ہماری فرنٹ لائن کی صورتحال

منگل 12 مئی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

جس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اور ہم نے اپنے گزشتہ کالموں میں مسلسل جس بات کی نشاندہی کی تھی ، وہی سب اب عملاً ہونا شروع ہو چکا ہے ، پہلے اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال کے ڈاکٹرز میں وائرس کی تشخیص ہوئی اور اب ڈیرہ غازی خان میں گزشتہ روز 14 ڈاکٹروں اور ایک نرس میں کورونا وائرس کی تشخیص ہو گئی ہے اور انھیں قرنطینہ منتقل کر دیا گیا ہے۔

ادھر کوئٹہ میں بھی اب تک 12 ڈاکٹرز میں کورونا وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے اور وہ اپنے گھروں میں قرنطینہ میں منتقل ہو چکے ہیں۔ پورے ملک میں اس وقت کم و بیش یہی صورتحال چل رہی ہے۔ حکومتی سنجیدگی کا عالم ملاحظہ کیجیے کہ فرنٹ لائن پر خدمات انجام دینے والوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ نہ ان کے پاس مکمل حفاظتی لباس ہیں اور نہ ہی اپنے بچاوکے لیے ضروری سازو سامان۔

(جاری ہے)

لاہور کے میو ہسپتال میں کام کرنے والے ہمارے ایک عزیز ڈاکٹر کے مطابق حکومت نے ہمیں کسی قسم کا کوئی بھی حفاظتی سامان یاPPE kit فراہم نہیں کی اور ہم میں سے جس سے اپنی مدد آپ کے تحت ممکن ہو سکتا ہے وہ کسی مخیر فرد کے تعاون سے کچھ نہ کچھ انتظام کر کے اپنا کام چلا رہا ہے۔گزشتہ دنوں کوئٹہ کے ڈاکٹروں نے اپنے مطالبات کے لیے ہڑتال کی جنھیں پکڑ کر تھانے میں بند کر دیا گیا ، ان کے مطالبات میں کورونا وائرس کے خلاف مصروفِعمل ڈاکٹرز کے لیے PPE kits کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

چیف آف آرمی سٹاف کو اس مسئلے میں خود مداخلت کرنی پڑی اور ان کے حکم پر کوئٹہ کے ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی سامان کی کوئٹہ ترسیل ممکن بنائی گئی۔
پشاور کے ایک ہسپتال میں مسیحاؤں کو نہایت گھٹیا درجے کی حفاظتی کٹس و دیگر سامان مہیا کیا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا آخر کب تک کیا جا سکتا ہے۔ اگرڈاکٹرز ایسے بڑی تعداد میں بیمار ہونا شروع ہو گئے تو آگے آنے والے مریضوں کا علاج کون کرے گا ؟ سمجھ نہیں آتی کہ حکومت آخر کرنا کیا چاہ رہی ہے۔

ایک طرف خود رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جارہی ہے کہ اپریل کے آخری ہفتے تک متاثرین کی تعداد 50 ہزار ہو سکتی ہے ، دوسری جانب یہ عالم کہ مریضوں کی تو خیر بات ہی نہ کریں ،ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز تک کو وائرس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی بے حسی ہو سکتی ہے ؟یہ ٹھیک ہے کہ ہر ہسپتال میں ہر ڈاکٹر کو حفاظتی لباس کی ضرورت نہیں لیکن کم سے کم ان ڈاکٹرز کو تو حکومت یہ لباس مہیا کرے جو براہِ راست کورونا وائرس کے مریضوں یا مشتبہ مریضوں کا علاج کر رہے ہیں اوران کی دیکھ بھال کر رہے ہیں تاکہ کم از کم وہ تو اس وائرس کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔

کہا تو یہی جاتا تھا اور یہی سنتے آئے تھے کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے ، تو کیا ماں مشکل وقت میں اپنی اولاد کو یوں چھوڑ دیا کرتی ہے ؟ کیا یہی تھا وہ نیا پاکستان جس کا ہماری نوجوان نسل کو چکمہ دیا گیا ؟
یہ رونا صرف ہم ڈاکٹر نہیں رو رہے ، ملک کاسارا باشعور طبقہ یہاں تک کہ عدالتِعظمی ڈاکٹرز کے ساتھ روا رکھے جانے والے طرزِ عمل کا نوٹس لے رہی ہے۔

عدالتِ عظمی کے معزز چیف جسٹس کے ریمارکس پڑھ لیجیے جن کے مطابق حکومت صرف اجلاسوں میں مصروف ہے ، اور کوئی عملی کام نہیں ہو رہا۔ وزرائے اعلیٰ گھروں سے آرڈر دے رہے ہیں اور وفاق سرے کچھ کر ہی نہیں رہا۔سب کو پیسوں کی پڑی ہے اور حکومت لوگوں کو پیسے لینے کا عادی بنا رہی ہے۔ چلیے ہم کسی قابل نہ سہی، لیکن خدارا ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ کی باتوں پر ہی کان دھر لیجیے۔


صوبہ خیبرپختونخواہ جہاں گزشتہ سات سالوں سے تحریکِ انصاف بلا شرکتِغیرے حکمران چلی آرہی ہے ،وہاں کے حالات بھی باقی پورے ملک سے مختلف نہیں۔ وہاں بھی اب ایک ایک کر کے ڈاکٹرز کورونا وائرس میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں جو کہ اربابِ اختیار کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں شعبہ ENT یعنی ناک کان گلے کے پروفیسر ڈاکٹرمحمد جاوید اس وقت کورونا وائرس کی علامات میں شدت اورکورونا کا ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سےCOVID ICU ward کووڈ آئی سی یو وارڈ میں منتقل ہو چکے ہیں۔

ادھرمردان میں DHQ میں اپنے فرائض سرانجام دینے والے ڈاکٹر ضیاالرحمان کورونا وائرس کاٹیسٹ مثبت آنے کے بعد قرنطینہ منتقل ہو چکے ہیں۔ یاد رہے یہ وہی ڈاکٹر ضیاالرحمان ہیں جو YDAیعنی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدے دار ہیں اور جنھوں نے گزشتہ دنوں اپنے ایک سوشل میڈیا پیغام میں حفاظتی لباس کی عدم فراہمی کا ذکر کیا تھااور اس پر حکومتی بے حسی کو اجاگر کیا تھا جس کی پاداش میں ہسپتال کےMS نے انکے خلاف انکوائری شروع کروا دی تھی۔

کوہاٹ سے YDA Kohat Chapter کی صدر نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں دوہفتے قبل اسی بات کی ضرورت پر زور دیا تھا کہ ڈاکٹرز کو کسی قسم کے حفاظتی لباس مہیا نہیں کیے جارہے جو انتہائی ضروری ہیں اور حکومت فوری طور پر اس جانب توجہ دے۔
ادھر گورنمنٹ کے ہسپتالوں کی صورتحال بھی سن لیجیے کہ عملاً بہت سی OPDsمثلاً Eye, ENT, Dentistry, Homeopathy, ان سب کو بند کر دیا گیا ہے۔

اب ان سب کے سپلسٹ ڈاکٹرز کو جن کا ہسپتال میں بظاہر کوئی کام نہیں ، انھیں بھی روزانہ کی بنیاد پر ہسپتال میں حاضر ہونے کا حکم ہے اور وہ اپنی اپنی نوکری کے لیے حاضر بھی ہورہے ہیں۔ آپ ایک لمحہ سوچیے کسی ایک بھی ہسپتال میں ایک بھی کیس مثبت آنے کی صورت میں پورے ہسپتال کو قرنطینہ منتقل کر دیا جائے گا اور ان میں وہ تمام ڈاکٹرز بھی شامل ہونگے جو اس وقت صرف ہسپتال میں حاضری دینے کے لیے آرہے ہیں۔

سمجھ نہیں آتی کہ ہماری وزارتوں میں کس قسم کے دانشور بیٹھے ہوئے ہیں ، جنھیں اس بات کا بھی شعور نہیں ہو پارہا۔ بجائے اس کے کہ جو جو ڈاکٹرز OPD بند ہونے کی وجہ سے فارغ ہیں، انھیں حفاظتی نکتہِ نظر سے گھروں میں رہنے کا حکم دیں تاکہ بوقتِضرورت خدانخواستہ ہسپتال کے ریگولر عملہ کے وائرس سے متاثر ہونے کی صورت میں وہ backup staffکی صورت میں موجود رہیں اور مریضوں کے علاج کا سلسلہ رکنے نہ پائے۔

اس کی بجائے انھیں بھی ہسپتال بلا کر موقع کا انتظار کیا جارہا ہے کہ وائرس حملہ آور ہو تو سب کے سب ایک ساتھ قرنطینہ میں جائیں۔
 اس وبا کے دوران تمام لوگوں کی تمام تر توجہ صرف اور صرف کورونا وائرس کے مریضوں کی طرف ہے۔ صوبائی حکومتیں بھی اسی جانب متوجہ ہیں۔ اس صورتحال میں روزمرہ کے مریض اور ایسے مریض جو پہلے سے کسی نہ کسی مرضمیں مبتلا ہیں جیسے کہ دل کے مریض، شوگر کے مریض ، جگر یا گردوں کے مریض ، یا ایسے ہی دوسرے مریض ، وہ بری طرح نظرانداز ہو رہے ہیں۔

عملاً ان کا کوئی پرسانِحال نہیں رہا۔primary اور tertiary care centers عملاً غیر فعال پڑے ہیں۔ سینئیر ڈاکٹر ز گھروں تک محدود ہو چکے ہیں اور آن لائن اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔بلکہ ہمارے علم میں یہاں تک بھی لایا گیا ہے کہ اسلام آباد کے ایک بڑے نجی ہسپتال میں سیریس مریضوں کو اپائنٹمنٹ کے باوجود دیکھنے سے بھی انکار کر دیا گیا اور انھیں ہسپتال کی حدود کے ا ندر بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا۔

ہماری کارپردازانِحکومت سے پرزور اپیل ہے کہ حکومت فوری طور پر اس جانب توجہ دے اورتمام سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں کو مکمل حفاظتی اقدامات کے ساتھ ایسے مریضوں کو دیکھنے کا پابند کیا جائے۔ ہسپتالوں میں شفٹوں میں سینئیر اور جونئیر ڈاکٹرز کی ڈیوٹیاں لگائی جائیں تاکہ ان بیماریوں میں مبتلا مریض کسی ایمرجنسی کا شکار نہ ہوں اور انھیں بروقت طبی خدمات میسر رہیں۔

کورونا وائرس پھیلنے کے خطرے کے امکان کے پیشِنظر ہر ہسپتال میں علیحدہ کورونا وارڈز بنائے جائیں۔تاکہ ایسے مریض یا مشتبہ مریض ہسپتال آنے والے دیگر لوگوں کے ساتھ گھل مل نہ سکیں۔
پسِ تحریر: 11 اپریل 2020 وفاقی وزیر اسد عمر اور معاونِ خصوصی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے میڈیا بریفنگ میں یہ انکشاف کیا کہ ادارہ NDMAاب تک سترہ لاکھ ماسک، ایک لاکھ تہتر ہزار سرجیکل کیپس، اور پچھتر ہزار N95ماسک ملک بھر کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کو تقسیم کر چکا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ ٹیسٹنگ کٹس کراچی پہنچائی جا چکی ہیں۔دوسری جانب آج ہی سندھ حکومت کے ترجمان نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ پچاس ہزار ٹیسٹ کٹس کراچی پہنچی ہیں لیکن یہ حکومتِسندھ نے خود درآمد کی ہیں۔کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :