گیا مگر شہدائے ماڈل ٹاون کے لیے انصاف مانگنے جانے والی بسمہ امجد گھنٹوں انتظار کے باوجود مصنفوں کی توجہ حاصل نہ کرپائی اور چار گھنٹے انتظار کے بعد رو دھو کر لاہور ہائی کورٹ سے مایوس واپس  لوٹ گئ ۔

میں تو کہتی ہوں کہ شہدائے ماڈل ٹاون کے لواحقین کو بس اب اپنا معاملہ اللہ کی عدالت میں چھوڑ دینا چاہیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :