مسلم لیگ ن کیساتھ بلاول بھٹو کاسفر سیاسی خودکشی کے مترادف

جمعہ 24 مئی 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

مسلم لیگ ن کیساتھ پیپلزپارٹی کا سیاسی سفر شہید قیادت اور پیپلزپارٹی کے بنیادی نظریات کی توہین ہے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی فرینڈلی اپوزیشن کے کردار سے پیپلزپارٹی اپنا وجود کھوچکی ہے اور رہی سہی کسربلاول بھٹو نکال رہے ہیں ۔مسلم لیگ ن نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے سہارو ں کا سہارا لیا موقعہ پرستی میں مسلم لیگ ن کے کردار سے کون واقف نہیں ۔

پیپلزپارٹی کی شہید قیادت اور قیادت سے محبت کرنے والے جیالوں پر ضیاء الحق سے میاں نواز شریف کے دورِ اقتدار تک کیے جانے والے ظلم وجبر کو پیپلز پارٹی کے جیالے کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں ۔زرداری ہاؤس میں بلاول بھٹو نے مسلم لیگ ن اور اُس کی حواری جماعتوں کے قائدین کے اعزاز میں افطار عشائیہ کا اہتمام کرکے پیپلزپارٹی کے بنیادی نظریے کا خون کیا ہے جیالوں کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی پاکستان کی ایک عوامی قوت ہے بلاول بھٹو مسلم لیگ ن اور جمعیت العلمائے پاکستان کے قدموں میں اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں زرداری ہاؤس میں محترمہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان ایک صوفے پر بیٹھ کر بلاول بھٹو قوم کو کیا تاثر دے رہے ہیں ۔یہی مریم نواز تھیں جس نے جلسہ عام میں واشگاف الفاظ میں عمران ،بلاول بھائی بھائی کے نعرے لگوائے تھے ۔

یہی حمزہ شہباز جس کے والد شہباز شریف نے آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا شور مچایا تھا ۔یہی وہ مسلم لیگ ن ہے جس کے قائد میاں نواز شریف نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی جعلی فحش تصاویر لاہور میں فضا سے گرائیں تھیں ۔یہی وہ مسلم لیگ ن ہے جس کے ظلم وجبر سے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی پر مجبور ہوگئی تھیں یہی وہ مسلم لیگ ن ہے جس کے قائد کے سیاسی باپ ضیاء الحق نے عوامی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ماورائے عدالت قتل کروایا تھا آج بلاول بھٹو اُسی جماعت کی اولاد کے درمیان بیٹھ کر قوم کو کیا پیغام دے رہے ہیں ۔

پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت ،نفیسہ شاہ ،شیری رحمان ،خورشید شاہ جیسے مشیروں کی مشاورت میں بلاول بھٹو جس راہ ر چلے نکلے ہیں اُس کی منزل بلاول بھٹو کی سیاسی خودکشی کے مترادف ہے ۔
زرداری ہاؤس میں کل کے دشمن آج کے سیاسی بہن بھائی
شہرِ اقتدار میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوکی زرداری ہاؤس میں سیاسی افطار عشائیے کا اہتمام ہوا ۔

دوقومی سیاسی جماعتوں کیساتھ علاقائی جماعتوں ،جمعیت العلمائے پاکستان ،اے این پی ،پی ٹی ایم او ردوسری تانگہ پارٹیوں کی قیادت آئی ۔سب کے چہروں پر بلا کی مسکراہٹ تھی شاید اپنے کل کے بیانات پر شرمندگی کو چھپانے کیلئے لیکن قوم بھولنے والی نہیں ہمیں یاد ہے جب مریم نواز نے جلسہ عام میں واشگاف لفظوں میں نعرے لگوائے تھے بلاول عمران بھائی بھائی اور آج بہن بھائی ایک صوفے پر ایسے بیٹھے تھے کہ یک جان دوقالب عام لفظوں میں اسے سیاست کہتے ہیں لیکن یہ سیاست نہیں بلا کی منافقت ہے مریم نواز نے دوبھائیوں میں بلاول بھٹو کو پاس بٹھالیا اور اُس کے دوسرے بھائی عمران خان کو وزیر اعظم تسلیم کرنے سے انکار کردیا مریم نواز کیساتھ صوفے پر اُس کے چچازاد بھائی بھی پریشان تشریف فرماہیں ۔

حمزہ شہباز کی پریشانی کا علم تو نہیں البتہ شرمندہ ضرورہونگے کہ اُس کے ابا جان میاں شہباز شریف نے جس کے ابا سے متعلق کہا تھا میں آصف علی زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا اُس کا پیٹ پھاڑ کر اُس سے اُس کی لوٹی ہوئی دولت نکالوں گا میں اُسے راوی کے پل سے نیچے لٹکاؤں گا آج اُسی کا بیٹا اُن کے درمیان صوفے پر جلوہ افروز ہے تصویر میں اگر دیکھیں تو مریم نواز بھی منہ چھپا رہی ہیں شاید اپنے گزشتہ کل کے بیانیے پر شرمندہ ہیں لیکن خو دپرستی کی سیاست میں یہ کوئی انوکھی یا انہونی نہیں اس لیے کہ جس وزیر اعظم کو وہ نالائق اور جاہل قرار دے رہے ہیں اُسی وزیر اعظم نے عوامی قوت سے افطار عشائیے میں شریک موروثی سیاستدانوں کو شکست سے دوچار کر دیا اور آج اُسی وزیر اعظم کے خلاف ایک ہوکر تحریک کا سوچ رہے ہیں ۔


زرداری ہاؤس کے سیاسی افطار عشائیے میں شریک اپوزیشن کی ہاری جماعتوں نے اتفاقِ رائے سے مولانا فضل الرحمان کو آگے لگانے کا فیصلہ کیا ہے وہ فضل الرحمان جو اپنے حلقہ انتخاب کی دونشستوں پر عبرتناک شکست سے دوچار ہوئے ہیں اس لیے کہ وہ سب سے زیادہ دکھی ہیں اور اُسے اُس کا دکھ بے چین کیے ہوئے ہے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ عیدالفطر کے بعد مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اے پی سی کا باقاعدہ اجلاس ہوگا جس میں فیصلہ ہوگا کہ عوام کی منتخب حکمران جماعت تحریک انصاف کے خلاف اجتماعی تحریک کیوں اور کیسے جلائی جائے گی ۔

ظاہر ہے افطار عشائیہ ایک شو تھا حکومت اور حکومت کی پشت پناہ قوت کو خبردار کرنے کیلئے کہ ہم چین سے بیٹھیں گے اور نہ بیٹھنے دیں گے ۔
اپوزیشن کی یکجہتی سے قوم نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ خودپرست شکست خوردہ مخلوق قومی یکجہتی ،حسن جمہوریت ،وقارِ قومیت سے بے پرواہ ہوکر جب چاہیں اپنے گزشتہ گھناؤنے کل کو بھول کر ایک ہوجاتے ہیں ۔ویسے بھی تو یہ لوگ الگ الگ جی کب سکتے ہیں ۔

ان کی کہانی ان کی مثال علی بابا چالیس چوروں کی ہے ان میں ایک مسند ِاقتدار پر ہوتا ہے تو دوسرے اُس کے حواری مختلف روپ میں ایک ساتھ ہوتے ہیں اجلاس میں میاں نواز شریف کی صاحبزادی نے پہلی بار سچ کہا ہے کہ بلاول بھٹو نے ہر مشکل گھڑی میں ہماری فیملی کا ساتھ دیا ہے والدہ کی وفات پر تعزیت کی اور میاں نواز شریف سے ملاقات میں اُن کی خیریت پوچھی لیکن شاید مریم نواز بھول گئی ہیں کہ بلاول بھٹو اُس بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے جس کی جعلی برہنہ تصاویر میاں نواز شریف نے فضا سے گرائی تھیں ۔

بلاول بھٹو اُس خاتون وزیر اعظم کی اولاد ہیں جسے اُس کی زندگی میں میاں نواز شریف نے سکون کا سانس نہیں لینے دیا تھااور وہ خودساختہ جلاوطنی پر مجبور ہوگئی تھیں لیکن سوچنا تو بلاول بھٹو کو ہے جس نے اپنی ماں اور اپنے نانا کی تذلیل کو نظر انداز کیا ۔
بلاول بھٹو یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ مستقبل کے روشن چراغ ہیں لیکن بدقسمتی سے بلاول بھٹو اپنے بابا کی حکمرانی میں اُن کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے قوم اور پیپلز پارٹی کے بنیادی سوچ اور منشور کو بھول گئے ہیں ۔

بلاول بھٹو کو پاکستان کی غیور عوام پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔تانگہ قوم پرست اور پی ٹی ایم جیسی تانگہ پارٹیوں کے درمیان بیٹھ کر وہ نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ اپنے نانا اور والدہ کی سوچ اور کردار کی توہین کررہے ہیں اُسے اپوزیشن میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے آج اگر اُس کی دعوت پر سیاست کے ہارے ہوئے جواری اکٹھے ہوئے ہیں تو اُس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بلاول بھٹو کی قوت بن رہے ہیں یہ خودپرست اور موقع پرست ہیں مسلم لیگ ن کی سیاست دم توڑ چکی ہے قیادت زیر عتاب ہے مریم نواز کے والد جیل میں ہیں اس لیے وہ پاکستان میں ہیں میاں ناز شریف دہائیاں دے رہے ہیں مجھے جیل سے نکالو مجھے بیرونِ پاکستان جانا ہے میاں صاحب !اگر بیرونِ پاکستان جاتے ہیں تو مریم نواز اور حمزہ شہباز نے پاکستان میں کیا کرنا ہے بلاول بھٹو کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی کا سیاسی گراف گرا ہے تو اس کی بڑی وجہ آصف علی زرداری کی غلط پالیسی خودغرضی ،خودپرستی اور مسلم لیگ ن کاساتھ ہے ۔

بلاول بھٹو اُس وقت ماں کی گود میں تھے جب پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے میاں نواز شریف کے جبروتشدد کی زد میں تھے جیالے کیسے بھول سکتے ہیں۔
 ذوالفقار علی بھٹو او ربے نظیر بھٹو کے جیالے میاں نواز شریف کے سیاسی کردار سے نفرت کرتے ہیں ۔بلاول بھٹو کا محترمہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کیساتھ ایک صوفے پر بیٹھنا جیالا ازم کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے ۔

خلوصِ نیت سے قوم پرستی میں بڑی طاقت ہے ۔بلاول بھٹو کو عوام کی قوت پر بھروسہ کرنا چاہیے تھا اگرمریم نوا زکہتی ہیں کہ اُس نے بلاول بھٹو کی سیاسی افطار ڈنر کی دعوت خوشی سے قبول کر لی پارٹی اختلافات اپنی جگہ لیکن ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا مشرقی روایات ہیں لیکن اُس نے وضاحت نہیں کی کہ مشرقی روایات واقدار کیا ہیں آج اگر اُن کو مشرقی روایات عزیز ہیں تو اس لیے کہ اُس کے بابا جانی زیر عتاب ہیں قوم مریم ناز کے دکھ اور درد کو جانتی ہے قوم جانتی ہے کہ اُن کا درد اُن کے بابا کا دکھ ہے جس کا وہ برملا اظہار کر تے رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا اور آج کہہ رہے ہیں مجھے نکالو میں نے باہر جاناہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :