کشمیر کوانا کا مسئلہ نہ بنائیں

پیر 4 نومبر 2019

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

حکمران اور سرمایہ دارخود غرض طبقہ اپنے سیاسی اور مادی مفادات کیلئے بر صغیر میں ضروریات زندگی سے محروم اکثریت میں منفی رحجانات کی پرورش کر رہے ہیں، اپنی خامیاں چھپانے کیلئے حکمران طبقہ اور سرمایہ دار سیاسی و انسانی مسئلہ کشمیر کو انا کا مسئلہ بنارہے ہیں۔اسکے علاوہ ہند پاک میں چند سخت گیر موقف رکھنے والے بھی ذاتی مفادات کیلئے مسئلہ کشمیر کوکشمیریوں کی خواہشات کی بنیاد پر حل کر نے میں رکاوٹ ہیں۔

موجودہ بھارتی حکمران انتہاء پسندٹولہ،عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کر نے میں ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور اپنی ساکھ بچانے کیلئے پاکستان دشمنی اور کشمیر کارڈ استعمال کر کے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں،یہ حکمران طبقہ چند برہمنوں اور سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں اور بھارتی اکثریت غربت میں تڑپ رہے ہیں، اور عوام کو پاکستان دشمنی ،کشمیر کی خصوصی حثیت کے خاتمہ اور تقسیم کشمیر کے بعد یہ تاثر دیا جارہا ہے جیسے کہ کشمیر پربی جے پی نے قبضہ کیاہے، بھارتی عوام کو کون سمجھائے، کہ کشمیر پر پہلے ہی بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے،اس حوالے سے اپنے صفوں کے اندر چند نادان کشمیری اور کشمیریوں کے خیر خواہ بھی عوام کو گمراہ اور مایوس کر رہے ہیں، مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کا پہلے ہی راج تھا اور خصوصی حثیت برائے نام۔

(جاری ہے)

بھارتی حکمران طبقے نے میڈیا کو پہلے ہی خرید لیا ہے اور سچ بات کہنے والے کو غدار یا پاکستانی ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے،اس لئے بھارتی عوام حقائق سے بہت دور ہیں اور جن افراد تک حق پہنچا وہ بھارت کو غاصب اور کشمیریوں کو مظلوم قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی فوج کے سپہ سالار بھی سیاسی مقاصد کے علاوہ ضروریات زندگی سے محروم اکثریت کو گمراہ کر نے کیلئے جھوٹے دعویٰ کر رہا ہے۔

پاکستان نے سفارت کاروں اور میڈیا کو دورہ کراکے بھارتی فوج کے سپہ سالار کے جھوٹ کو عیان کیا،احقر نے بھارتی فوج کے سپہ سالار کے دعویٰ کے بعد ہی نیلم ویلی دوستوں سے رابطہ کر کے چند بھارتی صحافیوں کو اس حقیقت سے باخبر کیا تھا کہ یہ سراسر جھوٹا دعویٰ ہے اور ہر یانہ اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی کامیابی کیلئے عسکری سیاسی بیان ہے۔ ذاتی مقاصدکے تکمیل کیلئے پاکستان سمیت دنیا میں بھی کشمیر استعمال کیا جارہا ہے۔

کشمیری اپنے تمام مادی اقدار کو ٹھکراکر پاکستان سے والہانہ عقیدت و محبت کی بنیاد پر مالی و جانی قربانیاں دے رہے ہیں، اور چند تنظیموں اور نادان افراد کشمیر کے نام پر اپنے اثاثے بڑھارہے ہیں، ان تنظیموں اور نادان دوستوں سے گذارش ہے کہ آر پار متاثرمستحق کشمیریوں کو انکا حق دیں اسے پہلے کہ مجبورا ان کے کرتوت و وسیع اثاثہ جات سامنے لاکروہ دنیا و آخرت میں رسواء ہو جائیں۔


مقبوضہ کشمیرکی موجودہ سنگین صورتحال میں مو لانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور حکمرانوں کی نادانیوں کے حوالے سے چند خدشات و گذارشات کے حوالے سے عرض ہے کہ کشمیر کی موجودہ کربناک صورتحال کے پیش نظر پاکستان لوکل اور سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کر نے میں مصروف عمل ہیں، اوربہت کچھ کر نے کی گنجائش ہے۔ان حالات میں تمام آزادی و امن پسند افراد و جماعتوں خصوصاپاک وطن میں دیگر سیاسی، سماجی، انفرادی و اجتماعی سطح پرپاکستانیوں کی ذمہ داریاں وسیع ہیں۔

پاک فوج اور چند سیاسی، مذہبی و سماجی جماعتیں کشمیریوں کے درد کو محصوص کر رہے ہیں، مگر ان گمبھیر حالات میں اہل پاکستان کے احساسات کے بر عکس حکمران طبقہ اور اپوزیشن کے کئی قائدین کشمیرکے نازک و گھمبیر صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں، جس کا واضع ثبوت مسئلہ کشمیر کے بر عکس وہ دوسرے مسائل کو ترجیع دی جارہی ہے۔موجودہ صورتحال میں پاک فوج کے خلاف بیانات،عمران خان کے استعفیٰ ، حکمرانوں کے غیر سنجیدہ بیانات،جمہوری روایات کو پامال کر نے سے صرف پاک دشمنوں کو فائدہ مل سکتا ہے۔

عمران خان کو اپنی ٹیم از سر نو تشکیل دینی چاہئے،مولانا فضل الرحمان سے اختلاف کے باوجود، مدینہ ریاست کا دعویٰ کر نے والے عمران خان کو اخلاق کے دائرے میں رہنا چاہئے،اور اسلامی اقدار سے حسد رکھنے والے فہد چودھری جیسے افراد کے وزیر بننے کی کو ئی گنجائش نہیں، جنکی اسلامی اقدار اور شخصیات کی توہین کر نا ہی انکی سیاست ہے، یہ لبرل دین بیزارمرحوم مولانا مدنی (سیاسی اختلاف کے باوجود) کی قدر کیا جانے، جس نے ساٹھ ہزار ہندو کو حق اسلام تسلیم کر نے کی ترغیب دی۔


بحیثیت تحریک آزادی کشمیر کے اولین حریت پسند ، گواہ اور ظلم بر بریت کے شکار ہو نے کی بنیاد پر غلط فہمی کے آزالہ کیلئے گذارش ہے کہ کشمیر ی اس عظیم تحریک میں روٹی کپڑا یامکان کیلئے قر بانیاں دے رہے ہیں بلکہ بھارت کیطرف سے مالی فوائد، اپنے روزگار، کاروبار کو اسلامی نظریہ کی خاطرقربان کر رہے ہیں، ان مالی فوائد کا پاکستان میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،مکار دشمن اور صفوں کے اندر نادانوں کی طرف سے مایوسیاں پھیلانے والوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے مخلص نظریاتی افراد پاک وطن یا مخلص حریت قائدین کے سامنے سفارشات پیش کریں ، نظریاتی لوگوں کیلئے موجودہ جیو پالیٹکس میں پاکستان کی سالمیت اور تحریک آزادی کشمیر کو ایک دوسرے کیلئے داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا، شام، لیبیا اور دیگر اسلامی ممالک میں انتشار کے بعد اسلام دشمن طاقتوں کے گڑھ جوڈ سے پاکستان کو مٹانے کی سازشیں بنائی جارہی ہیں، ان حالات میں پاک بہادر فوج کئی اطراف سے دشمنوں کی یلغار اور سازشوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، پاک فوج کی وکالت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ احقر پاک فوج کی ہر پالیسی سے متفق ہے، میرے تقاریر، مضامیں گواہ ہے کہ میں امریکہ کیلئے پاک فوج کی قربانیوں سے بہت ہی خفا ہوں ،جو امریکہ دغا باز نکلا،لیکن موجودہ صورتحال میں پاک فوج کے خلاف جذبات بھڑکانے سے صرف دشمنوں کو فائدہ مل سکتا ہے۔

پاکستان کے خلاف دشمنوں کی سازشوں کو مدنظر رکھکر کشمیریوں کو پاک وطن سے گمراہ کرنے والوں کو بھی سمجھانا ہے ، کہ بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے اس مملکت خداد اد کا قیام ایک تحفہ خدا وندی ہے۔ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ علامہ اقبال  اور قائد اعظم محمد علی جناح  کے فکر و عمل کے عین مطابق کشمیر کی آزادی اور پاکستان کو ایک جدید اسلامی ،جمہوری اور فلاحی مملکت کے طور پر تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں اور پر امید ہیں کہ عظیم جدو جہد میں ایک دوسرے کے دست و باز و بنیں گے اور رہنمائی فرمائیں گے۔

مدینہ منورہ سے پاکستان تک کا سفر 14سو برسوں میں طے ہوا،ہم نے مل کر پورا ک یعنی کشمیریوں کو ملا کر پاکستان کو بنانا ہے اور شہداء کی قربانیوں سے بنائے ہوئے اس گلستان کو محبتوں کا مرکز اور امن کا گہوارہ بنانا ہے۔اس مٹی سے محبت اور اس کی خاطر قربانی دینے کیلئے ہمیں ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔نظریہ پاکستان صرف دو قوموں کے درمیان حد فاصل نہیں نظریہ پاکستان اسلام سے وفا کا نام ہے۔

سب سے بڑی بات وہ نظریہ ہے جس پر یہ ملک بنا ہے،وہ اسلامی نظریہ ہے،اسلام کا سکہ حکمران طبقہ، میڈیا اور تمام شعبوں میں رائج کر نا ہے ۔یہ ملک سب سے اہم ہے۔اب ہمیں جاگنا ہوگا،اپنی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور مل کر دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔قوم جاگ رہی ہے اس کا ضمیر جاگ رہا ہے۔پاکستان کا مستقبل پاکستان کیلئے قر بانی دینے والوں اور نظریہ پاکستان کے فروغ دینے والے روشن ضمیر لوگوں کی وجہ سے بہت روشن ہے اورمضبوط پاکستان کشمیر کی آزادی کی ضمانت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :