
"تیل کے غیر قانونی کاروبار پر پابندی اور بلوچستان"
جمعہ 12 فروری 2021

ڈاکٹر راحت جبین
(جاری ہے)
درج بالا مذکورہ واقع کے علاوہ بھی بلوچستان کی سڑکوں پر آئے روز ان تیل بردار گاڑیوں کا تصادم مختلف چھوٹی, بڑی گاڑیوں اور بسوں سے ہوتا رہا ہے. ان حادثات کے نتیجے میں لوگوں کی اموات اور جلنے کے واقعات ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں. مگر ان حادثات کا ذمہ دار صرف اور صرف ان تیل بردار گاڑیوں اور ان کے مالکان پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا.
اس ایکزیکٹو آرڈر کے سلسلے میں اگر بلوچستان کے حوالے سے بات کی جائے تو زمینی حقائق کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ ایرانی تیل کی سمگلنگ پر پابندی سے ملک کے باقی صوبوں کی نسبت بلوچستان معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے. بلوچستان کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے پر اس کا بلواسطہ یا بلاواسطہ اثر پڑا ہے. 2017 کی مردم شماری کے لحاظ سے بلوچستان کی کل آبادی تقریباً 12344408 ہے اورایک محتاط تخمینے کے مطابق تیل کے قانونی یا غیر قانونی ذریعہ معاش سے براہ راست منسلک لوگ بلوچستان کی آبادی کا دس سے بارہ فیصد ہیں جو کہ آٹھ سے دس لاکھ کے قریب ہیں. روزانہ سینکڑوں ٹینکرز اور دیگر ہزاروں کی تعداد میں گاڑیوں سے تیل یہاں سے منتقل ہوتا تھا. اس پابندی سے متعلقہ علاقوں جن میں پنجگور, مند, تمپ, ماشکیل, دالبندین , چاغی, تافتان وغیرہ شامل ہیں, ایک طرف بے روز گاری عروج پر پہنچ گئی ہے تو دوسری طرف ملکی معیشت کو بھی تقریباً سالانہ ساٹھ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے.
جو لوگ براہ راست اس پیشے سے منسلک ہیں ان کے ذریعہ معاش کو دھچکا لگنے کے ساتھ ان افراد کا بھی روز گار متاثر ہوا ہے جن کا گزر بسر اس کاروبار کے مرہون منت ہے جیسا کہ گاڑی چلانے والے ڈرائیور, کلینڈر, ٹائر اور پنکچر والے دکاندار , گاڑی خریدنے اور بیچنے والے شوروم کے مالکان ,کھانے پینے کے اور رہائشی ہوٹل کے مالکان وغیرہ. ان سب کے علاوہ اس فیصلے سے عام عوام بھی بہت حد تک متاثر ہوئی ہے . ٹرانسپورٹ کی نقل و حرکت, ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل, ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں بوجہ ضرورت یا علاج معالجہ اور خریداری کے لیے آنا جانا. مختلف علاقے کے لوگوں کا آپس میں نزدیکی رشتہ داریاں ہونے کی وجہ سے اچھے برے دنوں میں آپس میں ایک دوسرے سے روابط کے لیے آنا جانا وغیرہ, یہ سب معمولات بھی بہت حد تک متاثر ہوئے ہیں. اس تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے مگر رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے. یہ تقریباً 347190 مربع کلو میٹر رقبے پر محیط ہے جو کہ پاکستان کے کل رقبے کا تقریباً ترتالیس اعشاریہ چھ فیصد بنتا ہے. بلوچستان کے آبادی والے علاقے ایک دوسرے سے میلوں کے فاصلے پر ہیں. جنہیں ایک دوسرے سے ملانے کے لیے کچے راستے ہیں. تین لاکھ سینتالیس ہزار کلو میٹر رقبہ کے چوالیس ہزار میں سے صرف چھ ہزار کلو میٹر کے روڈ کم و نا کم پختہ ہیں . باقی سارے روڈ کچے ہیں. یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کاشت کاری یا پھر ایران اور افغانستان سے قانونی اور غیر قانونی تجارت ہے جس میں اشیائے خوردونوش کے علاوہ پٹرولیم اور ڈیزل کا کارو بار بھی ہے. اس صوبے کی ایران کے ساتھ تقریباً 400 کلومیٹر اور افغانستان کے ساتھ تقریباً 1150 کلومیٹر طویل سرحدیں ہیں .انفرا سٹرکچر اور سڑکوں سے ماورا تینتیس اضلاع کے لوگوں کا ایک علاقے سے دوسرے علاقے کا سفر زیادہ تر انہی کچے راستوں سے ہوتا ہے جہاں دور دور تک کوئی ذریعہ معاش, آبادی, یا تیل کے رجسٹرڈ کمپنیوں کے پٹرول پمپ کوئٹہ کے علاوہ باقی ضلعوں میں دستیاب نہیں ہیں, جہاں قانونی تیل کی فراہمی ممکن ہو سکے.
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کرنا بغیر تیل یا ڈیزل کے کیسے ممکن ہوتا ہے. یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر زرعی فصلوں اور ان کی ترسیل سے وابستہ ہے جو کہ تیل کی فراہمی کے بغیر بالکل ممکن نہیں.
جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان ایشیاء کا قدرتی وسائل سے مالا مال امیر ترین خطہ ہے مگر بدقسمتی سے یہاں کی مقامی آبادی پسماندگی میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہیں.
عالمی بینک کے گذشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 30 فیصد ہے. جبکہ بلوچستان میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے 42.2 فیصد ہے اور اگر دیہی آبادی کے حساب سے اس رپورٹ کو دیکھا جائے تو یہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں 62 فیصد بنتی ہے. بھوک اور افلاس سے مرتے لوگوں نے مجبوراً یہ غیر قانونی کاروبار شروع کیا مگر حکومت نے بجائے اسی درست سمت دینے کے دوبارہ ان بارہ لاکھ افراد کو بھوک اور افلاس کی جانب دھکیل دیا.
اصول اور ضوابط انسانوں کے لیے بنتے ہیں. انسانوں کو ان کی وجہ سے در بدر نہیں کیا جاسکتا ہے. اس طرح کی اصطلاحات لانا اور غیر قانونی کاروبار کو ختم کرنا بلاشبہ حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور ہم سب کو اس فیصلے کو سراہنا بھی چاہیے مگر ریاست کی ایک اہم اور اولین ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی بھی علاقے کے لوگوں کو غیر قانونی کاروبار سے پاک کرنے کے لیے وہاں کے لوگوں کے لیے ذریعہ معاش کا کوئی نہ کوئی متبادل انتظام ضرور پیدا کرے تاکہ اس علاقے کے لوگ بھوک اور افلاس سے نہ مریں کیونکہ کاروبار غیر قانونی ہو سکتا ہے مگر زندہ رہنے کے لیے تگ و دو کرنا اور دو وقت کی روٹی کمانا ہر گز غیر قانونی نہیں . کسی ریاست کا اصل مقصد اس علاقے کے رہنے والوں کی زندگیوں کو آسان بنانا ہے نہ کہ مزید مشکلات کی جانب دھکیلنا اور غریب سے اس کے جینے کا حق بھی چھیننا ہے. حکومت کے اس فیصلے سے یہاں کے لوگوں کی معاشی کمر ٹوٹ چکی ہے اور یہ بے روز گاری مایوسی کو جنم دے چکی ہے. اس طرح لوگ تنگ آکر منفی سرگرمیوں کی جانب بڑھ سکتے ہیں. جس میں چوری, ڈاکہ زنی اور دشمن ملک کا آلہ کار بننا بھی شامل ہے. غربت, بے روز گاری , علاقوں کا ایک دوسروں سے دور ہونا, سڑکوں کی عدم موجودگی بجلی, گیس اور بنیادی ضروریات زندگی کی عدم دستیابی یہاں کے دیگر سنگین مسائل میں سے کچھ مسائل ہیں جن سے نپٹنے کے لیے یہاں قانون میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے. قانون لوگوں کے لیے بننے چاہیں نہ کہ لوگوں کو قانوں پر قربان کرنا چاہیے جہاں بات لوگوں کے مفاد عامہ کی آجائے وہاں قانوں میں ترمیم کی گنجائش موجود ہونی چاہیے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے جمہوری اداروں کا عمل میں لانا ناگزیر ہوجاتا ہے. وفاقی اور صوبائی حکومت ملک دوستی اور عوام دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اس خطے میں اتنا کام کریں کہ ترقی کا معیار فائلوں سے باہر بھی نظر آئے اور لوگوں کو غیر قانونی ذریعہ معاش کی جانب نہ جانا پڑے . یا پھر حکومت لوگوں کو ان کے جینے کا حق دیتے ہوئے کم سے کم اس کاروبار کو جس سے لاکھوں افراد کا ذریعہ معاش وابستہ ہے, ریگولائز کرے. یہاں کے عوام کو بے روز گاری سے بچانے کے لیے خصوصی پالیسی مرتب کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے. اس سلسلے میں تیل بردار گاڑیوں کے ڈرائیورز کے لیے اسپیشل ڈرائیوئنگ لائسینس کا اجرا ہونا چاہیے جو ہر خاص و عام کو نہ ملے. تیل کی ترسیل کے لیے مخصوص روٹس مقرر کرنے چاہئیں, قومی شاہراؤں پر ان گاڑیوں کے گزرنے کا وقت مقرر ہونا چاہیے .گاڑیوں کا حجم , سائز اور وزن کا معیار مقرر کرنا چاہیے. تیل برآمد کرنے والی سرحدوں کے مخصوں پوائنٹس پر ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے عملہ کی تعیناتی کی جانی چاہیے. اس سے جہاں ایک طرف عوام کی حالت میں خوش حالی آسکتی ہے تو دوسری جانب بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ریونیو میں بھی پیسہ آسکتا ہے.
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر راحت جبین کے کالمز
-
"سرطان کا عالمی دن"
جمعہ 4 فروری 2022
-
"کیا ہم مردہ پرست قوم ہیں؟"
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
"استاد اور معاشرتی رویہ"
منگل 5 اکتوبر 2021
-
لٹل پیرس کا گورنر ہاؤس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
رشتے کیوں ٹوٹتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
یوم آزادی، کیا ہم آزاد ہیں ؟
بدھ 11 اگست 2021
-
شریکِ جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے
بدھ 28 جولائی 2021
-
"عید الاضحی کے اغراض و مقاصد"
جمعہ 23 جولائی 2021
ڈاکٹر راحت جبین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.