کرپشن تو ہوتی ہے

ہفتہ 19 جون 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ چین بھارت کا تنازعہ ہو یا جو بائیڈن، پیوٹن کے ناکام مذاکرات ۔ بات افغانستان سے انخلاء اور مستقبل کی ہو ہر جگہ پاکستان کا ایک کردار اور مقام نظر آ رہا ہے  جس سے وہ بے خبر ہے یا رکھا جا رہا ہے  کیونکہ کوئی نہیں یہ چاہتا کہ پاکستان کو بھی وہ مقام ملے جہاں  برابری پہ بات کرتا وہ بھی ممتاز ایٹمی طاقت نظر آئے ۔

ایک پاکستانی کے ہم بھی بغلول بنے بیٹھے ہیں  اور بقول میر تقی میر                                          
پتا  پتا ، بوٹا  ، بوٹا  حال  ہمارا  جانے  ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
یقین جانئیے  ہم ہیں کہ یوں الجھے یا الجھائے گئے ہیں کہ ہمیں دشنام طرازی اور گتھم گتھا ہونے کے سوا کچھ سوجھ ہی نہیں رہا ۔

(جاری ہے)

ایک دوسرے کو پنجاب کا کلچر بتاتے اور کتابیں چلاتے جب بٹھا ہی دیے گئے ہیں تو پھر وہی تان تکرار میں چور چور کا کھیل جاری ہے ۔ ساڑھے چار کروڑ یومیہ خرچ کے بعد قوم کو ذہنی کوفت کے سوا کیا ملتا ہے یہ تو مجھے پتہ نہیں لیکن ایک دفعہ حمزہ شہباز شریف صاحب کا بچوں کو دیا درس ضرور سچ لگنے لگتا ہے کہ پیارے بچوں کرپشن ہوا کرتی ہے اور لوگ پانچ سال بعد احتساب اپنے ووٹ سے کیا کرتے ہیں ۔

لیکن جب اسے   اپنامقدر سمجھنے لگتا ہوں تو میرا عظیم الشان ماضی میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ جہاں حاکم کا قدم قدم پہ احتساب بھی ہے قاضی کے سامنے پیشی بھی اور کمر پہ کوڑے بھی ۔ ویسے آج کی کرپشن بھی تو کرپشن نہیں بلکہ وہ بندر بانٹ ہے کہ جس میں سو روپے کے عوض بھی بینک نیلام ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو بینک کے اثاثے ادا قیمت سے زیادہ ہوتے ہیں ۔

بندر بانٹ میں کبھی کبھی تو دل کھول کے یوں نوازا جاتا ہے کہ نوازا جانے والا شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ مجھے تو میرے وزن سے بھی زیادہ میں تول دیا گیا ہے جس کی مثال مواصلات کے شعبے میں موجود ہے ۔ میاں منشا صاحب ، رزاق داؤد ، ندیم بابر ، ملک ریاض اور بہت سے دوسرے صاحبان بجلی ،لینڈ ، چینی ، گندم ، پٹرول  مافیا ز کی صورت  ہر دور میں ہماری حکومت کا حصہ رہے ہیں جہاں پیسہ پھینک تماشا دیکھ کا کھیل انہیں خوب کھیلنا بھی آتا ہے اور کھلانا بھی آتا ہے ۔

رکی فائل کو پہیے لگانے ہوں یا چلتی فائل کو سر پٹ دوڑانا ہو ان سے کوئی راز اور کوئی دام پوشیدہ نہیں ہے ۔ حکمران بھی جانتا ہے کہ کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب مال جیب میں ڈال دیا جائے اور قبول کر لیا جائے وگرنہ زبان کے جمع خرچ پہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ وہ جانتا ہے کہ کالا بریف کیس جب قبول کر لیا جائے گا تو ہی انصاف کی دیوی کی آنکھوں پہ بندھا کالا کپڑا اترے گا اور اسے سبز ہی سبز نظر آئے گا ۔

اگر بی ایم ڈبلیو کی چابی واپس آ گئی تو سمجھو کہ بات جمی نہیں۔ اس سجے منظر نامے کو دیکھ کے جو مجھے سمجھ آتا ہے وہ ایک مثلث اور ریاضی کا کھیل ہے جس کا قاعدہ اوپر اور قاعدہ کی طرفین پہ بیٹھا  حاکم اور سرمایہ کار ہے۔ اس مثلث کے وتر یا ستون اس قاعدہ کے نیچے جہاں ملتے ہیں وہاں پر سہولت کار ہیں۔ سرمایہ کار لگاتا ہے تو کماتا بھی ہے اور حاکم کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے ۔

حاکم کے کھانے کے بعد جب لگانے کا مرحلہ آتا ہے تو اس لگانے میں سب سے پہلے اس کا حصہ سہولت کار کو ملتا ہے جو بریانی کے زور پہ حاکم کا دست و بازو  بھی  ہے اور الیکٹ ایبل  بھی کہلاتا ہے۔اس سہولت کار کا کام ہر جگہ ہر مقام پہ حاکم کا دفاع کرنا ہے چاہے اس کے لئے اسے کلچر بدلنا پڑے یا روایات کو دفن کرنا پڑے۔ عوامی سطح پہ کارکن یا عوام تو گناہ بے لذت کے شکار ہیں  جہاں ملتا تو رال سے ٹپکا ہے لیکن بدلے میں وہ جان کے نذرانے پیش کرتا وفا داری جتاتا سڑکوں پہ جلتا اور مرتا ہے ۔

یہ وہ فین کلب ہے جس کے من میں بستا دیوتا ہی وہ سب کچھ ہے جس کی بلوری آنکھوں پہ وہ  جان وارتا ہے اور اس کی اصل طاقت ہے ۔ یہ فین کلب اپنی اہمیت جانتا ہی نہیں اور یہی فین کلب میرا بھی ٹارگٹ ہے کہ اسے غلامی سے نکالا جائے اور اسے سمجھایا جائے  کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد  ہے  ملت  کے  مقدر  کا  ستارہ
ہر دور میں اس مقدر کے ستارے کو ہی سمجھاتے لوگوں نے زہر کے جام پئے ہیں اور اسی کو اساس بناتے جمہوریت کا پودا  لگانے والوں نے اکائی بتایا  ہے۔

یہ اکائی جب ملتی ہے تو بنتی ہے وہ طاقت جس کا سرچشمہ بنا حاکم کھاتا بھی ہے تو لگاتا بھی ہے ۔ اور اس کے دفاع میں نکلا سہولت کار اسے اپنے در پہ بٹھائے  تھانیدار ، پٹواری  سے فون ملائے ایک زنجیر میں باندھے رکھتا ہے۔  یوں سجتی ہے جمہوریت اور وہ تنظیم سازی جو راتوں کو بھی جاری رہتی ہے
راضی یوں  جمہوریت ان کی سدا ہوتی رہی ہے
رات بھر تنظیم سازی اے خدا ہوتی رہی ہے
یوں بھی اس پنجاب کا کلچر جواں ہوتا   رہا  ہے
سامنے ہرزہ سرائی ، اے  صبا  ہوتی رہی  ہے
خوں  ، پسینے کی  کمائی اپنی  یوں  لٹتی  رہی  ہے
آبرو  نیلام  دنیا   میں   جدا  ہوتی  رہی   ہے
پگڑیاں  سب  کی اچھلتی  سرسے  ایواں میں  رہی  ہیں
بوتلوں  سے گفتگو  جلوہ   نما  ہوتی  رہی  ہے
ٹسوے بہتے ہی رہے ہیں رنج میں غم  سے ہمیشہ
ووٹ کو عزت یہاں  شاہد  عطا  ہوتی رہی ہے
حاکم پاگل نہیں ہے جو اسکولوں کے چھوٹے بچوں کو بھی یہ درس پڑھاتا ہے کہ کرپشن تو ہوتی ہے ۔

وہ جانتا ہے  کہ آج کی تنظیم سازی میں کل کی منصوبہ بندی ہے۔ اس کے لئے وہ قلم خریدے یا قلم کار، اسے سب جائز ہے لیکن آج یہ قلم کی ذمہ داری ہے وہ بالکل نہ بکے اور اسے جہاد سمجھے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کو اس کی اہمیت بتائے اور اسے سمجھائے کہ بریانی کے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :