"حالیہ عالمی وبا، رحمت یا زحمت"

پیر 13 جولائی 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

کورونا ایک طبی وبا ہے, جس کا سفر چائنا سے شروع سے ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.  آٹھ ماہ پہلے جب یہ چائنا میں پھیلنا شروع ہوا تو بیشتر مذاہب سے تعلق رکھنے والے نام نہاد مذہبی سکالرز نے اس کی وجوہات کو حرام اور حلال کھانے سے تعبیر کرنا شروع کیا. ہر مذہب کے نیم حکیم پیرو کاروں نے اپنے اپنے ٹوٹکے بتانا شروع کیے, یہاں تک کے گائے کے پیشاب کو اثر مند بتایا گیا.

کچھ نیم حکیم خطرہ جان قسم کے حکیموں نے شراب میں افادیت کا کہا اور کچھ نے ڈیٹول میں. اس سے کینیا میں تقریبا ساٹھ  لوگ کورونا سے بعد میں مرتے,  ڈیٹول پینے سے پہلے ہی مرگئے.

(جاری ہے)


  کرونا کا پھیلاؤ چائنا کے شہر وہان سے ہوا تو بہت سے لوگوں نے اس پر اپنا فتوی صادر کیا کہ یا تو کووڈ وائرس "لادین" ہے یا پھر یہ کنفوشش مت, تاؤ مت یا بدھ مت سے اس کا تعلق ہے کیونکہ یہ چائنا میں آیا ہے.

مگر پھر اس وائرس نے وہاں تباہی پھیلانے کے بعد اپنا رخ اٹلی ایران اور ساؤتھ کوریا کی جانب کر دیا تو اس وائرس کے لادین اور بدھ مت ہونے سے ذہن ہٹ گیا اور سب نے یہی سوچا کہ نہیں یہ یا تو شیعہ ہے یا پھر مسیحی مذہب سے تعلق رکھتا ہے. مگر پھر اس وائرس نے اپنی سیاحت اور برے اثرات  امریکہ, اسپین اور اسرائیل میں  بھی پھیلا دیے. اب کے مذہب کے کچھ نام نہاد ٹھیکداروں نے اسے پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک سے تعبیر کیا اور کچھ نے اسے یہودی بنا دیا.  بس پھر کیا تھا یہ وائرس انڈیا ,پاکستان, سعودی عرب اور باقی مسلم ممالک میں آکر اپنی شناخت بدلتا ہوا ہندو مت سے مسلمان ہوگیا.

مگر مسئلہ اب یہ پیدا ہوا کہ اب اس کا مذہب بھی فرقوں میں بٹ گیا. کہیں شیعہ تو کہیں شافعی بن گیا. کہیں حنفی تو کہیں بریلوی بن گیا, یا پھر احمدی اور خوارج میں اس کا شمار ہونے لگا. مگر ہوا یہ کہ اس غیر مرئی وائرس نے اب مزید شک میں ڈال دیا  کیونکہ اس کی وجہ سے جہاں ایک طرف چرچ, مندر اور گردوارے  بند ہوئے ,وہیں دوسری جانب مسجدی غیر آباد ہوگئیں .

جس نے انسان کو اللہ کا یہ پیغام دیا کہ اللہ جب بھی چاہے ظالم کی دراز رسی کو کھینچ سکتا ہے. کورونا نے انسان کو اس کی اوقات یاد دلادیں . جو انسان اونچائی پر اڑ رہا تھا اب فلحال وہ صرف زندہ رہنا چاہتا ہے, ایک عام انسان کی طرح. کیونکہ ایک عام انسان بھی تو بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ زندہ ہی رہنا چاہتا ہے اور اس سے اس کا یہ حق چھین لیا گیا ہے .

کہیں سپر پاورز نے , کہیں حاکموں نے , کہیں جاگیرداروں نے, کہیں پولیس نے, کہیں فوج نے ,کہیں عدلیہ نے اور حد تو یہ ہے کہ کہیں اس کے اپنے رشتہ داروں نے مگر اللہ تعالی نے انسان کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ تمہاری اوقات کچھ بھی نہیں ہے تم جو اتنے ظالم بنے ہوئے ہو میرے ایک "کن" کے منتظر ہو .اللہ تعالی نے سب کو ایک ہی مقام پر کھڑا کرکے ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کیا ہے کہ اس کے لیے جیت ہار , پوزیشن , حیثیت, نفع نقصان سب بے فائدہ رہ گئے اور اگر کچھ فائدہ مند رہا تو وہ اس کا زندہ رہنا جو اس کے اختیار سے بالکل باہر ہے ..
   یہ تو سب جانتے ہیں کہ دنیا سمٹ چکی ہے اور گلوبل ولیج بن چکی ہے.

