بھارت کے غیرمحفوظ ایٹمی اثاثے، دنیاکیلئے خطرناک

بدھ 12 مئی 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

گذشتہ ہفتے بھارتی ریاست مہاراشٹر میں ایٹم بم کی تیاری میں استعمال ہونے والی چوری شدہ یورینیم کی بھاری مقدار پکڑے جانے کی خبر منظر عام پر آئی تھی تاہم اس معاملے پر بین الاقوامی برادری کا کوئی قابلِ ذکر ردِعمل اب تک سامنے نہیں آیاجسے اطمینان بخش قرارنہیں دیاجاسکتا۔ ماضی میں بھی چوری کیے گئے حساس تابکاری مواد کی برآمدگی کے متعدد واقعات بھارت کے مختلف علاقوں میں رونما ہو چکے ہیں جبکہ تازہ واردات میں بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر نے تصدیق کی ہے کہ پکڑا جانے والا یورنییم انتہائی ریڈیو ایکٹو ہے۔

ماہرین کے مطابق دہشت گرد ریڈیو ایکٹو مواد کو کسی بھی روایتی ہتھیار سے جوڑ کر دھماکہ کر سکتے ہیں جسے ڈرٹی بم کا نام دیا جاتا ہے۔ اکیس کروڑ روپے مالیت کے قدرتی یورینیم کا عام لوگوں کے ہاتھ لگنا، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اور دیگر متعلقہ اداروں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

بھارت میں خطرناک تابکار مواد کی چوری کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل 28ستمبر1994ء میں پریس رپورٹس کے مطابق رومانیہ کے حکام نے متعدد ہندوستانی افراد کو گرفتار کیا جو 4.55 کلوگرام یورینیم ٹیٹراکلورائد 25 ہزار ڈالر فی کلو میں فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے اوراسی طرح17اکتوبر1994ء کوچار ہندوستانی دیہاتیوں کو ایسک سے نکالا گیا 2.5 کلوگرام یلو کیک ، یعنی یورینیم فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے اس حوالے سے بجا طور پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ترجمان دفترخارجہ کے مطابق بڑی مقدار میں یورینیم کا ریاستی کنٹرول سے باہر ہونا نااہلی کا واضح ثبوت ہے، ایٹمی مواد کی سیکورٹی تمام ممالک کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔
ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے علاوہ ایٹمی ذخائر بذات خود کس قدر خطرناک ہوتے ہیں، ایٹمی ذخائر میں ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے جو نقصانات ایٹمی تابکاری کی شکل میں پیش آسکتے ہیں اس کی ہولناکی کا اندازہ بھارت کے ایٹمی ذخائر میں ہونے والی تابکاری سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھوپال میں کیسے ہزاروں معصوم انسان پلک جھپکتے ہی لقمہ اجل بن گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسا کوئی واقعہ پاکستان میں پیش آیا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ بھارت نے آسمان سرپر اٹھا رکھا ہوتا بلکہ بیشتر عالمی برادری بھی پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کے معاملے میں نااہل قرار دے رہی ہوتی تاہم انسانیت کے تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ بھارت میں پائی جانے والی اس صورتحال کو دنیا سیاسی مصلحتوں اور معاشی مفادات سے بلند ہوکر دیکھے اور نئی دہلی کو سخت وارننگ دی جائے کہ وہ اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے بندوبست کو بلاتاخیر نقائص سے مکمل طور پر پاک کرے ورنہ جوہری صلاحیت پر متعلقہ عالمی اداروں کی جانب سے پابندی کیلئے تیار رہے۔


پاکستان کو بین الاقوامی برادری نے اسلامی دنیاکا پہلا اور مجموعی طور پر ساتواں ایٹمی ملک مانا ہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ جوہری مسئلہ پر مغرب کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتاآرہاہے کہ پا کستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ اور بہترین کمانڈ اور کنٹرول سسٹم کے تحت محفوظ ہاتھوں میں ہیں، عالمی برادری کو بے جا تشویش نہیں ہونی چاہئے،دوسرے ان کی حفاظت کی ذمہ داری پاک فوج کے پاس ہے۔

پاکستان نے فروری 2000 میں ہی نیوکلیر کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی قائم کر دی تھی جو نیشنل کمانڈ اتھارٹی NCA، سٹرٹیجک پلان ڈویژن SPD، اور سٹرٹیجک فورسز پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر میں نیوکلیئر سکیورٹی کی صورتحال کی جانچ کرنے والے نیوکلیئر سکیورٹی انڈیکس کی تازہ رپورٹ جو23.07.2020کوشائع ہوئی کے مطابق جوہری سکیورٹی کے حوالے سے سب سے زیادہ بہتری لانے والا ملک پاکستان ہے،ایسے ممالک میں جوہری مواد کی ممکنہ چوری کے خلاف اقدامات کی رینکنگ میں پاکستان سب سے زیادہ بہتری لانے والا ملک ہے، پاکستان نے اپنی سابقہ ریٹنگ میں سات پوائنٹس کی بہتری کی ہے۔

پاکستان نے سب سے زیادہ بہتری 'سکیورٹی اینڈ کنٹرول کے حوالے سے اقدامات کی کیٹگری میں کی ہے جو 25 پوائنٹس ہیں۔ نیوکلیئر سکیورٹی انڈیکس کے مطابق اس کی وجہ پاکستان میں اس حوالے سے قانون سازی اور قواعد میں بہتری ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے اسکور میں دور رس بہتری ہوئی بلکہ اس سے سکیورٹی کے حوالے سے بھی فائدہ ہوا۔ 2014 میں پاکستان نے اس کیٹگری میں آٹھ پوائنٹ کی بہتری کی، 2016 میں دو پوائنٹس کی جبکہ 2018 میں چھ پوائنٹس کی بہتری ہوئی۔

2014 میں بہتری کی وجہ جوہری مواد کی موجودگی کی جگہ کی حفاظت کے حوالے سے نئے قوانین بنے۔ 2016 میں پاکستان نے سائبر سکیورٹی کے حوالے سے نئے قواعد بنائے جبکہ 2018 میں جوہری ہتھیار رکھنے والے اس ملک نے داخلی خطرات میں کمی کے حوالے سے اقدامات کی،تاہم پاکستان میں تازہ قواعد سب سے زیادہ بہتری کی وجہ بنے، تازہ انڈیکس میں پاکستان نے کسی بھی اور ملک کی نسبت سکیورٹی اینڈ کنٹرول کے حوالے سے اقدامات کی کیٹیگری میں سب سے زیادہ بہتری حاصل کی۔

نیوکلیئر سکیورٹی انڈیکس کے 2012 میں آغاز کے بعد سے پاکستان کی اس کیٹگری میں 25 پوائنٹس کی بہتری اب تک کی سب سے بڑی بہتری ہے۔نیوکلیئر سکیورٹی انڈیکس کا مقصد دنیا بھر میں جوہری مواد کی سکیورٹی کی صورتحال پر نظر رکھنا ہے۔ اس انڈیکس کا آغاز 2012 میں ہوا تھا اور یہ ہر دو سال بعد اپنی ریٹنگ جاری کرتا ہے۔ اس انڈیکس میں جوہری مواد کی چوری اور سبوتاژ کے حوالے سے درجہ بندی بھی شامل ہوتی ہے۔


دوسری جانب ہماراازلی دشمن اورمکارملک بھارت جوہری مواد کے عدم تحفظ کے حوالے سے سرفہرست ہے جو دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کر سکتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جوہری تنصیبات اور مواد کی حفاظت کے عالمی معیار کے مطابق انتظامات کر رکھے ہیں لیکن یہاں جوہری مواد کی چوری اور سمگلنگ کے واقعات عام ہیں ۔خدشہ ہے کہ یہ موادانتہا پسندوں کے ہاتھ بھی لگ سکتے ہیں۔

بھارتی سائنسدان جوہری مواد، ہتھیار اور ٹیکنالوجی فروخت بھی کرتے رہتے ہیں،بھارت میں ترشول اور آکاش بنانے والے کئی سائنسدانوں کو راز افشا کرنے پر حراست میں لیا گیا۔ بھارت اب تک اپنے کئی سائنسدانوں کو سزائیں دے چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت دوسرے ممالک سے بھی جوہری ہتھیاران کی تیاری میں استعمال ہونے والے حساس پرزے اور ٹیکنالوجی کی چوری میں ملوث ہے،بھارتی اخبارہندوستان ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نیپال کی سرحد سے تابکار مادے یورینیم کی بھاری مقدار سمگل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس واقعہ کو بھارتی حکومت نے چھپانے کی کوشش کی مگر اس کے اپنے ہی ذرائع ابلاغ نے بھانڈا پھوڑ دیا۔

اس انکشاف سے بھارتی حکومت کے ان دعوؤں کی قلعی بھی کھل جاتی ہے کہ بھارت ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کا ایٹمی پروگرام آغاز سے ہی عدم تحفظ کا شکار رہا ہے، بھارت کی ایٹمی تنصیبات سے اب تک متعدد بار جوہری مواد چرایا جا چکا ہے ، بھارت میں انڈر ورلڈ اتنا مضبوط ہے کہ سکیورٹی ادارے بھی اس کے سامنے بے بس ہیں ، جب وہ چاہتے ہیں چوری کر لیتے ہیں یا سائنسدانوں کو اغوا یا قتل کرا دیتے ہیں۔

دسمبر 2006 میں ممبئی کے نواح میں قائم ایٹمی ریسرچ سنٹر سے ایک کنٹینر ایٹمی اسلحہ میں استعمال ہونے والے پرزے لے کر روانہ ہوا اور غائب ہو گیاجس کا تاحال کوئی پتہ نہیں چلایا جا سکا اور بھارت یہ بھی بتانے کو تیار نہیں کہ اس کنٹینر میں کیا کچھ تھا،اس کے علاوہ 1984 سے لے کر اب تک بھارت میں یورینیم کی چوری کے 153کیس رجسٹر کرائے جا چکے ہیں، جس کی پوری دنیا میں اور کوئی مثال نہیں ہے، بھارت میں18ماہ تک 7سے 8کلو گرام یورینیم ایک سائنس دان کی تحویل میں رہا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو سکی،گویا وہاں انوینٹری کنٹرول کا نظام ہی نہیں کہ مواد کی گمشدگی کا پتا چلتا،یہ تو صرف چند مثالیں ہیں کہ بھارت میں ایٹمی تنصیبات اور اس سے متعلقہ لوگ اور مواد کتنا محفوظ ہے اور یقینایہ کسی بھی وقت ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھ بھی لگ سکتا ہے جن کی زندگی کا واحدمقصد ہر غیر ہندو کو ختم کرنا ہے اور مسلمان تو ہر وقت ان کے نشانے پر رہتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود عالمی میڈیا نے ان خبروں کو نشرکیا نہ ہی بھارتی ایٹمی پروگرام پرکوئی سوالات اٹھائے۔


بھارتی ایٹمی ری ایکٹروں کا تو یہ حال ہے کہ ان کی ساخت میں انتہائی ناقص میٹریل استعمال کیا گیا ہے ۔بھارت کے ایٹمی ری ایکٹرز عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ کہیں تو ان کی ساخت میں گڑبڑ ہے تو کہیں ان کا وجود گردو پیش کی آبادی کیلئے خطرہ ہیں۔ اسی لئے بھارتی جوہری ری ایکٹروں سے تابکار مادوں کا اخراج عام بات ہے، 1986 میں مدراس اٹامک پاور سٹیشن کے ایٹمی ری ایکٹر میں دراڑیں پڑ گئیں جسے نہ صرف آئی اے ای اے سے چھپایا گیا بلکہ بھارتی عوام اور پارلیمنٹ کو بھی اس سے بے خبر رکھا گیا،اصولی طور پر اس پاور سٹیشن کو بند کر دیا جانا چاہئیے تھا لیکن عجلت میں غیر معیاری طریقے سے مرمت کر کے پلانٹ کو چالو رکھا گیا، اس مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں دو سال بعد 1988 میں ری ایکٹر سے بھاری پانی کا اخراج شروع ہو گیاجس سے پلانٹ میں تابکاری پھیلنے کی وجہ بے شمار ملازمین متاثر ہوئے اور مئی 1991 میں ری ایکٹر کے اندر زوردار دھماکہ ہواجس میں ٹنوں کے حساب سے پانی پلانٹ میں ہر طرف پھیل گیا، اردگرد موجود سینکڑوں افراد تابکاری کے اثرات کی تاب نہ لاتے ہوئے لقمہ اجل بن گئے، چار سال تک یہ پلانٹ مکمل طور پر تباہ حال کھنڈر کا نمونہ پیش کرتا رہا۔

نیو دہلی سے 180 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ناروڑااٹامک پاور پلانٹ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی اس ٓگ سے نصف سے زیادہ مشینری پگھل گئی اس کی وجہ بھی پلانٹ کی تنصیب میں ناقص میٹریل کا استعمال تھا۔بھارتی شہر کرناٹک میں ایٹمی ری ایکٹر میں دراڑیں پڑ گئیں جس کے نتیجے میں تابکاری پھیلنے سے بے شمار ملازمین متاثر ہوئے اس کے ساتھ ہی تابکار پانی قریب کے کنویں میں چلا گیا اس کنویں کاپانی پینے والے دیہاتی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔

گجرات میں واقع کاکڑا پور ایٹمی پاور پلانٹ سے تابکاری کا اخراج ہوا،پلانٹ کا کنکریٹ سے تعمیر کردہ گنبد اپنے ہی وزن کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین بوس ہو گیا۔صوبہ مہاراشٹر میں ساحل سمندر کے قریب تری پور ایٹمی پلانٹ واقع ہے اس کے گرد موجود تین ہزار گاؤں تابکاری سے آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں بلکہ سمندری حیات بھی تابکاری اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔

اسی طرح حیدر آباد میں نیوکلیئر فیول کمپلیکس میں دھماکے کے بعد آئی اے ای اے نے بھارت کے ایٹمی بجلی گھروں کے تفصیلی معائنے کے لئے بھارتی حکومت سے رابطہ کیا تو بھارت نے اسے مداخلت قرار دیتے ہوئے تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر بھارت کے تمام ایٹمی بجلی گھروں کے بارے میں آئی اے ای اے نے رپورٹ جاری کر دی کہ یہ سب غیر محفوظ اور انسانی و قدرتی حیات کے لئے انتہائی خطرناک ہیں ان بجلی گھروں کے گرد قانونی ضابطوں کے مطابق کم از کم پانچ کلومیٹر تک انسانی آبادی اور کھیتی باڑی نہیں ہونی چاہئیے جبکہ بھارت میں ان عالمی قوانین کی کبھی پرواہ نہیں کی گئی۔


خطرناک جوہری مواد کے عام ہاتھوں میں پہنچنے سے واضح ہو گیا ہے کہ بھارت ایٹمی مواد کے تحفظ کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دار ملک ہے،پاکستانی دفتر خارجہ کابھارت میں یورینیم کی چوری پر اظہار تشویش بالکل بجا اور درست ہے ،حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ بھارت جس نے سب سے پہلے ایشیا میں ایٹمی دھماکے کئے اور کئی مواقع پر ایک ایٹمی ملک کے حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ،اسکی سرگرمیوں سے امریکہ اور مغربی دنیا نے چشم پوشی کر رکھی ہے اور اسے ایٹمی کلب کا رکن بنا رکھا ہے، اس کے بر عکس پاکستان کو جس نے ہمیشہ ایک انتہائی ذمہ دار ایٹمی ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے نشانے پر رکھا جاتاہے اگر اس قسم کا واقعہ پاکستان میں ہوتا تو بھارت ہی کیا پوری دنیا میں طوفان اٹھ کھڑا ہو تا۔

بھارت میں ایسے خطرناک مواد کی چوری اورخطرناک غیرمحفوظ ایٹمی اثاثوں پر عالمی طاقتوں کی خاموشی اور دوغلا پن کئی سوالات کو جنم د یتاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ ختم کرانے کے دعویدار ممالک اور ادارے بھارت کے خلاف اس قسم کے واقعات پر جو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں پر کارروائی کریں اوربھارت کے نیو کلیئر پروگرام پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا وقت اب آن پہنچا ہے بھارت کو اس حد تک مجبور کر دیا جائے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو یہیں پر منجمد کر دے تاکہ بھارت کے غیرمحفوظ ایٹمی اثاثے جواس وقت دنیاکیلئے خطرناک سیکیورٹی رسک بن چکے ہیں ،دنیاکوان کی تباہی سے بچایاجا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :