
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- ڈاکٹر لبنی ظہیر
- تعلیم، صحت اور نظام قانون و انصاف پر بھی آل پارٹیز کانفرنسیں کیجیے!
تعلیم، صحت اور نظام قانون و انصاف پر بھی آل پارٹیز کانفرنسیں کیجیے!
بدھ 23 ستمبر 2020

ڈاکٹر لبنی ظہیر
(جاری ہے)
اس سیاسی اکٹھ کے اغراض و مقاصد سے قطع نظر،سیاسی سرگرمی کرنا ہر سیاسی جماعت کا قانونی اور آئینی حق ہے۔
2006 میں میثاق جمہورہت ہوا تھا۔ نوے کی دہائی میں بدترین سیاسی حریف رہنے والی دو جماعتیں ماضی کے طرز عمل سے تائب ہوئیں اور مثبت جمہوری روایات کو فروغ دینے کا عہد کیا۔ملکی سیاسی منظر نامے پر اس معاہدے کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔سیاسی مخالفت اور کھینچا تانی کے باوجود کچھ مثبت سیاسی روایات قائم ہوئیں۔ ایک زمانے میں اسحاق ڈار " میثاق معیشت" کی تجویز دیا کرتے تھے۔ مقصد اس تجویز کا یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں ملک کی معیشت کو اپنے سیاسی اور جماعتی مفادات کا نشانہ بنانے سے گریزاں رہیں۔ اس اچھی تجویز پر لیکن عمل نہیں ہو سکا۔خیال آتا ہے کہ کاش حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتیں مل بیٹھیں اور ایک آل پارٹیز کانفرنس معیشت کے حوالے سے برپا ہو۔ غور کیا جائے کہ ایسی کیا غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے ملکی معیشت محض دو برسوں میں انتہائی خستہ حا ل ہو گئی ہے؟۔ کیوں یکدم پاکستانی روپیہ خطے میں موجود تمام ممالک (بشمول بنگلہ دیش اور افغانستان) کی کرنسی سے کم تر ہو گیا ہے؟ ان اسباب کا احاطہ کیا جائے ، جن کی وجہ سے عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ خطے کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ سی پیک کیوں پس منظر میں چلا گیا ہے؟ سوچا جائے کہ کیوں مختصر عرصے میں لاکھوں لوگ خط غربت سے نیچے دھکیلے گئے ہیں؟ کیوں بے روزگاری کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے؟ کیوں کاروباری طبقے میں اس قدر بے چینی پائی جاتی ہے کہ آرمی چیف کو بذات خود ملاقاتیں کر کے کاروباری طبقے کو یقین دہانیاں کروانا پڑتی ہیں؟ ان تمام مسائل پر بات ہو، اپنی غفلت اور کوتاہی کو تسلیم کیا جائے اور اتفاق رائے کیساتھ معاشی بد حالی سے نکلنے کے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔
کاش کبھی تعلیم پر بھی ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا جائے۔غور کیا جائے کہ ستر برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود، ہم کیوں ابھی تک بنیادی معاملات پر یکسو نہیں ہو سکے؟ دنیا چاند پر جا پہنچی ہے، ہم کیوں ابھی تک پرائمری تعلیم کا ہدف حاصل نہیں کر سکے؟ کم وبیش تین کروڑ بچے کیوں اسکولوں سے باہر ہیں؟۔ ڈراپ آوٹ کی شرح کیوں اتنی ذیادہ ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یکساں نظام تعلیم (یکساں نصاب تعلیم نہیں) کے بلند آہنگ نعرے بلند کرنے کے باوجو د ، ا یک طرف ایچی سن کالج اور ایڈورڈ کالج پشاور جیسے بڑے ادارے ہیں، جبکہ دوسری طرف دیہاتوں کے وہ سکول ہیں جہاں کرسی، میز، پینے کا صاف پانی، چار دیواری اور لیٹرین جیسی بنیادی سہولتیں بھی مفقود ہیں؟ اس امر پر غور کریں کہ اعلیٰ تعلیم کے سینکڑوں اداروں کے باوجود ، ہماری ڈگریاں کیوں کاغذ کا پرزہ سمجھی جاتی ہیں؟ کیوں معیار تعلیم گراوٹ کا شکار ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کے حامل نوجوان ڈھنگ سے اردو اور انگریزی کے چند جملے لکھنے بولنے سے قا صر ہیں؟ کیوں ہم اٹھارویں آئینی ترمیم کے تناظر میں جنم لینے والی اڑچنوں کا حل نہیں نکال سکے؟اس پر غور کریں کہ کیوں نامور جامعا ت کے فنڈز میں اس قدر کمی کر دی گئی ہے کہ وہ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں؟ کاش ان تمام تعلیمی مسائل پر بھی کوئی اے۔پی۔سی بلائی جائے۔ کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے۔
شعبہ صحت کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ تعلیم ہی کی طرح صحت کا شعبہ بھی بے سمتی کا شکار ہے۔ایک طرف بجٹ کی کمی درپیش ہے اور دوسری طرف نئی نئی پالیسیاں۔کاش اس حوالے سے بھی کوئی آل پارٹیز کانفرنس ہو۔ سیاسی قیادت مل بیٹھے اور سوچے کہ اگر ریاست اپنے غریب شہریوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کرئے گی تو کیا کسی غیر ملک کی حکومت ایسا کرئے گی؟غور کرنا چاہیے کہ کیوں پنجاب جیسے بڑے صوبے میں کینسر جیسے موذی مرض کے مریضوں کو ادویات کی عدم فراہمی پر سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑتا ہے؟ دنیابھر سے پولیو ختم ہو گیا ہے۔ افریقہ جیسا قحط کا گڑھ بھی پولیو فری ہو چکا ہے۔دنیا میں صرف دو ممالک میں پولیو موجود ہے۔ پہلا ملک ایٹمی قوت پاکستان ہے جبکہ دوسرا برسوں سے خانہ جنگی کا شکار افغانستان ہے ۔ سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اس بیماری کی سرکوبی نہیں کر سکے؟ کیوں ہمارے ہاں نئے نئے پولیو کیسز سامنے آتے رہتے ہیں؟
کاش کوئی آل پارٹیز کانفرنس نظام قانون و انصاف کی اصلاح احوال کیلئے بھی کی جائے۔ یہ معاملہ زیر غور آئے کہ ہمارے ہاں سانحہ موٹروے جیسے جنسی ذیادتی کے اندوہناک سانحے کیوں ہوتے ہیں؟ کیوں معصوم بچے بچیوں کیساتھ ذیادتی کے واقعات معمول بن گئے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ ان جرائم میں ملوث مجرم قانون کی گرفت میں نہیں آتے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جنسی ذیادتی کے 97 فیصد ملزمان عدالتوں میں بری ہو جاتے ہیں اور صرف 3 فیصد سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں؟سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ کیوں شہری کورٹ کچہری کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں؟ کیوں محکمہ پولیس اپنا اعتبار اور ساکھ کھو چکا ہے؟کیوں ہمارے ہاں سانحہ ساہیوال اور سانحہ ماڈل ٹاون جیسے بدترین واقعات ہوتے ہیں؟ اس پر بھی غور ہونا چاہیے کہ کیوں عدالتوں میں مقدمات کا فیصلہ ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں؟ ملک بھر کی عدالتوں میں بیس لاکھ مقدمات زیر التوا ء ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
ہماری سیاسی جماعتیں ضرور سیاسی سرگرمیاں کریں۔ مخالفین کے لتے بھی لیں۔ اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے بھی متحرک ہوں۔ مگر عوام کی زندگیوں سے براہ راست جڑے ان معاملات پر بھی کوئی اکٹھ ہونا چاہیے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر دھرنے ، جلسے، ریلیاں، احتجاج کیے جاتے ہیں ، مگر تعلیم ، صحت، معیشت،روزگار، مہنگائی جیسے موضوعات پر کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی جاتی۔جس دن یہ مسائل سیاستدانوں کی ترجیحات بن گئے، اس دن پاکستانی عوام کی مشکلات کم ہونا شروع ہو جائیں گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.