ہم نے جہاں اپنی سرحدیں ایک دوسرے کے لیے کھول دی ہیں تو وہیں ہماری تنگ نظری اورنفرت پسندی نے بہت سے لوگوں کے لیے ان کی اپنی ہی سرزمین  تنگ کردی ہے, جیسا کہ کشمیر, شام, یمن اور فلسطین وغیرہ ,جہاں مسلسل ظلم و جبر ہورہا تھا, بمباری ہو رہی تھی اور کشمیر میں تو پچھلے گیارہ ماہ سے مسلسل کرفیو لگا ہوا ہے اور مسلم ممالک تاحال بجائے امداد کرنے کے ان کے خلاف اتحادیوں میں شامل ہیں یا پھر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں.

مجھے یہاں چند بچوں کی تصویریں بہت یاد آرہی ہیں ایک وہ کشمیری بچہ جو کھڑکی کی اوڑھ سے اپنی بوتل پکڑے رو رہا ہے اور ایک وہ شامی بچہ جس نے مرنے سے پہلے روتے ہوئے کہا کہ وہ اللہ سے سب کی شکایت کرے گا. ایک اور شامی بچہ ایلان جس کی لاش ترکی کے ساحل سے ملی. ایک برمش جس کی ماں کو اس کے سامنے بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا, اور ایک کشمیر کا وہ بچہ جو اپنے دادا کی لاش پر بیٹھا نوحہ کناں ہے.  اس صورت حال کے پیش نظر جب مختلف علاقوں میں کورونا کے مریضوں تعداد اور اموات کے اعداد وشمار پر نظر ڈالی جائے تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ بالا علاقوں میں کرونا کے بہت کم کیس رپورٹ ہوئے ہیں.  اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ وائرس مہلک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان دوست وائرس ہے جس کا مذہب انسانیت سے اوپر کا درجہ رکھتا ہے.
کیونکہ جہاں جہاں انسان اپنے تکبر سے اونچا اڑ رہا تھا ان کی دراز رسی کھینچ چکی ہے.  دنیا کے بڑے بڑے سورما بڑی بڑی ایٹمی طاقتیں اور ان کے سربراہ گھروں میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں.

سارے ممالک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے. دہاڑی والے لوگوں کی کثیر تعداد بے روزگار ہوچکی ہے. میرا جسم میری مرضی والی  آزادی کی دعوے دار عورتیں یا تو نقاب میں آگئی ہیں یا  اپنے ساتھ ساتھ اپنے حامی مردوں کو بھی قیدی بنا چکی ہیں.
     یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وائرس نے انسان کو رب کی شناسائی دی. کافر اور مسلمان سب اسی کے نام کی مالا جنپنے لگے ہیں.

اس نے ایک طرف  لوگوں کو بندگی کے آداب  سکھائے تو دوسری جانب رب سے مانگنے کا طریقہ بھی بتایا. ساتھ ہی ساتھ یہ  فضا دوست وائرس بھی ہے کیونکہ فیکٹریاں بند ہونے کی وجہ سے اور ٹریفک میں کمی کی وجہ سے پوری عالمی فضا آلودگی سے کافی حد تک صاف ہوگئی ہے. اور اس کی وجہ سے کئی موسمی بیماریاں نزلہ زکام اور بخار میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آرہی ہے .باہر کا غیر معیاری کھانا بند ہونے کی وجہ سے بی پی اور شوگر جیسے امراض میں بھی واضح کمی آئی ہے.

اور سب سے بڑھ کر اس نے انسانوں کو ایک دوسرے سے  محبت کا درس دیا. لوگ جو اپنے قریبی رشتہ داروں اور ماں باپ سے دور تھے ایک دوسرے کے لیے دعا گو بن گئے اور ایک دوسرے کی حال پرسی کرنے لگ گئے. اس کے علاوہ سٹریٹ جرائم جیسے چوری, زنا کاری, ڈاکہ ,قتل و غارت گری  میں کمی کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں اس لیے اس وبا کو خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ رحمت خداوندی کہنا بیجا نہ ہوگا کیونکہ اس کی مسلط کی ہوئی چیز کبھی بھی مصلحت سے خالی نہیں ہوسکتی ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :