تین خواتین بولتی ہیں تو کمال کرتی ہیں

ہفتہ 15 جون 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

تحریک انصاف کی حکمرانی ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مدینہ ثانی کی آوازیں گونج رہی ہیں وزیر اعظم کہتے ہیں مرجاؤں گا کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا اپوزیشن کی اعلیٰ قیادت جیل میں ، اعلیٰ سے ادنیٰ عدالتوں کی دہلیز پر ہے اور اُن کے درباری راگ الاپ رہے ہیں کہ عمران خان بیوقوف ہے اب یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ عمران خان بیوقوف ہے یا عمران خان کو بیوقوف کہنے والے بیوقوف ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو عمران خان کو بیوقوف کہنے والے بذاتِ خود بیوقوف ہیں اور قوم کو بیوقوف بنارہے ہیں اس لیے کہ جب میاں محمدنواز شریف کی حکمرانی اور پیپلز پارٹی کی سلطانی میں عمران خان نے ڈی چوک میں دھرنا دے کر نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ استعفیٰ دو اُس وقت بھی میاں صاحب اوراُس کے درباری جو آج منظر سے غائب ہیں عمران خان کو بیوقوف کہہ رہے تھے لیکن عمران خان دھرنے سے اُٹھ کر وزارت ِاعظمیٰ کی کرسی پر جلوہ افروز ہوئے اس لیے کی بیوقوف تھا اور عقلمندوں کی حالت کیا ہے کوئی ملک سے بھا گیا کوئی جیل میں ہے او ر کوئی جانے کیلئے بوریا بستر باند ے انتظار میں ہے۔

(جاری ہے)

 قوم کی سوچ رہی ہے کیا واقعی! عمران خان اپنی بیوقوفی کی معراج پر ہے اس لیے کہ اپوزیشن ایک ہی راگ الاپ رہی ہے لیکن ایسا نہیں اپوزیشن جھوٹ بول رہی ہے قوم کو ورغلانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ، دنیا کو بتارہی ہے کہ نیب اور عمران خان کا گھٹ جوڑ ہے حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ صرف نیب اور عمران خان کا گھٹ جوڑ نہیں بلکہ اس گھٹ جوڑ میں عدلیہ اور افواجِ پاکستان بھی ہے لیکن اگر اپوزیشن کی سمجھدانی میں یہ بات نہیں آرہی تو قصور بیوقوف کاہے ۔

 دنیا جانتی ہے کہ جب عمران خان نے دھرنے کے دوران کہا کہ امپائر کی اُنگلی اُٹھنے والی ہے تو اپوزیشن نے مذاق اڑایا، کہا عمران خان پر کرکٹ کا بھوت سوار ہے اور یہ بات آج بھی اُن کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے ضروری تو نہیں کہ اُنگلی والا بوٹ پی کیپ اور وردی میں ملبوس نظر آئے ۔البتہ ہمیں تو نظر آرہا ہے اور اُنگلی والا بھی اپوزیشن کی بیوقوفی پر مسکرارہا ہے ۔

وطن عزیز میں عجب تماشہ لگا ہے حکمران اور اپوزیشن اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں ۔ٹی وی سکرین ، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں بیان بازی کی جنگ شروع ہے اپوزیشن کو سنیں یا پڑھیں تو لگتا ہے عمران خان کی حکومت کل گئی لیکن جب حکمران اور اُ ن کے درباری کو سنیں تو لگتا ہے اپوزیشن کا سورج غروب ہورہا ہے ، ایک بات ہے کہ ٹی وی سکرین پر نظر آنے والے ٹی وی اینکرز اور اُن کے سامنے تشریف فرما سیاسی جماعتوں کے درباری اس قدر سفید جھوٹ بولتے ہیں کہ سننے والوں کو شرم آجاتی ہے لیکن اُن کی زبان ہی نہیں رکتی ٹی وی اینکراُن کو مسکرامسکرا کر جماجما کر جوتے مارہاہوتا ہے پھر بھی وہ بول رہے ہوتے ہیں۔

 البتہ ایک لفظ جس کی بڑی تشہیر ہو رہی ہے وہ لفظ ہے غریب بڑے وقار سے غریب کی غربت کا مذاق اُڑایا جارہا ہے ۔کہتے ہیں غریب کا جینا حرام کردیا تحریک انصاف کی حکمرانی میں ، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ سابقہ ادوارِ حکمرانی میں غریب کی جو درگھت دنیا نے دیکھی بے مثال تھی،اگر رہی سہی کثرتحریک انصاف کی حکمرانی میں نکل رہی ہے تو کوئی نئی یا بڑی بات نہیں ۔

غریب کے خون پسینے سے رنگین شامیں سجانے والے کیا جانے کہ غربت کیا ہوتی ہے یہ لوگ تو کبھی غریب کی غربت کے قریب سے بھی نہیں گزرے لیکن حیرانی تو اُس وقت ہوتی ہے جب سابقہ ادوار کے حکمران بولتے ہیں کہ غریب مر گیا مہنگائی بڑھ گئی کوئی پوچھے ان سے کیا گزشتہ ادوار میں جب تم حکمران تھے دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں جو موجودہ دور حکمرانی کی خشک سالی میں سوکھ گئی ہیں البتہ ایک بات جو پوری قوم کو ستلیم کرنا پڑے گی وہ یہ کہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو تھیں جس نے اپنی سیاست کی اُنگلی سے دور حاضر کے سیاستدانوں کو اُنگلی پر نچایا تھا اور آج دونوں جماعتوں کی تین خواتین پوری قوم کو اُنگلی پر نچارہی ہیں حکمران پارٹی اور اپوزیشن نے فردوش عاشق اعوان ،مریم اورنگزیب اور مریم صفدر کو بے لگام بولنے کے مکمل اختیارات دے رکھے ہیں وہ بولتی ہیں تو کمال کرتی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :