انگور کھٹے ہیں!!!

پیر 7 اکتوبر 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

پاکستانی سیاست کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ دینی جماعتوں اور ان کے قائدین نے مذہب کی آڑ میں کئی بڑے سیاسی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔پاکستانی عوام کا مذہب سے لگاو اس قدر ہے کہ مذہبی جذبات کو بھڑکا کر باآسانی لوگوں کو مشتعل کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ دین کو سیاست سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ مگر مذہب کو سیاست میں ”راہبر“ بنانے کیلئے اسلام کے تصور ریاست اور اصول سیاست سے مکمل آگہی کو عام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

تاکہ محض دین کے نام پر لوگوں کو ذاتی سیاسی مفادات کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔ 
افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں کچھ مذہبی راہنماوں کا قومی سیاسی دھارے میں حوصلہ افزاء نہیں رہا ہے۔

(جاری ہے)

مثال کے طورپر 1976 کے اواخر میں جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے7 مارچ 1977 کو عام انتخابات کا اعلان کیا تو حزب اختلاف کی تمام جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف متحدہوگئیں۔

اوراس اتحاد کو ”پاکستان قومی اتحاد“ کا نام دیا گیا, جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے والد ”مفتی محمود“بنے جبکہ نائب صدر نوابزادہ نصراللہ خان تھے۔ جب یہ اتحادبھٹو ازم کی مقبولیت کے باعث شکست کھا گیا تو شکست خوردگان نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور دھاندلی کا الزام عائد کرکے بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک کااعلان کردیا,جسے ”تحریک نفاذ نظام مصطفی ﷺ“ کا نام دے دیا گیا اور ”اسلام“ کے نام پربھٹو کو بلیک میل کیا جانے لگا۔

جس کا انجام بھٹو کی پھانسی اور ”جنرل ضیاء الحق“ کی ”نفاذنظام مصطفیﷺ“کے نام پر 11 سالہ فوجی آمریت کی صورت میں نکلا۔ 
اگر دیکھا جائے توذوالفقارعلی بھٹو نے بطور وزیراعظم قادیانیوں کو ”غیر مسلم“ قرار دینے کیلئے قانون سازی میں مثبت کرداراداکیا تھا۔ بھٹو نے بطور وزیراعظم پاکستان ”اسلامی سربراہی کانفرنس“ کی میزبانی بھی کی تھی اور وہ ”اتحاد امت مسلمہ“کے داعی تھے۔

سب سے اہم بات یہ تھی کہ بھٹونے پاکستان کو ”اسلامی جمہوری آئین“ کا وہ تحفہ دیا کہ جس کی اصل روح پر عمل کرلیا جائے تو پاکستان ایک عظیم اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بن سکتاہے۔ اس کے باوجود بھٹو کے خلاف مذہب کارڈ کھیلا گیا۔ اصل میں حزب اختلاف مارچ 1977 کے عام انتخابات میں بھٹوکی برتری سے خائف تھی۔ بھٹو ایک عوامی راہنما تھے۔ ان کیخلاف عوام کو اکسانا اور سڑکوں پرلانا کافی مشکل تھا۔

لہذا بھٹو کے خلاف مذہب کارڈ کا تجربہ کیا گیا جو کہ بھٹوکو لیڈوبا۔
آج 2019 میں ”مفتی محمود“ کا بیٹا مولانا فضل الرحمن وہی ”مذہب کارڈ موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف کھیلنا چاہتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو عمران خان جنہوں نے ”تحفظ ناموس رسالت مآب ﷺ“ کا مقدمہ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بخوبی لڑا ہے۔

عمران خان نے ”اسلامو فوبیا“ کے خلاف بھی آواز اٹھائی ہے۔
عمران خان بطور وزیراعظم ”ریاست مدینہ“ کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف کوئی ایسا ٹھوس الزام بھی موجود نہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف ”تحفظ ناموس رسالت مآبﷺ“ کے نام پر کوئی تحریک چلانے کا جواز ملتا ہو۔ ”قانون ختم نبوت ﷺ“کے ساتھ چھیڑچھاڑ تو مولانا کے ہر دلعزیزدوست اور اتحادی نواز شریف کے دورمیں ہوئی تھی۔

تب تو مولانا فضل الرحمن نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ اور جہاں تک دھرنوں کی سیاست کا تعلق ہے تو مولانا اس کے خلاف تھے, پھر اچانک ”کنٹینر“پر چڑھنے کا فیصلہ یوٹرن نہیں تو کیاہے؟ اسلام آباد بند کرکے وزیراعظم عمران خان کی حکومت گرانے میں آخرکون سی مصلحت ہے؟ جو مولانا فضل الرحمن ابھی تک خود بھی واضح نہیں کرپائے۔ بہترہوگاکہ پی ایم ایل این اور پی پی پی اس بلاجواز دھرنے سے دوررہیں۔

 موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے اور دوبارہ انتخابات کروانے کی بات کسی کی ذاتی خواہش یا سیاسی ایجنڈا تو ہو سکتا ہے مگر یہ عوامی مطالبہ ہرگز نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو فقط اپنے والد کی طرح انتخابی شکست کا غم کھائے جارہا ہے اور پھر کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی تو ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں مولانا کا دکھ سب ہی سمجھ سکتے ہیں۔

مگر کسی کے ذاتی سیاسی مقاصد کیلئے حکومت کوگھر نہیں بھیجا جا سکتا۔
 موجودہ حکومت بھی عوامی مینڈیٹ اور ہمدردیاں رکھتی ہے۔ اگرچہ کپتان کو وراثت میں بہت ناگفتہ بہ حالات ملے ہیں اور ان کی ٹیم کی کارگردگی بھی متاثرکن نہیں ہے۔ مگرکپتان کو ابھی مزید وقت ملنا چاہیئے۔ فی الحال حکومت گرانے کی کسی تدبر کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ مگر یہ ضرور ہے کہ کپتان کو داخلی اور خارجی محاذوں پر کارگردگی مزیدبہتربنانی ہوگی۔

اور ساتھ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بار بار ٹیم بدلنے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ اس کیلئے فرسودہ نظام کو بدلنا ہوگا۔ ہر شعبہ زندگی میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔اورغلط اور صحیح مشوروں میں فرق کرنا بھی سیکھنا ہوگا اورفوری طورپر درست اور مئوثرفیصلے کرنے ہوں گے۔ ورنہ ناقص حکومتی کارگردگی سے بے چینی اور مایوسی پھیلے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :