ہر دور کے شاہی رتن

جمعہ 29 مئی 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

دورِ اکبری ہو یا قیامِ پاکستان کے بعد بر سرِ اقتدار سلاطین ہر ایک نے اپنے اپنے دربار میں اپنی اپنی پسند کے رتن رکھے ہیں- یوں تو حکومتیں جمہوری بھی آئیں اور ووٹ سے منتخب نمائندے بھی اسمبلیوں میں پہنچے لیکن ان رتنوں کا ثانی نہ کبھی تھا نہ آج کے دور تک ہے- یہ رتن ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اور اس کی ہر منصوبہ سازی میں شریک بعض تو اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ عوامی منتخب وزیروں کو بیرونِ ملک دوروں پہ دھمکیاں بھی دیتے ہیں-
 وقت نے دیکھا ہے کہ اس ملک میں یہ رتن اپنی دولت اور اعلٰی سطحی رابطوں سے بیگ اٹھاتے آئے بیگ بھر کے یا تو چلتے بنے یا پھر دیمک کی طرح اس کی جڑوں میں یوں بیٹھے کہ ملک ان کا ہی مقروض اور دستِ نگر رہا- بات تبدیلی کے دعوے داروں کی کروں یا ان کے پانچ مشیروں کی - بات ان پندرہ معاونینِ خصوصی کی ہو جو آئے تو جمہوری وزیر اعظم کے ساتھ ہیں لیکن ان کا چناؤ کتنا جمہوری ہے اس پہ سوالیہ نشان ضرور ہیں -
 نوٹوں والے ہیں یا کچھ ہم قافیہ ہیں لیکن کیا کوئی عوام میں سے بھی ہے کہنا بہت مشکل ہے- کہتے ہیں ملک میں تبدیلی جمہوری طریقوں سے آتی ہے اور عوام اپنے نمائندوں سے لاتی ہے- مگر عوام کی شنوائی نہ کل تھی نہ آج ہے- ملک کی ہر ہنگامی صورتحال کا نگہباں ایک ایسا ہی بیگ والا ہے- جب ان بیگ والوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں یہ کیسا نظام ہے جسے حکومت کے لئے عوام چنتی ہے وہ دست و گریباں ہے اور بابو دیہاڑی لگا رہا ہے 
اگر اس کا نام حکومت ہے تو پھر انتخابی عمل پہ بہت سوال اٹھتے ہیں کہ نظام موجودہ ہو یا صدارتی قوم اپنا ایک نمائندہ چنے اور باقی سب ان کا وہی نمائندہ جانے- ہمارے ہاں تو چُنے جانے والے اراکینِ اسمبلی تنخواہ لیتے ہیں کیچڑ اچھالتی تقریریں کرتے ہیں- مسئلہ کرونا ہو یا نہ ہو بات اپنے مطلب کی کرتے ہیں جب واپس جاتے ہیں تو کس بات پہ عوام احتساب کریں احتساب تو اس ذمہ داری پہ ہو جو سونپی جائے کام تو وہ رتن کرتے ہیں جن کا دور دور تک واسطہ عوام سے نہیں ہے- وہ یا تو صاحب کے حلقہء احباب سے ہیں یا ان کی انتخابی مہم میں مال لگا کے مال بنانے والے ہیں 
نام ان کا کیا لکھوں وہ تو ہر حاکم کے اپنے اپنے سرمایہ دار ہیں- کچھ وہ ہیں جو سب کے منظورِ نظر ہیں اور ہر حکومت میں ہیں- اب قارئین ہی فیصلہ کریں کہ ایسے آئے غیر جمہوری لوگ شاہ کے وفادار ہیں یا ریاست کے- ان کی بقا شاہ کی ہاں میں ہاں ملانے سے ہے یا اختلاف کر کے اس ملک میں جب غیر جمہوری لوگ جو کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہیں، پالیسیاں بناتے ہیں تو نتیجے بجلی بنانے کی کمپنیوں جیسے ہی نکلتے ہیں اور ان کے ان معاہدوں کے امین عوام کہاں ہوتے ہیں وہ تو وہی بین الاقوامی رسہ گیر ہوتے ہیں جن کا آج ہمیں سامنا ہے ان کے کیس بھی تو بین الاقوامی عدالتوں میں ہی چلتے ہیں اور سزا ملک کے خزانوں کو ہر دو صورت میں ملتی ہے-
 ان شاہی رتنوں کی موجودگی میں کیا پڑی ہے وزیر اعظم صاحب کو کہ وہ اسمبلی میں آئیں اور منتخب اراکین سے مشورہ کریں نہ پہلے کسی نے کیا نہ اب کوئی کر رہا ہے- سنا ہے کہ ماضی قریب میں یہ فیصلے گھروں میں کھانے کی میز پہ ہوئے یا پھر گھر کے افراد ہی بیرونِ ملک گئے اور معاہدوں پر دستخط ہو گئے -
جہاں تک اسمبلیوں کی بات ہے تو ان کی بے توقیری بھی ہمیشہ سے ہوئی ہے دلوں کے وزیر اعظم ہوں یا انصاف کے منصب پہ متمکن دونوں کب اسمبلیوں میں رو پذیر ہوئے ہیں- نہ کبھی اپنی سنائی اور نہ دوسروں کی سنی ہے آج کے وزیر اعظم اگر ہر بدھ کو جاتے تو اس شور میں کبھی تو انہیں بھی کچھ کہنے کا موقع ملتا جب طرفین کا آمنا سامنا ہی نہیں ہوتا تو پھر یک طرفہ بات ہی ہم تک پہنچتی ہے-حکومتی چند وزیر ہی
اگر ہو سکے تو کچھ نہ کچھ حکومتی دفاع کرتے ہیں لیکن جب وہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کی مشاورت تو ہے نہیں ان حکومتی فیصلوں میں تو وہ بھی کیسے دفاع کریں اور کیسے خوش دلی سے اپنا موقف پیش کریں اسی لئے تو آپس کی گالم گلوچ میں کبھی کورم پورا نہیں تو کبھی واک آؤٹ کے مناظر ہر اجلاس کا حاصل ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو " میں نے خدا کو جان دینی ہے " جیسی ضرب المثال آج اپنا وجود نہ پاتیں اور کچھ عوام کے سامنے بھی آتا وزیر اعظم صاحب کے غیر منتخب ترجمانوں کی ایک قطار ان دو سالوں نے دیکھی اور کسی کی کارکردگی بھی ان کو نہ بھائی منتخب نمائندہ بات کرے گا تو کل لوگوں میں بھی جائے گا جھوٹ بولے گا تو ایک دو انتخابات کے بعد عوام خود باہر کر دیں گے اب عوام کل والی عوام نہیں ہے بھوک افلاس نے اس کی بھی تربیت کی ہے ملک میں دوہری شہریت والا طبیب تو ہسپتال میں سرکاری نوکری پہ تعینات نہیں ہو سکتا لیکن حکومتی فیصلے کرنے کی باری آئے تو اس کی وفاداری معنی نہیں رکھتی پھر امریکہ ہو یا برطانیہ سب چلتا ہے 
 جب ملکی معاہدے ہوتے ہیں تو یہی دوہری شہریت والے لین دین کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور ان کی خدمات ہی سب سے افضل ہیں اور جو اسمبلیوں میں ہیں ماشاء اللہ ان کے بیوی بچے بھی امریکی برطانوی شہریت کے حامل ہیں - صاحب نے صرف اس لئے نہیں وہ شہریت لی کہ اسے حکومت کرنی ہے اثاثوں کی بات کروں تو امریکہ، برطانیہ،جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جسے ممالک میں کس کس کی جائیداد ہے کوئی پوچھنے والا نہیں اور کوئی بتانے والا نہیں تہہ در تہہ چھپی آف شور کمپنیاں اورملوں کے ملازمین کے بینک اکاؤنٹ سے اربوں وسول کرنے والے وہی ہیں جو حکومت میں نہیں کرسی پہ ہو تو پارسا اور نیچے اترو گے تو مجرم-فیصلہ کس نے کرنا ہے کہ نظام جمہوریت یا آمرانہ فیصلے منتخب رکن کرے گا یاشاہی رتن جب تک ان بھول بھلیوں سے نہیں نکلیں گے نہ صاف سیاست دان ملے گااور نہ شفاف حکومت-
شکریہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :