لگتا ہے قومی سیاست کا مزاج تبدیل ہورہا ہے

جمعہ 26 اپریل 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

وزیر اعظم عمران خان بحیثیت وزیر اعظم جو بولتا ہے وہ تولتا ہے اور سوچ سمجھ کر بات کرتا ہے اس لیے جب بھی وہ عوام کی نظر میں ضرورت سے کچھ زیادہ بول جاتا ہے تو اْس کی تردید نہیں کرتا اور نہ ہی وضاحت کرتا ہے اگر کوئی کہتا ہے کہ عمران خان جوشِ خطابت میں غیر ارادی طور پر بول جاتا ہے تو کہنے والے کی سوچ غلط ہے اس لیے کہ عمران خان کو علم ہے ،بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔

وہ خود کو اپوزیشن کے حواص پر چھائے رکھنا چاہتا ہے وہ مخالف کھلاڑی کو باؤنسر مارکر پریشان کرتا ہے ۔
عمران خان سوچتا ہے ،مسکراتا ہے اور جوکہنا چاہتا ہے کھل کر کہہ دیا کرتا ہے۔وہ بے پرواہ ہوتا ہے وہ اخلاقی دائرے سے نکل بھی جائے تو پریشان نہیں ہوتا اس لیے کہ اخلاقی دائرے سے باہر کے الفاظ پر جلسہ عام میں اْسے بھرپور داد ملتی ہے وہ جانتا ہے کہ عوام کیا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

عمران خان نے جلسہ عام میں بلاول بھٹو کو بلاول بھٹوصاحبہ کہا اور جو کہا اْس پر عوامی ردِعمل کیلئے سانس لیا۔پنڈال تالیوں ،قہقہوں اور نعروں سے گونج اْٹھا تو عمران خان مسکرایا جیسے روح کو تسکین ملی ہو۔
 تسلیم کرنا ہوگا کہ عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم جوکہا غلط کہا بداخلاقی کی انتہاہے لیکن ہمیں بھی توسوچنا ہوگا کہ اپوزیشن کی قیادت اور اْن کے درباری اپنے عوامی جلسوں اور پریس کانفرنس میں عمران خان کے نام کی تلاوت تو نہیں کیا کرتے۔

بدکلامی کا جواب تو بدزبانی سے ہی ملے گا۔
بدقسمتی سے دورِحاضر میں قومی سیاست کا مزاج ہی اخلاقی دائرے سے باہر نکل آیا ہے قومی سیاست کا مزاج ہی مداری کا تماشہ بن گیا ہے اپوزیشن ہو یا حکمران جماعت کے وزیر اعظم یا اْن کے ترجمان درباری سب ایک ہی اندازِ فکر میں جمہوری قدروں کا مذاق اْڑارہے ہیں۔ عمران خان نے بلاول بھٹو کو صاحبہ کہہ دیا تو پاکستان کی درباری سیاست اور الیکٹرونک میڈیا میں جیسے زلزلہ آگیا۔

لگتا ہے وزیر اعظم چاہتے بھی ایسا ہی تھے میڈیا کی خبروں ، ٹی وی ٹاکروں اور سوشل میڈیا پر توہین آمیز بحث شروع ہوگئی اورخان صاحب مسکراتے ہوئے جہاز میں بیٹھ کر چارروزہ دورے پر چین روانہ ہوگئے۔
ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ پاکستان کی عوام نے پی پی کی مفاہمت کی پالیسی او ربنیادی نظریات کو نظر انداز کیے جانے پر قومی سطح پر مسترد کرکے ایک صوبے تک محدود کر دیا ہے عوام کی نظر میں آصف علی زرداری پی پی کی شہید قیادت کی قومی جمہوری سیاست سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں مسلم لیگ ن سے ان کی محبت کو قومی سطح پر پی پی کے نظریاتی کارکنوں نے تسلیم نہیں کیا یہ ہی پی پی کی زوا ل کا سبب ہے ذاتی مفادات کیلئے عوامی طاقت کو نظر انداز کرکے بلاول بھٹو کے سیاسی مستقبل کو تاریک کر دیا ہے اس لیے آج کل بلاول بھٹو قومی جمہوری سیاست میں شیخ رشید کی زبان بول رہے ہیں۔

بلاول بھٹو کی سوچ پر خود پرست عوامی نمائندوں کی بدزبانی حاوی ہوگئی ہے۔مسلم لیگ ن نے الیکشن سے قبل نہ صرف عمران خان اور آصف علی زرداری پر ذاتی حملے کیے بلکہ قومی اداروں کو بھی نہیں بخشا جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں۔بلاول بھٹو اور عمران خان کے درمیان لفظی جنگ قوم کے سنجیدہ مزاج لوگوں کی نظر میں اعلیٰ قیادت کی شان نہیں بازاری زبان جمہوری سیاست کی توہین کے مترادف ہے۔لگتا ہے توہین آدمیت کے مرتکب سیاسی رہنما اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بدزبانی اور بداخلاقی کوفروغ دے رہے ہیں لگتا ہے قومی سیاست کا مزاج تبدیل ہورہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :