سی پیک کی اہمیت وافادیت!!!

بدھ 9 جون 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ  یعنی CPEC ایک کامیاب تجارتی اور کاروباری شراکت داری ثابت ہوگا۔ تمام تر رکاوٹوں ، مخالفتوں اور الجھنوں سے کامیابی کے ساتھ نبردآزما ہونےکےبعد CPEC ایک حقیقت کا روپ دھار چکاہے اور اپنی کامیابی کی جانب رواں رواں ہے۔   CPEC کےتحت بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کی تعمیر پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غیرملکی سودی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ملک کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختارعلاقے سنکیانگ تک 1200کلومیٹرتجارتی شاہراہ بنائی جاچکی ہے جبکہ 900کلومیٹر پر کام جاری ہے جبکہ 7 بلین ڈالر کی لاگت سے ایک ریلوے لائن ایم ایل ون منصوبہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ لاہور اورینج ٹرین اور مٹیاری ٹرانسمشن لائن کا منصوبہ مکمل ہوچکاہے۔

(جاری ہے)

گلگت سے اسلام آباد تک نئی فائبر آپٹیکل بچھائی جاچکی ہے، جس سے ہمارا انٹرنیٹ کیلئے مغربی ممالک پر انحصار کم ہوجائےگا۔

اب تک توانائی کے 9 منصوبے مکمل ہوچکے ہیں جبکہ 8 پر کام جاری ہے۔ مکمل ہونے والے منصوبوں سے 5340 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی ، جس سے لوڈشیڈنگ کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی ، اور صنعتی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔  اس وقت ملک میں 4 نئےاکنامک زونز کی تعمیر پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ سب سے پہلے مکمل ہونے والے رشکئ اکنامک زون میں پہلی چائینیز اسٹیل مل زیرتعمیر ہے۔

گوادر بندرگاہ میں تجارتی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں جبکہ گوادر نیوسٹی اور گوادر انٹرنیشل ایئرپورٹ زیرتعمیر ہیں جو کہ ایشیاء کا سب سے بڑا ائیرپورٹ ہوگا ۔ 16 کلومیٹر لمبی گوادر ایکسپریس وے جو مکران کوسٹل ہائی وے کو گوادر سے جوڑتی ہے ، بھی مکمل ہوچکی ہے۔ یقیناً سی پیک کے تحت پاکستان میں انفراسٹرکچر پرجو کام ہورہا ہے، اس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئے ہیں ۔

مجوزہ اکنامک زونز مکمل ہونے سے ملک میں صنعتی انقلاب برپا ہوگا اور عوام کو روزگار کے نئےمواقع مہیا ہوں گے۔ صنعتی ترقی سے درآمدات اور برآمدات میں موجود عدم توازن ختم ہوجائے گا اور تجارتی​ شعبہ نئی کامیابیاں سمیٹ سکےگا۔  سی پیک کے راستوں کے تحفظ کےلیے ایک سیکیورٹی فورس کا قیام سی پیک منصوبوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گا ۔  CPEC  پر کم وبیش 55 سے62 ارب ڈالر تک لاگت آئے گی۔

CPEC منصوبہ اگرچہ 2013 میں بنا مگر اس پر کام کی شروعات 2015 میں ہوئیں تھیں ۔ اس منصوبے کے تحت چین اب تک پاکستان میں 25 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل کر چکا ہے جبکہ 30سے 35 ارب ڈالر کے مزید منصوبے آئندہ پانچ برسوں میں مکمل ہوجائیں گے۔اس وقت کئی پراجیکٹ زیر تکمیل ہیں یا اُن پر جلد کام شروع ہونے والا ہے۔ سی پیک کے تحت جو منصوبے لگائے جارہے ہیں ان کی لاگت کا تقریباً 30 فیصد حصہ سستے چینی قرضوں پر مشتمل ہے جبکہ باقی چینی بینکوں اور کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے۔

  چینی سرمایہ کاری نے ناصرف پاکستانی معیشت کو سہارا دیاہے ، بلکہ سی پیک کے ذریعےپاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری نئے مواقع بھی فراہم کردئیے ہیں ، اور کئ ممالک سی پیک میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لےرہےہیں ۔ سی پیک منصوبہ پاکستان کو خطے میں اہم اسٹریٹجک لوکیشن سے فائدہ اٹھانے کا سنہری موقع فراہم کرےگا۔ پاکستان کی گوادر بندرگاہ دنیا کو ایک نیاتجارتی راستہ فراہم کرےگی ۔

جس کی افادیت چین کے ایک اور منصوبے " ون بیلٹ ، ون روڈ " میں پاکستان کی شمولیت سےاوربھی بڑھ جائےگی ۔ ون بیلٹ، ون روڈ رواں صدی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ پاکستان کے علاوہ کم وبیش 70 ممالک ون بیلٹ ، ون روڈ  کا حصہ بن چکے ہیں ، اور یہ 2049 میں مکمل ہوگا ، جس پر 900ارب ڈالرخرچ ہوں گے ۔ دراصل چین پرانی شاہراہ ریشم کے قدیمی راستوں کی تجدید کرکے ون بیلٹ ، ون روڈ کےتحت جو نئی " شاہراہ ریشم " بنائے گا ، وہ ایک بحری راستہ ہوگا۔

  سی پیک موجودہ صدی کے اس سب سے بڑے منصوبے کا ذیلی حصہ ہے، جس سے سی پیک مزید فائدہ مند ثابت ہوگا۔ون بیلٹ ون روڈ کے تحت سی پیک انفرانسٹرکچر کا ایک ایسا بین البراعظمی منصوبہ ہے جو کہ موثر طریقے سے پاکستان کو یوریشیا کا لاجسٹکس مرکزبنائے گا، جس سے یہ عالمی معیشت کا محور ثابت ہوگا۔ بعض حلقوں کی جانب سے ایران چین شراکت داری سے سی پیک کی افادیت پر سوالات​ اٹھائےگئےہیں۔

اگر دیکھاجائے تو چین کی ایران سے نئی شراکت داری اس وقت قائم ہوئی ہے ، جب بھارت کے ایران سے تعلقات انتہائی خراب ہوچکےہیں ۔ بین الاقوامی فورمز پر بھارت نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ووٹ بھی دیا اور امریکی دباؤ پر ایران سے دوستانہ روابط بھی بگاڑلیے ہیں ۔چنانچہ ایران نے بھارت کو چاہ بہار بندرگاہ اور فرزاد۔ بی گیس پائپ لائن منصوبے سے نکال  دیاہے۔

  چین کی ایران کے ساتھ نئی​ 400 ارب ڈالر کی شراکت داری نے ایرانی سرحد سے گوادر بندرگاہ کو لاحق خطرات کو دور کردیاہے۔ اس شراکت داری کے نتیجے میں ایران سے ہمارے تعلقات بہتر ہونے کا ایک نیا موقع بھی سامنے آیا ہے کیونکہ چین کے ساتھ معاہدے کی ایک شق کی روسے ایران اب چین کے ساتھ انٹلیجنس شئیرنگ کو یقینی بنائے گا، لہذٰا اب مزید کلبھوشن نمودار نہیں ہوپائیں گے ۔

اس کے علاوہ چین کی لداخ میں مداخلت بھی سی پیک راستے کو بھارت سے محفوظ بنانے کیلئے اٹھایا جانے والے ایک قدم سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کا ہمیں براہ راست فائدہ یہ ہوا کہ بھارت چین سرحدی کشیدگی کے باعث بھارت پاکستان کے خلاف کسی قسم کا جارحانہ قدم خواہش کے باوجود نہیں اٹھاسکاہے۔ سی پیک کی کامیابی اس منصوبے کے مخالفین امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کی شکست کے طورپر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

  لہذٰا موجودہ حالات کے تناظر میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ چین بھارت کو سی پیک منصوبے میں شمولیت کی دعوت دے گا۔ اب ہمارے پاس حالات کافی سازگار ہیں ، ہمیں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اس ضمن میں کچھ اقدامات پر توجہ دینی چاہئے۔ سب سے پہلے تو گوادر کے مقامی افراد کو اور صوبہ بلوچستان کو خاص طورپر سی پیک کے ثمرات پہچانے کی ضرورت ہے۔

اور دوسرے یہ کہ محصولات یعنی ٹیکس کی چھوٹ دینے میں محتاط حکمتِ عملی اپنانا ہوگی ،  سی پیک سے حاصل ہونے والی آمدنی میں پاکستان کا منصفانہ حصہ یقینی بنانا ہوگا ، اور غیر ملکی اشیاءکی مقامی منڈیوں میں بہتات کی صورت میں مقامی صنعت کے تحفظ کیلئے بروقت منصوبہ بندی کرناہوگی تاکہ سی پیک کو ملکی معیشت کیلئے مزید باعث تقویت بن سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :