اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

بدھ 12 جون 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں درخواست ضمانت مسترد ہوجانے کے بعد NABکی ٹیم گرفتاری کیلئے زرداری ہاؤس آئی تو زرداری ہاؤس کے باہر جیالوں نے نہ تو ہنگامہ آرائی کی اور نہ ہی بلاول بھٹونے جیالوں کو کال دی ِ،آصف علی زرداری مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرح گھر میں روپوش ہوئے اور نہ ہی حمزہ شہباز شریف کی طرح گھر کی چھت پر جاکر بیٹھے ۔

گرفتاری کے خوف سے مسلم لیگ ن کے عمل کو پورے پاکستان کیا دنیانے دیکھا تھا ۔آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے عملی قیادت کا ثبوت دیا !! آصفہ بھٹو نے اپنے والد کو گلے لگا کر رخصت کیا اور بلاول بھٹو والد کو گاڑی تک چھوڑنے آئے اپنے والد کو مسکراتے ہوئے رخصت کیا اس لیے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کیلئے شہادت اور جیل کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی پہلا موقع تھا!
قوم جانتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بڑے وقار سے تختہ دار پر جاکر جھول جاتی ہے قیادت ہزاروں جیالوں کے درمیان ہاتھ ہلا ہلا کر جامِ شہادت نوش کر جاتی ہے آصف علی زرداری کی گرفتاری پر پیپلزپارٹی کاردِ عمل لازم ہے لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات میں سچائی ہے یابدنیتی ۔

(جاری ہے)

یہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے البتہ آصف علی زرداری نے بلاکسی احتجاج ومزاحمت کے گرفتاری دے کر ثابت کر دیا کہ پیپلزپارٹی ایک قومی اور باوقار سیاسی جماعت ہے جو قانون اور عدلیہ کا احترام جانتی ہے ۔
آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد بلاول بھٹو زرداری کے چہرے پر ایسے کوئی تاثرات نہیں تھے جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ گرفتاری سے پریشان ہیں بلاول بھٹو نے بڑی خندہ پیشانی سے صورتحال کا سامنا کیا اور کہا کی پیپلزپارٹی کی قیادت کو جیل کی سلاخوں اور گرفتاریوں سے ڈرایا نہیں جاسکتا۔

ہم عدالتوں کا احترام جانتے ہیں اور فیصلہ وقت کرے گا کہ حکمران ذاتی انتقام میں مدہوش ہیں یا قانون کی حکمرانی میں !!
 پیپلزپارٹی کے سیاسی مخالفین کچھ بھی کہیں لیکن صاحبانِ ضمیر کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی عوام پر اعتماد کیا کسی فردِ واحد سے زندگی کی خیرات مانگی اور نہ ہی کسی سے جلاوطنی کے لئے خیرات مانگی اور نہ ہی دہلیز پر سجدہ دیا ۔

دنیا جانتی ہے کہ دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا خون آج بھی سوہنی دھرتی میں مہک رہا ہے ۔آصف علی زرداری بخوبی جانتے ہیں اور برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں یہ زندہ دل قیادت کی پہچان ہے ۔
آصف علی زرداری قومی سیاست میں تیسری مرتبہ گرفتار ہوئے ہیں 10اکتوبر1990ء کو سی آئی اے کی ٹیم نے ایف آئی اے کے دفتر کے قریب سے گرفتار کیا تھا گرفتاری سے قبل جب آصف علی زرداری کو بتایا گیا کہ سی آئی اے کراچی کے ڈی ایس پی اُنہیں گرفتار کرنے آئے ہیں تو آصف علی زرداری خاموشی سے اپنے دفترسے نکلے اور ڈی ایس پی کے ہمراہ پولیس وین میں سوار ہوکر سی آئی اے سنٹر کے لاک اپ میں چلے گئے ۔

آصف علی زرداری کی گرفتاری پر سابق وزیر اعظم اور شریک حیات بے نظیر بھٹو نے ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ آصف علی زرداری نظامِ جمہوریت اور عوام کے بنیادی حقوق کیلئے جیل گئے ہیں۔ پہلی گرفتاری کے بعد آصف علی زرداری 27ماہ تک قیدرہے جب انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ضمانت ملی رہائی کے وقت آپ سول ہسپتال کراچی میں زیر علاج تھے ۔

سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری منتخب حکومت 4نومبر1996کو برطرف ہوئی تو آصف علی زرداری بھی اپنی وزیر اعظم اہلیہ کیساتھ گرفتار کر لیے گئے اور 22نومبر2004ء کو اپنے خلاف آخری مقدمہ میں ضمانت پر رہاہوئے اس وقت ان کے خلاف مختلف نوعیت کے 14مقدمات درج تھے ۔4مقدمات میں بری ہوئے اور باقی مقدمات میں اُن کی ضمانت منظورہوئی ۔
آصف علی زرداری کی گرفتاری سے قومی سیاست کیساتھ ساتھ اپوزیشن کو احتجاج کا بہترین موقع ملا ہے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرشہباز شریف نے اپنی تقریر کے دوران آصف علی زرداری کی سیاست کے گیت گائے اس لیے کہ مسلم لیگ ن اب پیپلز پارٹی کے کندھے پر بندوق رکھ کر حکمران جماعت کا نشانہ لے گی اور آصف علی زرداری کی مظلومیت کو کیش کرے گی حالانکہ اُن کے بھائی بھی جیل کی سلاخو ں کے پیچھے اپنے کل کیلئے پریشان ہیں لیکن پیپلز پارٹی سے محبت میں ضرورت ہے کچھ آگے ہی نکل گئے یہ ہی شہباز شریف ہیں جو 2018ء کے الیکشن سے قبل کہا کرتے تھے کہ میں آصف علی زرداری کو لاہو رکی سڑکوں پر گھسیٹوں گا سیاست میں بعض لوگ منافقت کی پہچان ہوتے ہیں۔

 اس لیے آج کی اپوزیشن جس نے پہلے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو اکھاڑا بنارکھا ہے مزید شور شرابا کرکے اپنا دکھ پیٹیں گے لیکن اگر کسی کو کوئی غلط فہمی ہے کہ کچھ ہوجائے گا تو وہ غلط فہمی دور کردیں اس لیے کہ کچھ نہیں ہونے والا پاکستان کی عوام حکمران جماعت کیساتھ ہے افواجِ پاکستان اور عدلیہ حکومت کے کردار اور عمل سے مطمئن ہے ۔اپوزیشن اپنی سیاسی لاش پر ماتم کیلئے اگر سڑکوں پر نکلتی ہے تو نکل آئے لیکن ایسا کچھ نہیں کہ کچھ ہوجائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :