طالبان حکومت ، کون سے ممالک تسلیم کریں گے

بدھ 18 اگست 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

2001 ء میں امریکی حملے کے بعد اقتدار سے محروم ہوجانے والے طالبان 20سال بعد اتوار 15اگست کوفاتح کے حیثیت سے کابل میں داخل ہوئے جبکہ ملک کے صدر اشرف غنی اپنے اہل خانہ کے ساتھافغانستان سے فرار ہوگیا۔اس کی تصدیق افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کی ہے۔

دوسری طرف طالبان نے کابل میں عام معافی کا اعلان کیا ہے اور اپنے مجاہدین کو تشدد سے گریز کی ہدایت دی ہے۔ طالبان نے پہلے ہی اعلان کردیاتھا کہ وہ کابل میں پرامن اقتدار کی منتقلی چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گھنٹوں کابل کا محاصرہ کئے رہنے کے باوجود انہوں نے دارالحکومت پر حملہ نہیں کیا۔ اقتدار کی منتقلی اور عبوری حکومت کے قیام کے متعلق مذاکرات کے درمیان ہی افغان صدر اشرف غنی کے فرار ہوجانے کے بعد طالبان نے اپنے مجاہدین کو اس اندیشے کے پیش نظر کابل میں داخل ہونے اور سیکوریٹی سنبھال لینے کی ہدایت دی کہ کہیں حکومت کی عدم موجودگی میں شہر میں افراتفری اورلوٹ مار کا ماحول نہ پیدا ہوجائے۔

(جاری ہے)

اس کی تصدیق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کی ہے۔ افغان دارالحکومت کابل بغیر کسی مزاحمت کے فتح ہوا، طالبان نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے مجاہدین کو بھی ہدایت دی ہے کہ جولوگ شہر سے نکل جانا چاہتے ہیں، انہیں پرامن طریقے سے نکلنے دیا جائے۔ طالبان لیڈرشپ نے واضح پیغام دیا ہے کہ ”ہم کابل امن کے پیغام کے ساتھ آئے ہیں۔“اس بیچ طالبان کے کابل میں موجود کسی بھی غیر ملکی سفارتخانہ کو بھی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔

اس کے باوجود مختلف ممالک اپنے شہریوں او رسفارتی عملے کو کابل سے باہر نکالنے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف افغان سیاسی قیادت کا ایک وفد اسلام آباد پہنچ چکا ہے مگر ابھی کئی کٹھن مراحل باقی ہیں اب جب دوبارہ طالبان برسر اقتدار آگئے ہیں تو انہیں کون سے ممالک تسلیم کرینگے اور اس حوالے سے پاکستان کے وزیر خارجہ نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ”طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ عالمی رائے عامہ اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کریں گے اس وقت روس ،چین اورپاکستان کے سفارت خانے بدستورقائم ہیں اورکام کررہے ہیں اورخیال کیاجارہاہے کہ سب سے پہلے افغانستان میں طالبان حکومت کو چین سمیت یہ پانچ ممالک روس،ایران،ترکی اورپاکستان تسلیم کریں گے،دریں اثنا چین نے پیر کو واضح کیا کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین نے کہا کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے تیار ہے۔ طالبان کے قبضہ کے بعد چین کی جانب سے یہ پہلا تبصرہ ہے۔ ساتھ ہی روس نے بھی طالبان حکومت کیساتھ کام کرنے کاارادہ ظاہرکیا ہے۔ اُدھرطالبان نے افغانستان کااپناسابقہ رکھاگیانام امارات اسلامیہ افغانستان بحال کردیاہے 2001ء میں امریکہ نے طالبان کی حکومت ختم کرکے کٹھ پتلی حامدکرزئی کی حکومت قائم تھی توانہوں نے افغانستان کانام تبدیل کرکے جمہوریہ افغانستان رکھاتھاجواشرف غنی کی حکومت تک برقراررہا۔

اب سوال یہ ہے کہ دنیاطالبان حکومت کوتسلیم گرے گی یانہیں؟اس وقت وہ فاتح کی حیثیت سے کابل میں داخل ہوئے ہیں انہوں نیٹواتحادسمیت سپرپاورامریکہ شکست دی ہے،وہ اپنی حکومت بنانے کااعلان کرسکتے تھے کیونکہ وہ فاتح تھے لیکن انہوں نے ایسانہ کیااورپرامن اقتدارکی منتقلی کیلئے مذاکرات کوترجیح دی ۔اگروہ ایسانہ بھی کرتے توکوئی بھی ان سے یہ مطالبہ نہیں کرسکتاتھاکیونکہ وہ طاقت کے زورپرجنگ جیت کرکابل میں داخل ہوئے وہ اپنی حکومت کااعلان کرسکتے تھے مگرانہوں نے ایسااس لئے نہ کیاکہ وہ دنیاکو بتانا چاہتے تھے کہ وہ امن پسنداورسب کوساتھ لیکرچلنے والے لوگ ہیں۔


برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اعلان کیا ہے دنیاسے بھی مطالبہ کیاہے وہ طالبان کی حکومت کوتسلیم نہ کریں،کیاواقعی دنیاکیدوسرے ممالک برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کامطالبہ مان لیں گے؟جب 1996ء میں طالبان نے بازورطاقت افغانستان میں حکومت قائم کی اس وقت ان کے چارسالہ دوراقتدارمیں صرف چارممالک جن میں سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،ترکمانستان اورپاکستان شامل ہیں جنہوں نے ان کی حکومت کوتسلیم کیا تھاباقی دنیانے ان سے سفارتی روابط نہ رکھے ۔

جب کہ 20سال بعدطالبان دوبارہ اقتدارمیں آئے ہیں توحالات پہلے والے نہیں ہیں سب سے پہلی بات انہوں نے ایک سپرپاورکوشکست دی ہے جبکہ اس وقت طالبان کے روس ،چین اورایران سے اچھے تعلقات ہیں۔چین نے ایران اورطالبان کے درمیان تعلقات بنوانے میں اہم کرداراداکیاہے ،چین اورایران کے کہنے پرافغانستان کے شیعہ ہزارہ کمیونٹی اورمزارشریف اورافغانستان کے دیگرعلاقوں سے تعلق رکھنے شیعہ طالبان کے ساتھ ہیں اوران کے اہم ذمہ داریاں بھی ہیں اوروہ حکومت کاحصہ بھی ہوں گے ،جس پرایران طالبان کی حکومت کوتسلیم کرلے گا، ایران کوکسی قسم کی اقتصادی پابندیوں کاکوئی خوف نہیں ہے کیونکہ ایران پرپہلے ہی امریکی پابندیاں عائد ہیں،اس کے علاوہ دشمن کادشمن دوست ہوتاہے کے مصداق طالبان نے امریکہ کوشکست دی ہے اس کے علاوہ اسرائیل کیلئے بھی طالبان کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے ،اسرائیل کیخلاف تواناآوازبلندکرنے کیلئے ایران کوطالبان کی حمائت کی ضرورت ہے اس لئے بھی ایران طالبان کی حکومت کوتسلیم کرلے گا،رہی بات سعودی عرب کی توسعودیوں نے دوحہ مذاکرات اورافغان معاملے سے یکسر اپنے آپ کوعلیحدہ رکھااورکوئی مداخلت نہ کی،اب جب ایران طالبان حکومت کوتسلیم کرتاہے توایران کی ضدمیں سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات پاکستان کے ذریعے طالبان حکومت سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں،اسی طرح کابل پرطالبان کے قبضے کے فوری بعدترک صدررجب طیب اردگان کاوزیراعظم عمران خان سے افغانستان سے متعلق فون کرناظاہرکرتاہے کہ ترکی بھی طالبان سے سفارتی تعلقات قائم کرلے گاجبکہ چین ،روس اورپاکستان کے سفارت خانے افغانستان میں معمول کے مطابق کھلے ہیں اورکام کررہے جس سے ان ممالک کی آئندہ کی پالیسی کااندازہ لگانامشکل نہیں ہے کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری اورچین کی ون بیلٹ ون روڈ پالیسی افغانستان کے امن سے وابستہ ہے اورروس بھی افغانستان کے راستے گوادرتک رسائی چاہتاہے اس لئے بھی روس افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلے گا اورساتھ میں افغانستان میں ا من قائم کرنے کیلئے پاکستان کے علاوہ چین اورروس ملکرطالبان کی مددکریں گے،باقی رہیں وسط ایشائی ریاستیں توانہیں بھی دنیاسے جڑنے کیلئے اورگوادرکے ذریعے تجارت کرنے کیلئے افغانستان کی ضرورت ہے اس لئے ان کی پالیسی بھی وہی ہوگی جوروس کی ہوگی ۔

شایداس بارطالبان کواپنے گذشتہ دورکی طرح اس بارزیادہ تنہائی کاسامنانہ کرناپڑے کیونکہ دنیاکی موجودہ سپرپاورامریکہ اوراس کے اتحادی نیٹوممالک کوشکست دیکر فاتح کی حیثیت سے کابل کے صدارتی محل میں داخل ہوئے ہیں اورساتھ میں اس وقت مستقبل کی سپرپاورچین اورروس کی حمایت بھی انہیں حاصل ہے ۔ یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گاکہ طالبان دنیاسے کس طرح کے تعلقات قائم کرپاتے ہیں ۔

بہرحال طالبان کیلئے آنے حالات بہت کٹھن ہونگے اورطالبان کواپنی صفوں پربھی نگاہ رکھناہوگی تاکہ وہ دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہ سکیں اوردوستوں، دشمنوں میں بھی فرق جانناہوگااورطالبان کو یہ یقینی بناناہوگاکہ ان کی سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہ ہوخاص طور پر 'انڈین خفیہ ایجنسی را'پرضرورنظررکھنا ہوگی جس کے بہت سے مراکزافغانستان میں موجودہیں جن سے پاکستان کیخلاف تخریبی کارروائیاں کی جاتی ہیں،ٹی ٹی پی اورپی ٹی ایم کابھی صفایاکرناہوگاتاکہ پاکستان بھی شرپسندعناصرکی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہ سکے۔کیونکہ پرامن پاکستان افغان طالبان کی بقاء کا ضامن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :