عثمان بزدار پراعتماد کرنا ہوگا!!!

جمعہ 24 جنوری 2020

Ayesha Noor

عائشہ نور

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار ایک سادہ اور خاموش شخصیت کے مالک واقع ہوئےہیں ۔ مگر جب کبھی معاملہ امور حکومت سنبھالنے اور اختیارات کا استعمال کا ہوتو معاملات کو اپنی گرفت میں رکھنے کےلیے سیاسی طورپر  مضبوط , متحرک اور قوت فیصلہ کے حامل لوگ اپنےماتحت افراد سے بہتر کارکردگی اور نتیجہ خیز ٹیم ورک کا حدف حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ۔

وزیراعلیٰ عثمان بزدارکا پہلا مسئلہ  روایتی کردارکی  حامل " افسر شاہی " یعنی بیوروکریسی ہےجو کافی اثرورسوخ کی حامل رہی ہے۔ وہاں صوبائی کابینہ اور اعلیٰ سرکاری افسران کے درمیان فیصلہ سازی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کبھی کبھی رشہ کشی کا منظر پیش کرنے لگتی ہے۔ موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور ان کے وزراء اس وقت ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں ۔

(جاری ہے)

پنجاب میں تازہ ترین اعلیٰ سطحی تقرریوں اور تبادلوں سے کافی حد تک " ان ہاوس " تبدیلی آچکی  ہے , جس کا تذکرہ میں کافی تفصیل سے اپنی ایک تحریر میں کئ تحفظات کا اظہار کرچکی ہوں ۔ اس وقت اگر ایسے نامناسب فیصلے نہ لیے جاتے تو یقیناً آج یہ صورتحال درپیش نہ ہوتی ۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ اراکین پنجاب اسمبلی کو بروقت ترقیاتی فنڈز کا اجراء نہ ہوپاناہے۔

اس حوالے سے  وفاقی وزیر فواد چوہدری بھی وزیراعظم عمران خان کو ایک پبلک خط کے ذریعے آگاہ کرچکے ہیں ۔ اسی تناظر میں پنجاب اسمبلی کے 20 پی ٹی آئی اراکین نے ایک فارورڈ بلاک بنایا ہے۔ بظاہر ایسا لگتاہے کہ یہ فارورڈ بلاک  اراکین پنجاب اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دلانے کےلیے بناہے۔ مگر معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے جتنا کہ دکھائی دے رہاہے۔

اگر گورنر پنجاب کے حالیہ بیانات کو دیکھا جائے تو  پنجاب کابینہ اور افسر  شاہی کے درمیان بڑھتی خلیج کی نشاندہی کےلیےکافی ہے ۔ لہذٰا بعض حلقوں میں یہ خیال ظاہر کیاجارہاہےکہ یہ " فارورڈ   بلاک " وزیراعلی پنجاب کی تائید وحمایت کےلیے  بناہےتاکہ عثمان بزدارکی امورِ حکومت پر گرفت     مزید مضبوط ہوسکے۔ اس   کےعلاوہ پنجاب میں بعض سرکردہ شخصیات جوڑتوڑ کی سیاست میں مصروف ہیں ۔

اس سلسلے میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کا نام عثمان بزدار کے متبادل کے طورپر سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ وفاقی حکومت کی طرح حکومت پنجاب اصلاحات کےلیے خاطرخواہ قانون سازی نہیں کرپائی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ خود پی ٹی آئی کے لوگ معترف ہیں کہ جاگیردارانہ مزاج لوگ جو  پی ٹی آئی میں شامل توہیں مگراصلاحات پر کام کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔


الغرض کپتان کا بے لوث اور مخلص کھلاڑی عثمان بزدار چاروں اطراف سے مسائل میں گھرا ہے۔ اس وقت جو لوگ عثمان بزدار کے خلاف واویلا کررہے ہیں , ان آوازوں کی حمایت نہیں کی جاسکتی ۔ پنجاب کی کارکردگی نہ دکھانے کا الزام لگانے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ضمن میں عثمان بزدار اکیلے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ لہٰذا عثمان بزدار کے خلاف محلاتی سازشوں کی بجائے ان کو سیاسی طورپر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی مدت پوری کرسکیں ۔

خیبرپختونخواہ اور    بلوچستان حکومتوں  کی صورتحال بھی کافی   
گھمبیرہے ۔ یادرہے کہ ہمارے ملک کی تمام تر سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت و اختیار کےحصول کےلیے  رشہ کشی نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ ہمارے ملک کو کبھی  " بابو مزاج " لوگوں نے دیمک کی طرح چاٹ کھایا تو کبھی سیاسی شطرنج کی بساط پر محلاتی سازشی مہروں نے ملک کو سیاسی استحکام حاصل نہ ہونے دیا۔

یہ ہی عناصر " بدعنوانی " کو تحفظ دیتے رہے ۔ اس کے علاوہ   اقرباء پروری اور رشوت ستانی کا بازار بھی گرم رہا۔ " عوام کے منتخب  نمائندوں " کو کام کرنے اور کارکردگی دکھانے کا موقع کم ہی دیاگیا ۔ انتخابی نظام بھی دھاندلی زدہ رہا اور عوام کو اپنے نمائندے شفاف ماحول میں منتخب کرنے ہی نہیں دئیےگئے ۔ اگر طویل جدوجہد کے بعد کوئی اکا دکا عوامی  رہنما ابھرا تو  اس کے راستے میں کانٹے بوئےگئے۔

مگر چور دروازوں سے آنے والے ہمیشہ اقتدار کی آپس میں  بندر بانٹ کرکےعوام   کا خون چوستے رہے۔ اب یہ ایک ایسا سیاسی مافیا کا روپ دھار چکے ہیں جو کہ بدعنوان اور دھاندلی زدہ نظام کا ہرقیمت پر تحفظ چاہتے ہیں کیونکہ اسی میں ان کی بقاء ہے۔ اشرافیہ کو نہ غریب عوام سے غرض ہے اور نہ ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی ہے۔ ایسے نظام میں یقیناً عمران خان اور عثمان بزدار جیسے مخلص لوگ مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ خود عمران خان بھی معترف ہیں کہ ان کا مقابلہ ایک مافیا سے ہے مگر ہمارا فرسودہ نظام اس سیاسی مافیا کو ہمیشہ سے تحفظ دیتا آرہا ہے ۔ اگران سےلڑ نہیں پارہےتو انہیں کم ازکم بےنقاب توکردیں وزیراعظم صاحب !!!  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :